غزل: جمشید گل
تمہارے پیار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
کسی کے یار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
مری مسکان کے پیچھے سیہ بختی کا صحرا ہے
گُل و گلزار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
لب و رخسار تو بس اب کلیشے کی مثالیں ہیں
لب و رخسار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
مرے حصے جو آئی ارتقائی بے کسی ہی تھی
سبھی تکرار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
مٹاﺅں بھوک کو کیسے میں اپنے فن کے زیور سے
مرے افکار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
ترے قرآن کی باتیں مجھے اچھی تو لگتی ہیں
ترے سنسار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
غریبوں کی مدد کرنا مری اقدار کا حصہ
مگر اقدار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
عدل بھی ہر طرح سے اب تو ظالم کا پجاری ہے
تبھی اخبار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
عدو کی بندگی کرنا ہے میرے خون میں شامل
پر اُس مکار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
جو دینا ہے مجھے دے دو اسی جیون کے چکر میں
کہ ساحل پارکی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں
خدا کے رزق کا قصہ سناتے کیوںہو بھوکے کو
یہی بے کار کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں

No comments:
Post a Comment