Friday, 31 August 2012

Idol Worship in Christianity : مسیحیت میں بت پرستی


بُت پرستی

 
میری کتاب بادشاہت یا بغاوت سے ماخوذ سن اشاعت ۲۰۱۰ م ۔ اصل متن میں باب نمبر چار۔


بت فارسی اسمِ مذکر ہے جس کا مطلب مورتی ،مجازاً معشوق ، چپ ، خاموش یا احمق لیا جاتا ہے ۔ لفظ بت کو پورے معنوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ لغت کے مطابق بت دیوی یا دیوتا کا وہ عکس ، شبیہ یا نمونہ ہے جسے عبادت کے لئے استعمال کیا جاتاہے ،لیکن یہ تعریف ادُھوری سی معلوم ہوتی ہے ۔ انگریزی میں ایک تعریف بت کو زیادہ بہتر الفاظ میں یوں بیان کرتی ہے :
An idol is a false notion or idea that causes errors in thinking or reasoning

عہد نامہ عتیق کا مطالعہ کیا جائے تو بت پرستی وہ واحد گناہ ہے جس کاذکر بارہا بڑے سخت الفاظ میں کیا گیا ہے ۔بت پرستی ہی بنی اسرائیل کے زوال کا سبب بنی اور آج مسیحیت بھی اِ سی کا شکا رہے ۔ بے شک مسیحیت نے بت پرستی سے منع کیا ہے لیکن موجودہ طے شدہ مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد مسیحیت کے خلا ف اس محاذ پر نبرد آزما ہے ۔ موضوع کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے بت پرستی کو دو ذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : مسیحی بت پرستی اور غیر مسیحی بت پرستی ۔

