Saturday, 22 March 2014

عبادت اور نجات: Worship and Salvation

عبادت سے مراد بندگی ، پرستش یا پوجا ہے ۔کرہ ارض پر چرند پرند، حیوان ، بت ، اجرام فلک وغیرہ کی عبادت کی جاتی ہے ، ہمارا موضوع کیونکہ خدا سے متعلقہ ہے اس لئے ہم اسے خدا کی عبادت کے طور پر ہی دیکھیں گے۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں عہد عتیق و جدید میں عبادت کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ عہد عتیق میں بنی اسرائیل کے لئے طرح طرح کی پیچیدہ عبادتی رسومات کا ذکر ملتا ہے جنہیں یہاں بیان کرنا موضوع سے ہٹنے کے مترادف ہو گا۔ ہمارا موضوع کیونکہ مسیحی فلسفہ نجات سے متعلقہ ہے اس لئے ہم مسیحی طرزِ عبادت کو ہی مرحلہ وار دیکھیں گے ۔عبادت عمومی طور پر تین صورتوں میں کی جا سکتی ہے: شخصی عبادت،خاندانی عبادت اور باجماعت یا اجتماعی عبادت۔ عبادت نجات کے عمل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ وہ عمل ہے جو ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر ذاتی مفادات کی خاطر عبادت کرتے ہیں۔ کلام مقدس میں خدا کی عبادت کے متعلق بہت سے بیانات ملتے ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
بلکہ جب تو دعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کر اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔ْ (متی ۶: ۶) ۔ اور آپس میں مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گایا کرواور دل سے خداوند کے لئے گاتے بجاتے رہا کرو۔ْ (افسیوں ۵:۱۹)۔ پس ہم وہ بادشاہی پا کر جو ہلنے کی نہیں اس فضل کو ہاتھ سے نہ دیں جس کے سبب سے پسندیدہ طور پر خدا کی عبادت خدا ترسی اور خوف کے ساتھ کریں۔ْ( عبرانیوں ۱۲: ۲۸)۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ْ (یوحنا ۴:۲۳) ۔ کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلے سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ْ (فلپیوں ۴:۶)۔ پس اے بھائیوں کیا کرنا چاہیے جب تم جمع ہوتے ہو تو ہر ایک کے دل میں مزمور یا تعلیم یا مکاشفہ یا بیگانہ زبان یا ترجمہ ہوتا ہے۔ْ (۱۔کرنتھیوں ۱۴: ۲۶)۔ مسیح کے کلام کو اپنے دلوں میں کثرت سے بسنے دو اور کمال دانائی سے آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ۔ْ (کلسیوں ۳: ۱۶)۔
پس مذکورہ بالا بیانات سے عبادت کا مقصد و مفہوم ہم پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کب، کہاں اور کیسے کی جائے؟ عبادتی طریقہ کار کے متعلق بائبل مقدس سے رہنمائی ضروری ہے کیونکہ اگر ہماری عبادت اس طریقہ کے مطابق نہیں تو یہ مکمل عبادت نہیں۔ عبادت درست طور پر نہ ہو نے سے جنت کی راہ مبہم ہو سکتی ہے۔
عبادت کب کرنی چاہیے؟ مسیحی عبادت دنوں ، مہینوں اور وقتوں کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ مسیحی کسی بھی وقت عبادت کر سکتے ہیں لیکن کلیسیائی دستور کے تحت عام عبادت کے لئے اتوار کا دن مخصوص کیا گیا ہے، اگرچہ کچھ اس دن پہ اعتراض کرتے ہیں اور ہفتے یا سبت کو عبادت کا دن گردانتے ہوئے اتوار کے دن عبادت کرنے والوں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس تصور کی درستگی ضروری ہے کہ عبادت کب کرنی چاہیے۔
بے شک سبت ہی کو پا ک ٹھہرا کر عبا دت کا دن مخصوص کیا گیا لیکن ہمیں اسے مسیحی تنا ظر میں دیکھنا ہو گا نہ یہو دی پس منظر میں ۔ میں سبت کی اہمیت سے منکر نہیں لیکن کیا عہد نامہ جدید بھی ہمیں سبت کے رو ز عبا دت کر نے کو کہتا ہے ؟ اپنے موقف کی وضا حت کے لئے چند حوالہ جا ت پیش کر نا چا ہو نگا ۔جب یسوع اور اُس کے شا گرد سبت کے دن کھیتو ں میں سے گزرتے ہو ئے بالیں تو ڑ کر کھانے لگے تو سبت کی بے حرمتی کا اعتر اض آ یا جس کے جوا ب میں یسو ع میں نے بڑا مضبو ط جواب دیا: ’ ’ کیو نکہ ابن آ دم سبت کا مالک ہے۔ْ ‘‘(متی ۱۲:۱۔۸) ۔ انجیل مقدس میں ہمیں بہت سے شواہد ملتے ہیں جہاں یسوع نے سبت کے دن معجزا ت کئے یہا ں اُن کا تفصیلاً ذکر کر نا مو ضو ع سے ہٹنے کے مترا دف ہو گا ۔
