Thursday, 27 November 2014

غزل: لہو دل کا نگاہوں سے۔ جمشید گل


   غزل: جمشید گل

لہو دل کا نگاہوں سے چھلکنا تھا،چھلکتا ہے
بنی آدم نے سولی پر لٹکنا تھا ، لٹکتا ہے
محبت کا ازل سے ایک ہی دستور ہے یارو
وفا کی آڑ میں دل نے بھٹکنا تھا ، بھٹکتا ہے
ہوا کیا فائدہ اس انبیا کے لشکرِ کُل سے
جہنم کے ذخیرے نے دہکنا تھا ، دہکتاہے
نکلنا خُلد سے آدم کا سب ہی جانتے ہوں گے
نتیجہ تھا بہکنے کا بہکنا تھا، بہکتا ہے
نہیں دینا تھاکفارہ کسی نے بھی گناہوں کا
ہر اک عاصی نے محشر میں سسکنا تھا ،سسکتا ہے
نہیں ہے روکنے والا کوئی اس کو زمانے میں
خدا کی راہ میں جس نے بہکنا تھا ،بہکتا ہے


No comments:

Post a Comment