مسیحی بت پرستی

مسیحی بت پرستی سے مراد مسیحیت میں رہتے ہوئے مسیحیت سے متعلقہ بتوں کی پرستش کرنا ہے ۔ یہ بت پرستی کی اعلیٰ قسم ہے جو زیادہ تر مسیحیوں میں قابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مسیحیت کا لبادہ اوڑھے ہے۔ بائبل مقدّس واضح طور پر بیان کرتی ہے:’’میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا ۔ْ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ْ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرناکیونکہ مَیں خداوند تیرا خُدا غیور خدا وندہوں۔۔۔‘‘(خروج ۲۰:۳۔۵) لیکن بت پرست اپنے گناہ کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ ہم مسیح یا مسیحی قائدین کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو کسی صورت بھی غیر معبود نہیں ہوسکتے ، کیونکہ وہ خود مسیحی تھے۔ ایسے تمام اصحاب کے لئے بائبل مقدّس میں سے ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا:
’’ اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام مَیں تم کو سکھاتا ہوں تم اُن پر عمل کرنے کے لئے اُن کو سن لو تاکہ تم زندہ رہو اور اُس ملک میں جسے خداوند تمہارے باپ دادا کا خدا تم کو دیتا ہے داخل ہوکر اس پر قبضہ کر لو ۔ْ جس بات کا مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کوجو مَیں تم کو بتاتا ہوں مان سکو۔ْ جو کچھ خداوند نے بعل فغور کے سبب سے کیا وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ اُن سب آدمیوں کو جنہوں نے بعل فغور کی پیروی کی خداوند تیرے خدا نے تیرے بیچ سے نابود کر دیا۔ْ پر تم جو خداوند اپنے خدا سے لپٹے رہے ہو سب کے سب آج تک زندہ ہو ۔ْ دیکھو! جیسا خداوند میرے خدا نے مجھے حکم دیا اس کے مطابق مَیں نے تم کو آئین اور احکام سکھا دئیے ہیں تاکہ اُس ملک میں اُن پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لئے جارہے ہو۔ْ سو تم اُن کو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہریں گے ۔۔۔سو تُو ضرور ہی اپنی احتیاط رکھنا اور بڑی حفاظت کرنا تانہ ہو کہ تو وہ باتیں جو تو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول جائے اور وہ زندگی بھر کے لئے تیرے دل سے جاتی رہیں بلکہ تو اُن کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔ْ خصوصاًاُس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خدا کے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھا کہ قوم کو میرے حضور جمع کر اور مَیں ان کو اپنی باتیں سناؤں گا تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ْ چنانچہ تم نزدیک جاکر اُس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑآگ سے دہک رہا تھا اوراس کی لَو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی ۔ْ اور خداوند نے اس آگ میں سے ہوکر تم سے کلام کیا ۔تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صورت نہ دیکھی ، فقط آواز ہی آواز سنی ۔۔۔سو تم اپنی خوب ہی احتیاط رکھنا کیونکہ تم نے اُس دن جب خداوند نے آگ میں سے ہوکر حورب میں تم سے کلام کیا کسی طرح کی کوئی صورت نہیں دیکھی ۔ْتانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لئے بنالو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت۔ْ یازمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے۔ْ یا زمین کے رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ۔ْ یا جب تو آسمان کی طرف نظر کرے اور تمام اجرام فلک یعنی سورج اور چانداور تاروں کو دیکھے تو گمراہ ہوکر ان ہی کو سجدہ اور ان کی عبادت کرنے لگے جن کو خداوند تیرے خدا نے رویِ زمین کی سب قوموں کے لئے رکھا ہے ۔ْ۔۔۔سو تم احتیاط رکھو تانہ ہو کہ تم خداوند اپنے خدا کے اُس عہد کو جو اُس نے تم سے باندھا ہے بھول جاؤ اور اپنے لئے کسی چیز کی شبیہ کی کھودی ہوئی مورت بنالو جس سے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو منع کیا ہے ۔ْ۔۔۔یہ سب کچھ تجھ کو دکھایا گیا تاکہ تو جانے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں ۔ْ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (استثنا