خدا وند یسوع مسیح لوقا ۱۸:۱۸۔۳۰میں حکمو ں کا ذکر کرتا ہے :’ ’ توُ حکمو ں کو تو جا نتا ہے ، زنا نہ کر ، خو ن نہ کر ، چو ری نہ کر ، جھو ٹی گوا ہی نہ دے ، اپنے باپ کی اور ما ں کی عزت کر۔ْ ‘‘ یہاں سبت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔مزید دیکھئے مرقس ۲:۲۷،۲۸ : ’ ’اور اُس نے اُن سے کہا کہ سبت آ دمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لئے۔ْ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔ْ ‘‘
ابتدا ئی کلیسیاکس دن عبادت کر تی تھی اس کا ذکر بھی بائبل مقدس میں ملتاہے ۔ اعمال ۲۰:۷ دیکھیں: ’ ’ ہفتے کے پہلے دن جب ہم رو ٹی تو ڑنے کے لئے جمع ہو ئے۔ْ ‘‘
۱۔کرنتھیو ں ۱۲:۲ دیکھیں: ’’ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آ مدنی کے موافق کچھ رکھ چھو ڑا کر ے۔ْ‘‘ اب ہفتے کا پہلا دن تو اتوا ر ہی بنتا ہے ۔ ذرا کلسیو ں ۲:۱۶،۱۷ بھی ملا حظہ کریں :’ ’پس کھا نے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی با بت کو ئی تم پر الزا م نہ لگا ئے۔ْ کیو نکہ یہ آ نے والی چیزو ں کاسا یہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں ۔ْ‘‘ اب ایک بات تو صاف ظا ہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے مطابق ہفتے کا پہلا دن ہی عبا دت کا دن ہے مگر معترض حضرا ت اس ضمن میں کچھ تا ریخی حقا ئق پیش کر تے ہیں ۔ ان کے مطابق اتوا ر یعنی Sun Dayسورج دیوتا کا دن ہے جسے Sundayکہا جا تا ہے ،مزید یہ کہ جو لو گ اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں وہ درحقیقت سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔اگر پر کھنے کا یہی معیار ٹھہرا تو کیا 25دسمبر کو پا کستا نی غیر مسیحی بھی کرسمس منا رہے ہو تے ہیں ؟ ہر گز نہیں وہ 25دسمبر کو قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کا یو م ولا دت منا رہے ہو تے ہیں ۔ اگر چہ یہ دو نو ں خو شیا ں ایک ہی دن منا ئی جا تی ہیں لیکن ان دو نو ں کی جدا گا نہ حیثیت ہے۔ بالکل اسی طر ح اتوار کو مسیحی عبادت کر تے ہیں جبکہ دیوتا کو ماننے والے اپنے سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔
ہفتے کے پہلے دن کی اہمیت کے با رے میں چند حقا ئق قا بل غو ر ہیں :
i) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا نے اِس کر ہ ارض پر تخلیق کا کام شروع کیا ۔ خدا نے رو شنی کو تا ریکی سے جدا کیا بالکل اُسی طرح ہفتے کے پہلے دن حقیقی مسیحی جو نور کے فرزند ہیں تا ریکی سے جدا ہو نے کا عملی ثبو ت پیش کر تے اور گو اہی دیتے ہیں کہ تا ریکی سے جدا ہو کر نو ر میں آ گئے ہیں۔ یسوع مسیح نے فر ما یا کہ تم دنیا کو نو ر ہو، پس نو ر کا تا ریکی سے جدا ہو نا ضرو ری ہے کیو نکہ شریعت کا دو ر تا ریکی کا دور ہے جبکہ فضل روشنی کا دور ہے ۔ یہی وہ بنیاد ی فر ق ہے جو ہفتیکے پہلے اور آ خری دن میں ہے ۔
ii) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا وند یسوع مسیح نے مو ت اور قبر پر فتح پا ئی وہ اتوا ر کو زندہ ہو ا۔ا گر ہم ہفتے والے دن عبادت کر تے ہیں تو ایک لحا ظ سے قبر میں پڑے ہو ئے یسوع کی عبادت کر تے ہیں اور اگر اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں تو جی اٹھے یسوع کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہفتے کے پہلے دن یسوع مسیح نے مو ت کی تا ریکی کو زندگی کی رو شنی میں بدل دیا ۔ اتوا ر مسیحی ایما ندا رو ں کے لئے خو شی کا دن ہے اس لئے عبا دت بھی اسی رو ز وا جب ہے ۔ یا د رکھئے! ہم زندہ کو ماننے والے ہیں مُردہ کو نہیں ۔
