Thursday, 27 November 2014

غزل: پرندہ کوئی چہچہا یا تو ہو گا. جمشید گل

غزل: جمشید گل
پرندہ کوئی چہچہا یا تو ہو گابہاروں کا موسم بھی آیا تو ہو گاحقیقت کا جس نے بھی تھاما ہے دامنزمانے کو اس نے ستایا تو ہو گاجسے مل گئیں آخرت میں بھی حوریںفرشتوں کو اس نے جلایا تو ہو گامرے ہاتھ کا لمس تھا میرے خط میںوہ اس نے گلے سے لگایا تو ہو گامیں بچپن سے اس سوچ میں ایسے گم ہوںخدا کو کسی نے بنا یا تو ہو گاترے ہی لہو سے چمن میں بہاراںلہو نے مجھے بھی جِلا یا تو ہو گامرے آنسوﺅں سے نہ کر تو کنارہتمہیں بھی غموں نے ستایا تو ہو گاغمِ ہجر میں خواہشِ وصل نے بھیجلایا ، ستایا ،  رُلایا تو ہو گامحبت کی دیوی کہیں نہ کہیں پردو بچھڑے ہوﺅں کو ملایا تو ہو گاوہی رزق دیتا ہے سب کو ہر اک جاکہ پتھر میں کیڑا بچایا تو ہو گامرا میزباں لاکھ مجھ پہ فدا تھامرے برتنوں کو جلا یا تو ہو گاگلہ تجھ کو زاہد ہے تشنہ لبی کاترے ہاتھ میں جام آیا تو ہو گاہے خواہش یہ میری کہ ہیکل میں جاﺅںوہاں پہ یہوواہ بھی آیا تو ہو گاخدا نے عدن میں کہیں نہ کہیں پردرختِ خرد بھی لگا یا تو ہو گاسخن کا نبی ہوں کہ گِل ذکر میراگزشتہ صحیفوں میں آیا تو ہو گا


No comments:

Post a Comment