۴:۱۔۴۰)
اس حوالہ کی روشنی میں ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے بت پرستی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کلامِ مقدّس اس حقیقت کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتا
ہے: ’’۔۔۔ مَیں ہی نے خلق کیا اور مَیں ہی اٹھاتا رہوں گا مَیں ہی لئے چلوں گا اور رہائی دوں
گا ۔ْ تم مجھے کس سے تشبیہ دو گے اور مجھے کس کے برابر ٹھہراؤ گے اور مجھے کس کی مانند کہو گے تاکہ ہم مشابہ ہوں ؟۔ْجو ہتھیلی سے باافراط سونا نکالتے اور چاندی کو ترازو میں تولتے ہیں وہ سنار کو اُجرت پر لگاتے ہیں اور وہ اُس سے ایک بت بناتا ہے پھر وہ اُس کے سامنے جھکتے بلکہ سجدہ کرتے ہیں۔ْ وہ اُسے کندھے پر اُٹھاتے ہیں وہ اُسے لے جاکر اُس کی جگہ پر نصب کرتے ہیں اور وہ کھڑا رہتا ہے وہ اپنی جگہ سے سِرکتا نہیں بلکہ اگر کوئی اُسے پکارے تو وہ نہ جواب دے سکتا ہے اور نہ اسے مصیبت سے چھڑا سکتا ہے ۔ْ اے گنہگارو ! اس کو یاد رکھو اور مرد بنو اس پر پھر سوچو ۔ْ ‘‘ (یسعیاہ
۴۶:۴۔۸)۔ اگر دینے والا صرف خدا ہی ہے تو پھر کیا ہم خدا کو کسی بت سے تشبیہ دے کر راست ٹھہرا سکتے ہیں ؟ کیا کلامِ مقدّس ہم پر بت کی بے بسی واضح نہیں کرتا ؟ ہم کیوں ان باتوں کے متعلق نہیں سوچتے ؟
سجدہ صرف زندہ خدا ہی کو واجب ہے ۔ مکاشفہ
۲۲:۸،۹ ملاحظہ کیجئے: ’’۔۔۔اور جب مَیں نے سنا اور دیکھا تو جس فرشتہ نے مجھے یہ باتیں دکھائیں مَیں اس کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گرا ۔ْ اس نے مجھ سے کہا خبردار ! ایسا نہ کر مَیں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہم خدمت ہوں ۔ خدا ہی کو سجدہ کر ۔ْ‘‘ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ خُدا کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جائے ۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو غیر فانی خدا کے جلال کو فانی چیزوں سے بدل کر بے حرمت کرتے ہیں ۔
رومیوں
۱:۲۱۔۲۳ ہمارے اس طرزِ عمل کو یوں پیش کرتا ہے:’’اگرچہ انہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اس کی خدا ئی کے لائق اس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا ۔ْ وہ اپنے آپ کو دَانا جتا کر بیوقوف بن گئے ۔ْ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ْ‘‘ ان آیات سے ایک اور بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فانی انسان یا گزرے مقدسین کی پرستش بھی بت پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی
چاہیے ۔
مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ یہ دونوں عقائد کلامِ مقدّس کے منافی ہیں کیونکہ پرستش صرف زندہ خدا ہی کی کرنی چاہیے۔ (بحوالہ جلالی کلیسیا : از پروفیسر دانی ایل بخش ص
۲۸۷)۔
مندرجہ بالا حوالہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے جن سے آج تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستگی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال
۱۰:۲۵،۲۶)۔
پطرس رسول نے زندہ حالت میں کسی انسان کو سجدہ کرنے سے منع کیا تو کیا یہ واجب ہے کہ ہم دوہزار سال گزر جانے کے بعد اس کا یا اس کے کسی اور ہم خدمت کا بت بناکر اسے سجدہ کریں ؟ بقول مضطر ؔ کاشمیری:
جنا بِ شیخ نے دنیا کو کیا الو بنا یا ہے
بتو ں کو سامنے رکھ کے خدا نام لیتے ہیں

اپنی بات کوختم کرتے ہوئے آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گا کہ کہیں آپ بھی تو اس عمل میں مبتلا نہیں ؟ اگر ہیں تو اس سے کنارہ کشی اختیار کیجئے ۔ سسٹم سے ہرگز نہ گھبرائیے خدا جس نے آپ کو پیدا کیا ہے آپ سے بے حد پیا رکرتا ہے ۔ وہ آپ کا بہتر انتظام کرے گا۔ خدا آپ کو ہمت و طاقت دے اور جلد آپ کی آنکھیں روشن کرے۔آمین!