iii) ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوا ر ابتدا کی طر ف اشا رہ کرتا ہے، مسیح کے سا تھ ابدی جلال میں دا خل ہو نے کی طر ف اشا رہ کر تا ہے ۔ عیدِ پنتکست کا دن مسیحی تا ریخ کے اہم ترین دنو ں میں سے ایک ہے اور یہ دن ہفتے کا پہلا دن ہی تھا یعنی مسیحی کلیسیا کو با ضا بطہ طو ر پر رُو ح القدس کا بپتسمہ بھی اتوا ر ہی کو ملا اوریو ں حقیقی مسیحی ایماندار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریکی سے جدا ہو گئے ۔اب ذرا غو ر کر کے خو د ہی فیصلہ کیجئے کہ جب اتنی سا ری بر کات خو شیا ں اور معجزا ت ایک ہی دن یعنی اتوار کو نصیب ہو ں تو کیا وا جب نہیں کہ اسی دن اکٹھا ہو کر ان سا ری بر کتو ں اور نعمتو ں کے لئے خدا کی شکر گزا ری کی جا ئے ؟مندرجہ بالا بیانات ہفتہ وار عام عبادت کے لئے ہے لیکن اجتماعی عبادات کی اور بھی اقسام ہیں جیسے کنوینشن وغیرہ جو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہیں۔
عبادت کہاں کی جا سکتی ہے؟ شخصی و خاندانی عبادت کہیں بھی کی جا سکتی ہیں لیکن اجتماعی عبادت کے لئے مخصوص و تقدیس شدہ گرجا گھر ہی موزوں ترین مقام ہے۔ ہفتہ وار عام عبادات کے لئے گرجا گھر کی عمارت میں کافی گنجائش ہوتی ہے مگرکنوینشنز و دیگر اجتماعی عبادات کے لئے جگہ کی کمی کے باعث کسی گراؤنڈ یا چرچ سے ملحقہ احاطے کو زیر استعمال لایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کھلی جگہوں پہ عبادت ہونے والی عبادات میں سنجیدگی کا فقدان ہوتا ہے۔ نیز عبادت کے لئے مختص کی جانے والی جگہ کی صفائی کا مناسب انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ میں نے بہت سی جگہوں پہ پرندوں اور جانوروں کی گندگی کے اوپر دریاں یا کرسیاں لگی دیکھیں ہیں۔ یاد رکھئیے عبادت کے لئے روحانی و جسمانی پاکیزگی بہت ضروری ہے کیونکہ ہم دورانِ عبادت ایک پاک ذات سے ملنے کی سعی کرتے ہیں۔ طہارت و پاکیزگی پہ زیادہ بات نہیں کرو نگا کیونکہ یہ ایک وسیع مضمون ہے۔
عبادت کیسے کی جائے؟ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں۔ْ (یوحنا ۴:۲۴)۔ عبادت کے طریقے کا تعین کرنا ہی ہمارا مرکزی نقطہ ہے۔ بائبل مقدس سے اخذ شدہ معلومات کے مطابق مسیحی عبادت اقرارِ گناہ، اقرارِ ایمان، حمد و ثناء ، تلاوت و تفسیرِ کلامِ مقدس، دعا، سفارشی مناجات، پاک شراکت، ہدیہ اور کلماتِ برکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ عام عبادت کے اجزا ہیں لیکن عبادت کسی بھی موقع پر کی جا سکتی ہے جس کے اجزا عام عبادت کی طرح نہیں ہوتے جیسے بچے کی پیدائش، مخصوصیت، سالگرہ یا نکاح ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جا سکتی کیونکہ کسی اور کو عبادت کے لائق ٹھہرا کر ہم نجات سے دور ہو جاتے ہیں: اور موسیٰ خداوند کے پاس لوٹکر گیا اور کہنے لگا ہائے ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کا دیوتا بنایا۔ْ اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب سے جو تو نے لکھی ہے مٹا دے۔ْاور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ جس نے مرا گناہ کیا ہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤنگا۔ْ (خروج ۳۲:۳۲،۳۳)۔ ہم بھی آج اسی طرح کی بت پرستی کا شکار ہیں اور جگہ جگہ زیارتوں اور میلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ کار کلام مقدس کے مطابق کے بنانا ہو گا کیونکہ عبادت صرف اور صرف خدا کی ہے بتوں کی نہیں۔ اس موضوع کو تفصیلاً بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ بہت سے مسیحی اسی طریق کو مکمل عبادت تصور کرتے ہیں اس عمل کی نفی بہت ضروری ہے۔