غیر مسیحی بت پرستی

غیر مسیحی بت پرستی سے مراد مسیحیت میں رہتے ہوئے مسیحیت سے غیر متعلقہ بتوں کی پرستش کرنا ہے ۔ گو یہ قسم باآسانی قابلِ قبول نہیں لیکن بہت سے نام نہادمسیحی حتیٰ کہ مسیحی خدا م بھی اس قسم کی گھنا ؤنی پرستش کرتے ہیں۔ مسیحیت سے غیر متعلقہ بتوں سے مراد عامل، جادو گر، پیر پرستی اور قبر پرستی ہے۔ اس قسم کو عام طور پر جادو گری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج بھی بہت سے مسیحی گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، قبروں کی پوجا کی جاتی ہے اور پیروں فقیروں کی درگاہوں پر حاضری دی جاتی ہے۔ بت پرستی کی یہ قسم مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی، یہ بغاوت کی گھنا ؤنی قسم ہے ۔ کلامِ مقدس بھی اس کی تصدیق کرتا ہے: ’’ کیونکہ بغاوت اور جادوگری برابر ہیں اور سرکشی ایسی ہے جیسے مورتوں اور بتوں کی پرستش۔ْ‘‘ (۱۔سموئیل ۱۵:۲۳)۔
خدا کے بندوں موسیٰ اور ہارون سے پیشتر دُنیا میں ابرہام اور نوح جیسے راستباز بھی تھے۔ شریعت کے نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی اپنی خواہشات کے مطابق عمل کرتے، بت بناتے، انہیں سجدہ کرتے اور ان کے آگے قربانیاں گزرانتے۔ یوں اپنے بادشاہ خدا کی جگہ دیوی دیوتاؤں کو دیتے جس سے خدا کو سخت نفرت تھی۔ اگرچہ خدا نے انہیں شریعت بھی دی لیکن وہ اپنی روش سے باز نہ آئے ۔
بائبل مقدس میں شاہِ اسور سنحیربؔ کا ذکر ملتا ہے جو نہ خدا سے ڈرتا اور نہ کسی دیوی دیوتا کی پرواہ کرتا حالاں کہ وہ خود بھی اپنے دیوتا نسروکؔ کی پرستش کیا کرتا تھا۔ یہ بڑا گھمنڈی تھا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اسے اپنے دیوتا پر بڑا فخر تھا لیکن خدا کی قدرت دیکھئے کہ وہ اپنے دیوتا نسروکؔ کے مندر میں پوجا کر رہا تھا کہ قتل کر دیا گیا ۔یعنی مندر میں وہ اپنے دیوتا کے قریب ترین تھا لیکن دیوتا اسے بچا نہ سکا ۔ (
۲ ۔سلا طین ۱۸ باب)۔ جب سمسون نے اپنی شہ زوری کا راز دلیلہ کو بتایا اور اپنی غلطی کی وجہ سے رسوا ہوا تو فلستی یہ سمجھے کہ ان کے دیوتا دجون نے انہیں فتح بخشی ۔ اگرچہ غلطی سمسون کی تھی لیکن انہوں نے اپنے دیوتا کی تعریف شروع کردی۔ (قضاۃ ۱۶ باب )۔غیر معبودوں کی بے بسی کی ایک اور مثال ہمیں ایلیا کے حوالہ سے ملتی ہے جہاں بعل کے چار سو پچاسی آدمی یا نبی بعل کی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں مگر خداوند اپنے قادر ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور لوگ پکار اٹھے کہ: خداوند وہی خدا ہے!خداوند وہی خدا ہے!
(
۱۔ سلا طین ۱۸ باب )۔
پس ہم یرمیاہ نبی کے ساتھ مل کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بتوں سے نہ ڈرو کیونکہ وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان سے فائدہ بھی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ وہ لکڑی ہیں (یرمیاہ
۱۰:۵۔۸)۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ عہد نامہ عتیق میں بنی اسرائیل اور دیگر اقوام کی بت پرستی کا ذکر بارہا ملتا ہے ۔ خدا انہیں وقتاً فوقتاً سمجھاتا بھی ہے مگر اُن پر اِن باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا ۔ موجودہ مسیحی معاشرہ بھی اسی طرزِ عمل کا اظہار کررہاہے ۔
یسوع مسیح کی زمینی آمد کے وقت بنی اسرائیل طرح طرح سے خداکی تلاش میں مصروف تھے۔ دیگر اقوام کی طرح وہ خدا کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتے تھے۔ خدا کے متعلق ان کے نظریات درست نہ تھے بلکہ مختلف دیوی دیوتاؤں کو خدا یا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔ وہ خدا کی موجودگی کو بنا دیکھے تسلیم کرنے پرراضی نہ تھے۔ اگر چہ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے آیا بھی لیکن انہوں نے اسے نہ پہچانا، وہ خدا کی طبعی صورت کو کریدنا چاہتے تھے ۔
یہی صورت حال موجودہ مسیحی کلیسیاؤں کی بھی ہے جو مختلف طریقوں سے خد ا کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں ،کبھی کسی مزار پر تو کبھی کسی پیر کے پاس یا پھر اپنے گھر میں ہی بت خانہ سجاکر۔ وہ خدا کی موجودگی کو آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ محسوس کرنا ۔پنجابی زبان کا مشہور مقولہ ’’ رب نیڑے یا گھسن؟‘‘ شاید انہی لوگوں کے لئے ہے ۔ یقیناًیہ لوگ ربّ کی بجائے گھسن کو قریب سمجھتے ہیں ۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خدا تو ایک احساس ہے جو ہر پل، ہر دم اور ہر جگہ موجود ہے ، محسوس کرنے والے اِسے محسوس کر لیتے ہیں۔وہ ہمارے سامنے ہے لیکن جب تک ہمارے من کی آنکھیں روشن نہیں ہوجاتیں ہم اسے دیکھ یا محسوس نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر بشیر بدرؔ اس خیال کی عکاسی بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں کرتا ہے :
خدا ایسے احسا س کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھا ئی نہ دے

بے شک اکثریت اس احساس کو محسوس ہی نہیں کرتی ۔ حتیٰ کہ یہ لوگ گرجا گھر میں بھی خدا کی حضوری کو محسوس نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے سے باتیں کرنے اور موبائل فون کی گھنٹیوں سے عبادت کے ماحول کو خراب کرتے ہیں۔اگر انہیں خدا کی حضوری کا ذرا بھی احساس ہو تو یہ اپنے موبائل فون بھی بندرکھیں اور اپنے منہ بھی کیونکہ کلام مقدس واعظ
۵:۱ میں واضح طور پر بیان کرتا ہے :’’ جب تو خداوند کے گھر کو جاتا ہے تو سنجیدگی سے قدم رکھ۔ْ ‘‘ ( یہ آیت Epiphany Church منٹگمری والا کے با ہر وا ضع طو ر پر تحریر کی گئی ہے لیکن اثر بہت کم لو گو ں کو ہوتا ہے ) ۔ یہ سنجیدگی ہمیں کسی اعلیٰ آفیسر یا پیر کے مزار یا درگاہ پر تو نظر آسکتی ہے خداوند کے گھر میں نہیں۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ بہت سے مسیحی خا دم یا کلیسیا ئی رہنما بھی انہی پیرو ں فقیرو ں کے در پر حا ضری دیتے ہیں اور اپنے مخالفین کو زچ کر نے کے حربے ترا شتے رہتے ہیں ۔
مجھے ذاتی طور پر بہت سے مسیحی گھرانوں میں جانے کا اتفاق ہوا جو غیر مسیحی بت پرستی میں مبتلاہیں ۔ یہ لوگ پیروں فقیروں سے ملتے ہیں اور مزاروں پر حاضریاں بھی دیتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے گھروں میں اپنے آباؤ اجداد کے قبریں بنارکھی ہیں جن پر ہر جمعرات یا منگل کو چراغ جلائے جاتے ہیں، ان کے میلے بھی منائے جاتے ہیں۔مئی
۲۰۰۶م میں مجھے ایک ایسے ہی طے شدہ گھرانے میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میری نظر عجیب قسم کی تصاویر پر پڑی جو ہندو دیوی دیوتاؤں کی تھیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان کے بیچ میں یسو ع مسیح کی تصویر بھی سجی ہوئی تھی ۔ کمرے کے ایک کونے میں چراغ پڑا ہواتھا اور اس کے ساتھ کسی بھگوان کا ایک چھوٹا سا مجسمہ بھی تھا ۔ کمرے سے عجیب قسم کی بدبو آرہی تھی جو صرف مجھے ہی محسوس ہوئی میرے ساتھیوں کو نہیں ۔ میرے لئے یہ منظر بڑا کرب ناک تھا ۔ مَیں اُن لوگوں سے ان کی ایمانی حالت کے بارے پوچھنا تو چاہتا تھا لیکن مہمان ہونے کے ناطے خاموش رہا گو اس خاموشی نے مجھے بہت توڑا ۔خُدا جانے کتنے طے شدہ مسیحی گھرانے اس گناہ میں مبتلا ہیں۔ یقیناًآپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جو اس قسم کی گھناؤنی حرکات کرتے ہیں۔
آج بہت سے مسیحی گھرانے چراغ جلانے کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ بطالت کے کام کرتے ہیں اور خدا کے نور کا متبادل چراغ کی روشنی میں ڈھونڈتے ہیں ۔ خدا کا نور دِل و دماغ کو اندرونی طورپر روشن کرتا ہے وہ فانی نور نہیں ہوسکتا۔باباجی کے لئے چراغ جلانا ایک مکروہ فعل ہے مگرلوگ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ایسا کرتے ہیں ۔ یہ لوگ باباجی سے مدد کی درخواست کرتے ہیں اور چراغ بطور منت جلاتے ہیں یا اس کے علاوہ یہ بھی بطور منت مانتے ہیں کہ وہ سال بہ سال بکرا دیا کریں گے ،کڑاہی دیا کریں گے ، مرغ دیا کریں گے یا پھر دیگیں چڑھایا کریں گے ا ور جب اُن کی مراد پوری ہوجائے تو وہ ایسا کرتے بھی ہیں بلکہ مراد پوری ہونے سے پہلے ہی اس سلسلے کا آغا ز کر دیتے ہیں،یوں باباجی کی شان دوبالا ہوجاتی ہے۔ لاتعداد طے شدہ مسیحی اِس دوڑ میں شامل ہیں۔ وہ مسیح کی عظیم فتح کا نعرہ کیوں نہیں سمجھتے ؟ وہ زندہ کو مُردوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟
موجودہ دور میں طے شدہ مسیحی مسیحیت سے بے حد منحرف ہوچکے ہیں ۔ اپنے نام کے ساتھ مسیح لگاتے ہیں اور ساتھ میں ’’ بنگالی ‘‘وغیرہ بھی لکھتے ہیں ۔ اخبارات میں اشتہار آتے ہیں، عامل رحمت مسیح بنگالی ، عامل غلام مسیح بنگالی وغیرہ اصلی عیسا ئی خا ندا ن سے تعلق رکھنے والے کالے ، نوری و سفلی علم کی کاٹ پلٹ کے ماہر ۔ مایوسی گناہ ہے، آپ کی ہر مراد پوری ہوگی،ہم ہر کا م مؤکلات کی مدد سے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا آج تک ہمارے کسی مسیحی رہنما نے ان پر باضابطہ اعتراض کیا ؟ کیا ان کے خلاف کبھی کوئی قراردادِ مذمت پیش ہوئی؟ کیا یہ باتیں صرف پڑھنے کے لئے ہیں کہ ’’ مسیح کو بلعیال سے کیا نسبت ؟‘‘ کیا ہمارے مسیحی رہنما ایسے دھوکے بازوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے جو مسیح کا نام غلط طور پر استعمال کرتے ہیں ؟ یہ عامل ہزاروں کے حساب سے رقم وصول کرتے اور مسیح کے مقدس نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ یہ بات فخریہ طور پرکہتے ہیں کہ ان کے پاس کالا علم یعنی شیطانی علم بھی ہے اور نوری علم یعنی مسیحی معجزات بھی۔آپ خود انصاف کرسکتے ہیں کہ یہ کتنا سچ بولتے ہیں ۔ کیا چشمے کے ایک ہی منہ سے میٹھا اور کھاری پانی نکل سکتا ہے ؟ کیا مؤکلات کی طرح مسیح بھی ان کی قید میں ہے کہ جب چاہا استعمال کر لیا؟ گویا یہ بھی ایک قسم کے خدا ٹھہرے۔