مسیحی عبادات میں بت پرستی کا عنصر زمانہ قدیم ہی سے موجود ہے اور یہ زیادہ تر مسیحیوں میں قابلِ قبول بھی ہے کیونکہ مسیحیت کا لبادہ اوڑھے ہے۔ بائبل مقدّس واضح طور پر بیان کرتی ہے:’’میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا ۔ْ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ْ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرناکیونکہ مَیں خداوند تیرا غیور خدا وندہوں۔۔۔‘‘(خروج ۲۰:۳۔۵) لیکن بت پرست اپنے گناہ کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ ہم مسیح یا مسیحی قائدین کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو کسی صورت بھی غیر معبود نہیں ہوسکتے ، کیونکہ وہ خود مسیحی تھے۔ ایسے تمام اصحاب کے لئے بائبل مقدّس میں سے ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا:’’ اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام مَیں تم کو سکھاتا ہوں تم اُن پر عمل کرنے کے لئے اُن کو سن لو تاکہ تم زندہ رہو اور اُس ملک میں جسے خداوند تمہارے باپ دادا کا خدا تم کو دیتا ہے داخل ہوکر اس پر قبضہ کر لو ۔ْ جس بات کا مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کوجو مَیں تم کو بتاتا ہوں مان سکو۔ْ جو کچھ خداوند نے بعل فغور کے سبب سے کیا وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ اُن سب آدمیوں کو جنہوں نے بعل فغور کی پیروی کی خداوند تیرے خدا نے تیرے بیچ سے نابود کر دیا۔ْ پر تم جو خداوند اپنے خدا سے لپٹے رہے ہو سب کے سب آج تک زندہ ہو ۔ْ دیکھو! جیسا خداوند میرے خدا نے مجھے حکم دیا اس کے مطابق مَیں نے تم کو آئین اور احکام سکھا دئیے ہیں تاکہ اُس ملک میں اُن پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لئے جارہے ہو۔ْ سو تم اُن کو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہریں گے ۔۔۔سو تُو ضرور ہی اپنی احتیاط رکھنا اور بڑی حفاظت کرنا تانہ ہو کہ تو وہ باتیں جو تو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول جائے اور وہ زندگی بھر کے لئے تیرے دل سے جاتی رہیں بلکہ تو اُن کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔ْ خصوصاًاُس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خدا کے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھا کہ قوم کو میرے حضور جمع کر اور مَیں ان کو اپنی باتیں سناؤں گا تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ْ چنانچہ تم نزدیک جاکر اُس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑآگ سے دہک رہا تھا اوراس کی لَو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی ۔ْ اور خداوند نے اس آگ میں سے ہوکر تم سے کلام کیا ۔تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صورت نہ دیکھی ، فقط آواز ہی آواز سنی ۔ْ۔۔۔سو تم اپنی خوب ہی احتیاط رکھنا کیونکہ تم نے اُس دن جب خداوند نے آگ میں سے ہوکر حورب میں تم سے کلام کیا کسی طرح کی کوئی صورت نہیں دیکھی ۔ْتانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لئے بنالو جس کی شبہیہ کسی مرد یا عورت۔ْ یازمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے۔ْ یا زمین کے رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ۔