یہ لوگوں کو کلامِ مقدّس سے منحرف کرنے والے ہیں ۔ کلام مقدّس واضح طور پر بیان کرتا ہے: ’’جو جنات کے یار ہیں اور جو جادو گر ہیں تم ان کے پاس نہ جانا اور نہ ان کے طالب ہونا کہ وہ تم کو نجس بنادیں۔ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں ۔ْ‘‘(احبار
۱۹:۳۱)۔یعنی یہ لوگ نجس ہیں، بھلا نجس و طاہر میں کیا میل؟
کیا موجودہ مسیحی معاشرہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے ؟ آج ہر دوسرے بندے کو یہ شکوہ ہے کہ اس پر کسی نے کچھ کردیا ہے جس کی وجہ سے اس کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ عزیز و! کیا ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ ہم ان جادوگروں کو خدا سمجھتے ہوئے اپنے مسائل کا تریاق بنالیتے ہیں؟ ہم کیوں شیطان کے ہاتھوں بے بس ہیں ؟یقیناًہم مفاد پرست ہوچکے ہیں ۔ہمیں جس سے مطلب ہوتا ہے اُسی کی پوجا کرتے ہیں ۔ہمیں اِس جہان کی بادشاہی چاہیے تو اِس جہان کے خدا کی پوجا کریں گے ۔ ہمارے اندر شیطان کی ہر طرح کی تاثیر کام کرتی ہے جن میں سب سے بڑی تاثیر لالچ کی ہے جو بت پرستی کے برابر ہے ۔
مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب انسان خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ کرتا ہے تووہ خدا کا انکار کرتے ہوئے بت پرستی کی راہ اختیار کرتاہے :’’ اگر مَیں نے سونے پر بھروسہ کیا ہو اور چوکھے سونے سے کہا میرا اعتماد تجھ پر ہے ۔ْ اگر مَیں اس لئے کہ میری دولت فراوان تھی اور میرے ہاتھ نے بہت کچھ حاصل کر لیا تھا نازاں ہوا۔ْ اگر مَیں نے سورج پر جب وہ چمکتا ہے نظر کی ہو یا چاند پر جب وہ آب وتاب میں چلتا ہے ۔ْاور میرا دل خفیتہً فریفتہ ہوگیا ہو میرے منہ نے میرے ہاتھ کو چوم لیا ہو۔ْ تو یہ بھی ایسی بدی ہے جس کی سزا قاضی دیتے ہیں کیونکہ یوں مَیں نے خدا کا جو عالمِ بالا پر ہے انکار کیا ہوتا۔ْ‘‘ (ایوب
۳۱:۲۴۔۲۸)
عزیزو! ہمیں خدا کا انکار نہیں کرنا بلکہ خدا کے ساتھ ساتھ چلنا ہے ۔ ہمیں شیطان کو اپنے ساتھ نہیں کرنا بلکہ خدا کو اپنے ساتھ کرنا ہے ۔ جب خدا ہمارے ساتھ ہو تو ہمیں شیطان سے کوئی خوف نہیں ہوگا۔ شیطان ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ کلامِ مقدّس واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے ؟ ( رو میوں
۸:۳۱)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم خدا کو اپنی طرف نہیں کر رہے بلکہ خدا سے دور ہورہے ہیں اور اپنے دشمن ابلیس کے قریب تر ہو رہے ہیں ۔ کہیں آپ بھی تو اس بدی کا شکار نہیں ؟ اگر ہیں تو اس سے باہر نکل آئیے شیطان آپ کو خوف زدہ کرنے نہ پائے،شیطان کی کسی چال میں نہ آئیے ۔ خدا را اپنے دُنیاوی مقصد کےحصول کے لئے شیطان کو حاصل نہ کیجئے ۔
شیطان پرستی ( یابہتر طور
Satanic-phobia)کی ایک اور مثال ہمیں اُن پیغامات کی شکل میں ملتی ہے جوہمیں SMS یاE-MAILکے ذریعے آتے ہیں۔ ان پیغامات میں یسوع مسیح یا پھر بائبل مقدس کا حوالہ دے کر لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دس ، پندرہ یا پھر بیس لوگوں کو بھیجیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی ساتھ ہی لکھی ہوتی ہیں۔اکثر اس جذباتی ہتھکنڈے سے خوفزدہ ہو کر فوراً عمل درآمد کرتے ہیں اور یوں یہ پیغام بڑی تیزی سے بہت بڑے Chain Messageکی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کیا پوری بائبل مقدس میں اس قسم کا تاثر کہیں پر بھی موجود ہے؟ کیا مسیحی ایمان ایسی Blackmailing کی اجازت دیتا ہے؟
کلام مقد س تو ہمیں پُر امید زندگی کی نوید سناتا ہے اس لئے شیطان سے مت گھبرائیے کہ وہ ہمارے کاموں کو روک دے گایا ہماری ترقی میں رکاوٹ ڈالے گا یا پھر کچھ اور کر دے گا ۔جب وہ آپ کو مسیحی ایما ن میں پیدا ہونے سے نہیں روک سکا تو پھر آپ کو مسیحی ایمان پر چلنے سے بھی نہیں روک سکتا۔کمزوری صرف ہماری اپنی ہے کہ ہم اسے موقع دیتے ہیں۔
اپنے مسیحی ایمان کو مضبوط کیجئے اور کلامِ مقدّس کے اس حصے کو اپنے دل پر نقش کر لیجئے:’’ اے میرے بھائیو! فریب نہ کھانا۔ْ ہر اچھی بخشش اور کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اس پر سایہ پڑتا ہے۔ْ‘‘(یعقوب
۱:۱۶،۱۷)۔ میری دُعا ہے کہ خدا مجھے اور آپ کو ایسا ہی ایمان عطا فرمائے۔(آمین)

 
مسیح میں آ پ کا مخلص
 

جمشید گل
۳۱ اگست ۲۰۱۲ م

 

Friday, 6 July 2012

“ANTICHRIST: AN APHANITE”

ISSUE No. 12

The issue of Antichrist has been variously defined by the theologians. The very word “Antichrist” as far as ordinary people know and the theologians understand, means ‘a great antagonist of Christ, expected to spread universal evil before the end of the world but finally to be conquered at Christ’s second coming.’ However, I have refined and defined Antichrist as: “Any person, spirit, statement, belief, or action that does not confine to the teachings of Jesus Christ or the Holy Bible is an incarnation of Antichrist—‘anyone who goes too far and does not abide in the teachings of Christ does not have God.’” In shorter words, anything which is against Christ is Antichrist.

     The issue arises as Jesus Christ himself stated about the presence of Antichrist: “…see to it that no one misleads you. For many will come in my name, saying, I am the Christ, and will mislead many…and many false prophets will rise, and will mislead many. And because lawlessness is increased, most people’s love will go cold… For false Christ and false prophets will arise and will show great signs and wonders, so as to mislead, if possible, even the elect. Behold, I have told you in advance…” (Matthew 24:4-28). Thus, this statement shows that Antichrist is not something single; instead it is an incarnation of various persons, spirits, statements, beliefs, actions and teachings—it is a plural used as a singular i.e. the combination of all the above mentioned attributes comprises a singular Unit of Antichrist, which is Satan's Unit.

     Antichrist is a pillar of Satan's Unit just like Christ is the Pillar of God's Unit. Before going any further, let me clarify you about these two units. The God's Unit is the Holy Trinity[1] and the Satan's Unit is the Satanic Trinity[2]. Just like Father, Son and The Holy Spirit, it is the Devil, Beast and the False Prophet. The Holy Trinity is revealed in Matthew 28:19: “Go therefore and make disciples of all the nations, baptizing them in the name of Father and the Son and the Holy Spirit.” On the other hand, the Satanic Trinity is revealed in Revelation 20:10: “And the devil who deceived them was thrown into the lake of fire and brimstone, where the beast and the false prophet are also; and they will be tormented day and night forever and ever.”  Now you may get a bit surprised but just read the context of the mentioned reference, everything will be cleared. Therefore, you must submit that both these units are facing rivalry even before Day One.

     However, Satan's Unit has gained strength as well as popularity. It is opposing God's Unit by all impossible means and ways[3]. The concept of Antinomianism has helped its cause much—Antinomianism is a so-called Christian doctrine believing that faith alone is necessary for salvation and not moral law. The Holy Bible clearly states: “what use it is, my brethren, if a man says he has faith, but he has no works? Can that faith save him? … But are you willing to recognize, you foolish fellow, that faith without works is useless? ...For just as the body without the spirit is dead, so also faith without works is dead.” (James 2:14-26). But this unit has successfully removed this concept from the minds of the present day Christians. It has changed the life style as well as the mindset. Now you can see a female posing naked with the Holy Cross around her neck; or you can witness shameful offenses in churches. Numerous examples can be presented in this regard but you personally understand this well.

     Satan has always performed craftily. It cannot abuse or reject Jesus Christ openly; rather it performs this gradually through its Antichrist movement. It mixes belief with disbelief and trust with distrust in such a way that no one knows the actuality hidden behind the matter. It opposes Jesus Christ with many sneaky ideas and beliefs. Renowned religions accept Christ to be descended from God, which suggests a good sense; therefore, Satan cannot deny this universal truth, instead, it finds its means by accepting and rejecting certain attributes of the personality of Jesus Christ at the same time. So that it becomes quite difficult to differentiate between God's Unit and Satan's Unit. Thus, the Antichrist becomes an Aphanite—not clearly visible or distinguishable. John describes the presence of Antichrist unit: “Children, it is the last hour; and just as you heard that Antichrist is coming, even now many Antichrists have arisen.” (1 John 2:18).

     Satan accepts and rejects Christ’s personality at the same time. It starts a person to believe Jesus Christ with certain percentage of doubt and then it inculcates its own ideology into human brain and that person starts thinking about Christ in a newer sense which is not according to the Christian faith. Then this person acts as a part in Antichrist unit. Today, there are many missionaries and organizations working under Antichrist unit. They accept Christ in one way but reject in the other. Now let us have more refined discussion on this topic.

     As I have told earlier about accepting Christ with a certain amount of doubt, now I will give you some examples in brief. Consider a person believing Christ 99.99% and just having a doubt of 0.01%; do you think this is something compromise able? No, you are right, Christ deserves a 100% and this 0.01% means the beginning of Antichrist movement in his heart and soul; however, most of the times he remains unaware of this fact. He accepts most of the attributes of Jesus Christ but he rejects a few of them, in short he is not giving Christ 100%. Therefore, I am giving here some examples of this Antichrist movement which is prevailing throughout the world and has gained immense membership, though the members don’t know the fact that they have acquired the seal of Antichrist. There are numerous organizations working today under Antichrist movement. I am mentioning here just a few well-known ideologies:

     The first conviction rejects Christ’s Godly attributes. It says that Christ is a superior human being given the message of God, he has nothing to do with the qualities of God nor he should be linked with these qualities. I will not go in a detailed answer about this topic here, but just want you to read this reference and then judge whether this claim is right or wrong: “For in him (Christ) all the fullness of Deity dwells in bodily form, and in him you have been made complete, and he is the head over all rule and authority.” (Colossians 2:9-10). Now what you say? Does their claim hold any more? Surely, this is Antichrist movement.