ْ یا جب تو آسمان کی طرف نظر کرے اور تمام اجرام فلک یعنی سورج اور چانداور تاروں کو دیکھے تو گمراہ ہوکر ان ہی کو سجدہ اور ان کی عبادت کرنے لگے جن کو خداوند تیرے خدا نے رویِ زمین کی سب قوموں کے لئے رکھا ہے ۔ْ۔۔۔سو تم احتیاط رکھو تانہ ہو کہ تم خداوند اپنے خدا کے اُس عہد کو جو اُس نے تم سے باندھا ہے بھول جاؤ اور اپنے لئے کسی چیز کی شبہیہ کی کھودی ہوئی مورت بنالو جس سے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو منع کیا ہے ۔ْ۔۔۔یہ سب کچھ تجھ کو دکھایا گیا تاکہ تو جانے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ْ۔۔۔ ‘‘ (استثنا ۴:۱۔۴۰)
اس بیان کی روشنی میں ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے بت پرستی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کلامِ مقدّس اس حقیقت کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے: ’’۔۔۔ مَیں ہی نے خلق کیا اور مَیں ہی اٹھاتا رہوں گا مَیں ہی لئے چلوں گا اور رہائی دوں گا ۔ْ تم مجھے کس سے تشبہیہ دو گے اور مجھے کس کے برابر ٹھہراؤ گے اور مجھے کس کی مانند کہو گے تاکہ ہم مشابہ ہوں ؟۔ْجو ہتھیلی سے باافراط سونا نکالتے اور چاندی کو ترازو میں تولتے ہیں وہ سنار کو اُجرت پر لگاتے ہیں اور وہ اُس سے ایک بت بناتا ہے پھر وہ اُس کے سامنے جھکتے بلکہ سجدہ کرتے ہیں۔ْ وہ اُسے کندھے پر اُٹھاتے ہیں وہ اُسے لے جاکر اُس کی جگہ پر نصب کرتے ہیں اور وہ کھڑا رہتا ہے وہ اپنی جگہ سے سِرکتا نہیں بلکہ اگر کوئی اُسے پکارے تو وہ نہ جواب دے سکتا ہے اور نہ اسے مصیبت سے چھڑا سکتا ہے ۔ْ اے گنہگارو ! اس کو یاد رکھو اور مرد بنو اس پر پھر سوچو ۔ْ ‘‘ (یسعیاہ ۴۶:۴۔۸)۔ اگر دینے والا صرف خدا ہی ہے تو پھر کیا ہم خدا کو کسی بت سے تشبیہ دے کر راست ٹھہرا سکتے ہیں ؟ کیا کلامِ مقدّس ہم پر بت کی بے بسی واضح نہیں کرتا ؟ ہم کیوں ان باتوں کے متعلق نہیں سوچتے ؟
سجدہ صرف زندہ خدا ہی کو واجب ہے ۔ مکاشفہ ۲۲:۸،۹ ملاحظہ کیجئے: ’’۔۔۔اور جب مَیں نے سنا اور دیکھا تو جس فرشتہ نے مجھے یہ باتیں دکھائیں مَیں اس کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گرا ۔ْ اس نے مجھ سے کہا خبردار ! ایسا نہ کر مَیں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہم خدمت ہوں ۔ خدا ہی کو سجدہ کر ۔ْ‘‘ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ خُدا کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جائے ۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو غیر فانی خدا کے جلال کو فانی چیزوں سے بدل کر بے حرمت کرتے ہیں ۔ رومیوں ۱:۲۱۔۲۳ ہمارے اس طرزِ عمل کو یوں پیش کرتا ہے:’’اگرچہ انہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اس کی خدا ئی کے لائق اس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا ۔ْ وہ اپنے آپ کو دَانا جتا کر بیوقوف بن گئے ۔ْ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ْ‘‘ ان آیات سے ایک اور بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فانی انسان یا گزرے مقدسین کی پرستش بھی بت پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ یہ دونوں عقائد کلامِ مقدّس کے منافی ہیں کیونکہ پرستش صرف زندہ خدا ہی کی کرنی چاہیے۔(بحوالہ جلالی کلیسیا : از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
مندرجہ بالا حوالہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے جن سے آج تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستگی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔ پطرس رسول نے زندہ حالت میں کسی انسان کو سجدہ کرنے سے منع کیا تو کیا یہ واجب ہے کہ ہم دوہزار سال گزر جانے کے بعد اس کا یا اس کے کسی اور ہم خدمت کا بت بناکر اسے سجدہ کریں ؟ بقول مضطر ؔ کاشمیری:
جنا بِ شیخ نے دنیا کو کیا الو بنا یا ہے
بتو ں کو سامنے رکھ کے خداکا نام لیتے ہیں
پس عبادت کہیں بھی ہو،کیسے بھی ہو صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔ جو عبادت خدا کے لئے نہیں وہ کسی صورت بھی نجات کی طرف نہیں لے جاسکتی بلکہ انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔
اقرارِ گناہ مسیحی عبادت کا اہم ترین حصہ ہے کیونکہ گناہ ہی نجات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بحثیت مسیحی اقرارِ ایمان بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام مقدس کی تلاوت و تفسیر عبادت کا مرکزی حصہ ہوتا ہے جوہماری ایمانی و اخلاقی اقدار کو مضبوطی بخشتا ہے ۔ سفارشی مناجات یا دعائیں کلیسیا و بنی نوع انسان کے مسائل اور ملکی و قومی حالات کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔ ان دعاؤں میں عموماً بیماروں، ناداروں، بے روزگاروں، طلب علموں اور ملکی خوشحالی و سلامتی کو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ شکرگزاریاں، منتیں و ہدیہ جات ہمیں خدا کا احسان مند ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ افسوس! ہمارے ہاں اس احسان کو کم ہی مانا جاتا ہے۔ ہم دیناوی چیزوں پر منہ مانگی رقم خرچ کر دیتے ہیں لیکن ہمارا ہدیہ پانچ یا دس روپے سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہمارا چھوٹا بچہ ایک وقت میں سو یا پچاس روپے باآسانی خرچ کر دیتا ہے لیکن ہم کلیسیائی امور کو چلانے کے لئے بہت کم دیتے ہیں۔ میں کوئی پادری نہیں جو ہدیے کی بات کر رہا ہوں لیکن بطور کلیسیائی رکن ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ حکم صرف خوشحال اراکین کے لئے ہی نہیں، بیوہ کی دو دمڑیاں ہمارے لئے روشن مثال ہیں۔
پاک شراکت یا عشائے ربانی عبادت کا مقدس ترین حصہ ہے جس میں ہم یسوع مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں۔ روٹی مسیح کے بدن کو ظاہر کرتی ہے جبکہ انگور کا شیرہ یسوع کے خون کو۔ یہ ایک عظیم ضیافت ہے جس میں ایمانداروں کی شرکت لازمی ہے کیونکہ جو مسیح کا بدن کھاتا اور اس کا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسی میں ہے۔ ہمیں مناسب طور پر اس میں شریک ہونا ہے کیونکہ نامناسب شرکت عذابِ الہی کا سبب بن سکتی ہے۔ عشائے ربانی کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن بعض گرجاگھروں میں اس ساکرامنٹ کو درست یا مکمل طور پر ادا ہی نہیں کیا جاتا، صرف روٹی یعنی مسیح کا بدن ہی جماعت میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور انگور کے شیرے یعنی مسیح کے خون سے محروم رکھا جاتا ہے۔حاضر جماعت بھی مجرمانہ چپ سادھے رہتی ہے اور برسوں ادھورے ساکرامنٹ میں شرکت کرتی رہتی ہے۔ ایسا کرنے والے کوئی جواز بھی پیش کر یں، مسیح کا مقرر کردہ حکم و طریق ان کی ذاتی تفسیر سے معتبر ہے۔
حمد و ثناء کا حصہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ عبادت کے شروع سے آخر تک چلتا ہے۔ حمد و ثناء میں مسیحی گیتوں اور زبوروں کے ذریعے خدا کی شتائش کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ گیتوں کے معیار و الفاظ کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم انجانے میں بہت سی غلط تراکیب کو حمد و ثناء کا حصہ بنا لیتے ہیں اور پشت در پشت گاتے رہتے ہیں۔پس ہمیں حمد کے لئے الفاظ و لسانی تراکیب کا موزوں ترین انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ہم خدا کی بجائے شیطان کو خوش کرتے ہیں۔ موضوع کیونکہ اہم ہے اس لئے یہاں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ اقتباس اپنی زیر طبع کتا ب گرہن زدہ سے اختصار کے ساتھ پیش کر رہا ہوں جس میں مسیحی گیتوں کو بائبل مقدس اور لسانی تراکیب کے معیار پر پرکھا گیا ہے، اگرچہ پاکستانی معاشرے میں یہ ایک خطرناک عمل ہے لیکن غلط تصورات کو پھیلنے سے روکنا بھی بہت ضروری ہے:
گرہن نمبر۱۳
تیرے لہو سے پاپ دھوتا ہوں (گیت کا پہلا مصرعہ)
شاعر نامعلوم ،کتاب نغماتِ مسیحا ، مرتب مسز نسرین صادق ، چرچ آف پاکستان ، کراچی ڈایوسیس۔ گیت نمبر ۶
اس گیت میں شاعر یا انسان فاعل ہے یہی بات اب بائبل مقدس میں دیکھئے:
۔ ۔ ۔ یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔ْ ۱ یوحنا ۱:۷
یہاں فاعل یسوع کا خون ہے جبکہ انسان مفعول ہے۔ کیا شاعر نے سارا معاملہ الٹ نہیں کر دیا؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ شاعر مستقل طور پر فاعل ہے :
اپنی خودی سے ہاتھ دھوتا ہوں ۔ ۔ ۔ خود کو لہو میں ڈبوتا ہوں۔
انسان خود مسیح کے خون سے پاپ نہیں دھو سکتا بلکہ مسیح کا خون اسکے پاپ دھوتا ہے۔ امید ہے یہ فرق آپ سمجھ گئے ہونگے۔
گرہن نمبر۱۵
ہم تین بادشاہ مشرق کے ہیں
سجدہ کرنے ہم آئے ہیں
سفر دور کا پیچھا نور کا
کر کے ہم آئے ہیں۔
شاعر : جے ایچ ہاپکنز ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر ۱۵۱
یہ کرسمس کا ایک مشہور گیت ہے جسے ہم برسوں سے گا رہے ہیں۔ اس کو انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے لیکن انگریزی میں بھی لفظ King ہی استعمال ہو ا ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ بائبل مقدس کیا کہتی ہے: جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلیم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ۔ْ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ (متی ۲:۱،۲)۔
Now after Jesus was born in Bethlehem of Judea in the days of Herod the king, behold, magi from the east arrived in Jerusalem, saying, \"Where is He who has been born King of the Jews? (Matthew 2:1,2)
بائبل مقدس کے مطابق پورب یامشرق سے مجوسی یسوع کو دیکھنے آئے نہ کہ بادشاہ۔ بادشاہ کا مطلب ہم سب جانتے ہیں لیکن مجوسی کی تشریح ضروری ہے۔ مجوسی علمِ نجوم، فالگیری اور خوابوں کی تعبیر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس لئے انہیں دانش مند بھی کہا جاتا تھا۔
گرہن نمبر۱۷
مریم کی فوج بن کے ہم شیطان کو بھگائیں گے (پہلا مصرعہ)
شاعر :نامعلوم ،کتاب :ہوشعنا، ناشر: دخترانِ مقدس پولوس ،گیت نمبر۲۲۱
مریم کی فوج کا ذکر پوری بائبل میں کہیں موجود نہیں ، یسوع کی فوج کا ذکر ضرور ہے : اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے ۔ْ اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے پہنے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ْ (مکاشفہ ۱۹:۱۳،۱۴)۔
گرہن نمبر۲۱
کیا کروں تعریف تیری مجھ میں دانائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر کروں جی جان سے تجھ کو نہ میں یسوع پیار
نام رکھتا ہوں ولے میں دل سے عیسائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان دی تو نے ذبیح اللہ سب کے واسطے
ایسی خوبی اور میں ہم نے کبھی پائی نہیں
شاعر :واعظ ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر۲۰۳