     The second philosophy regards Jesus Christ as Michael[4], the Mighty Angel. Well, this again seems a ridiculous one as the Holy Bible clearly states about Jesus Christ: “But to which of the angels has He ever said, ‘sit at my right hand, until I make thine enemies a footstool for thy feet’?” In my opinion, this reference is complete enough to be given in this regard.

     Another important ideology is about Christ’s death. They claim that Christ was neither resurrected nor lifted towards heavens; instead, his corpse remained in the grave and was stolen from there. That’s why they don’t celebrate Easter. This is not a new claim we have read this in the Holy Bible that the Jews had this in their minds and they spread this news. However, they don’t have any proof from the Holy Bible regarding their misconception. Christ himself stated about his death and resurrection but they just refer to illogical claims, which is not a sensible way of judging. If it is so, then why does Paul say: “and if Christ has not been raised, then our preaching is vain, your faith also is vain …” (1 Corinthians 15:14).

     There is another ridiculous belief stating that Christ’s thousand year kingdom has been started since 1914, and these days are within his kingdom. It means that about 97 years of Christ’s kingdom have been passed unknowingly and in 2014, one hundred years will pass leaving 900 years still to come. But the Holy Bible says that during these days the Satan will be arrested, can they answer me one thing: is Satan bound today or is working at its full swing? The second condition says that the faithful will rise from the dead, has any body seen any arising out of the dead? I think it is not. Can they provide any information in their favor? Well, they may say that the faithful will rise in near future but how they will manage their thousand years as a hundred of them have already passed, this is going to be ended in 2914, and we have no such news about the resurrection of faithful yet. This is again a counterfeit idea proclaiming the Antichrist movement.

     The above mentioned beliefs[5] are just a few of Antichrist movement. Christ wants from us a 100% faith and not even a hint of disbelief. However, Satan works shrewdly and presents its own ideologies through its human agents.  The Holy Bible has mentioned clearly about this Antichrist movement and the persons comprising the Antichrist unit: “But false prophets also arose among the people, just as there will be false teachers among you, who will introduce destructive heresies, even denying the Master who bought them, bringing swift destruction upon themselves. And many will follow their sensuality, and because of them the way of truth will be maligned; and in their greed they will exploit you with false words…” (2 Peter 2:1-22). Now link this with Galatians 1:6-10: “… there are some who are disturbing you, and want to distort the gospel of Christ. But even though we, or an angel from heaven, should preach to you a gospel contrary to that which we have preached to you, let him be accursed….” Also see 2 Corinthians 11:13-15: “For such men are false apostles, deceitful workers, distinguishing themselves as apostles of Christ. And no wonder, for even Satan disguises himself as an angel of light. Therefore it is not surprising if his servants also disguise themselves as servants of righteousness.”

     Other then these, there are many passages in the Holy Bible that depict the Antichrist movement. Indeed, the Holy Bible is a miracle; as God knew these things will happen, therefore He has witnessed these and warned us beforehand in the Holy Bible, so that no one can entice His true believers.

     I can understand that in present world, life has become so busy that no one even bothers to go to the church. He is even unaware of his church membership. He just follows the ways as these false prophets lead him. But before joining any church, you should ask about their faith statement. I am hopeful that this will serve your purpose as most of these organizations don’t reveal their faith statement this is because they have no faith in Jesus Christ. Also as the Holy Bible says they show miracles; therefore you need not to flow by just seeing the wonders they perform, you better see these in the light of the Holy Bible. In modern world, the Antichrist movement is in its full swing; the tongue movement and the forms of Pentecostal Church[6] are deteriorating the true Christian faith.

     The Holy Bible has warned us therefore, we should we remain careful and cautious: “You therefore, beloved, knowing this beforehand, be on your guard lest, being carried away by the error of unprincipled men, you fall from your own steadfastness, but grow in the grace and knowledge of our Lord and Savior Jesus Christ.” (2 Peter 3:17-18). Jesus Christ himself states: “He who is not with me is against me; and he who does not gather with me scatters.” (Matthew 12:30). I would conclude this with a thought provoking note: “Then watch out that the light in you may not be darkness.” (Luke 11:35).   

   Now, the choice is yours. However, I am hopeful that this explanation will serve your purpose and will surely force you to think it otherwise—though the present discussion has been edited and limited to much extent. I will provide a detail in a later edition.  May God Bless you abundantly. (Amen).


Brother in Christ,

Jamshed Gill

Saturday 6 April, 2002.
Lahore, Pakistan.



[1] More detail is available from The Inner Vision, Issue No. 02: Holy Trinity: The Most Controversial Issue.
[2] Please refer to The Inner Vision, Issue No. 10: Who Is Satan?
[3] More detail is available from The Inner Vision, Issue No. 03: The Claim of Salvation.

[4] For details see The Inner Vision, Issue No. 05: Jesus: The Mighty Angel, Michael.
[5] A detailed study of all these misleading beliefs is available in Kingdom or Rebeldom.
[6] Refer to The Inner Vision, Issue No. 13: The Pentecostal Church: A Bitter Reality.