یہاں دو اصطلاحات عیسائی اور ذبیح اللہ پرلسانی و بائبلی حوالے سے غور کیجئے۔ کلام مقدس یسوع کو مسیح کہتا ہے عیسیٰ نہیں ۔یسوعؔ عبر انی لفظ یشو ؔ ع کی یو نا نی شکل ہے جس کے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا کے ہیں ۔ مسیح عبرا نی اور عر بی د ونو ں زبا نو ں میں ایک معنی رکھتا ہے یعنی مسح کیا ہو ا شخص ۔ یو ں یسوع مسیح کے پو رے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا مسح کیا ہوا شخص ہیں۔عیسیٰ کا مطلب یہودیوں کا ایک نبی ہے ۔پس عیسیٰ کا لفظی مطلب یسوع مسیح کی شانِ اقدس کا ترجمان یا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ہم عیسائی نہیں مسیحی ہیں۔ شاگرد پہلی بار انطاکیہ میں مسیحی کہلائے (اعمال ۱۱:۲۶)۔ یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا بائبل مقدس اور مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال:
ابنِ مریم مر گیا یا زند ۂ جاوید ہے
ہیں صفات ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جِس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
دوسری اصطلاح ذبیح اللہ ہے جس کا مطلب اللہ کی راہ میں قربان ہونے والا ہے ۔یہ بھی اسلامی اصطلاح ہے جس کا مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ابرہام کے بیٹے اسماعیل کا لقب ہے اس لئے بھی یسوع کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس اصطلاح کی بنیاد یہ ہے کہ خدا نے ابرہام کو اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی دینے کا حکم دیا اس لئے اسماعیل ذبیح اللہ ہے، جبکہ بائبل مقدس اضحاق کی قربانی کا ذکر کرتی ہے (دیکھئیے پیدائش ۲۲ باب)۔ اب فیصلہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔مندجہ بالا گرہن مستند کتابوں سے ہیں لیکن موجودہ دور میں روح کے گیت تو ہر حد کو پھلانگ گئے ہیں یعنی نیم حکیم اور خطرہِ جان۔ یہ ایک کرب ناک صورتحال ہے جسے درست کرنا شاید اس سے بھی کرب ناک ہو۔ پس حمد و ثناء ایک حساس معاملہ ہے اور ہمیں گیتوں اور غزلوں میں موجود مواد کو علم الہی کی روشنی میں پرکھنا بھی چاہیے۔جب لائق طور پر پرستش ہی نہ ہو تو نجات کیسی؟
درست طور پر کی جانے والی عبادت ہی برکت کا وسیلہ بنتی ہے۔عبادت کا اختتام اسی لئے کلماتِ برکت سے کیا جاتا ہے ۔ ان کلمات میں خدا باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے لوگوں کو برکت دی جاتی ہے۔ کلماتِ برکت کے بعد ہی عبادت سے رخصت ہونا چاہیے کیونکہ یہی عبادت کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اکثر لوگ عبادت شروع ہونے کے بعد آتے ہیں اور ہدیہ دے کر چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اقرارِ گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی کلماتِ برکت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جاتے وقت لوگوں کی جوتیاں بھی چرا لے جاتے ہیں، یوں وہ عباد ت سے برکت نہیں لعنت حاصل کرتے ہیں۔گرجا گھر میں نوجوان لڑکے لڑکیاں کیا کرتے ہیں؟ کیا تانک جھانک کے لئے گلی محلے کافی نہیں ہوتے؟یہ ملاکی کی کتاب نئے عہد نامے میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟انہیں بائبل کا علم کیوں نہیں؟ دورانِ عبادت ہماری توجہ کس طرف ہوتی ہے ؟ ہم کیوں نامناب طور پر مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں؟ دورانِ عبادت ایس ایم ایس وفون کالز کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہوتا؟ افسوس اگر کسی کو منع کرو تو وہیں بے عزت ہونا عام سی بات ہے۔عزیزو! اگر نجات چاہیے تو یہ سب درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادت کے لئے ہمیں کولہو کا بیل نہیں بننابلکہ روح اور سچائی سے پرستش کرنے والے پرستاربننا ہے۔ گرجا گھروں میں رٹی رٹائی دعائیں دہراتے رہنے سے نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس سارے عمل میں عابد عموماً خدا سے دور ہی رہتا ہے پھر بھی وہ ہر اتوار گرجے جانا ضروری سمجھتا ہے۔ ہم جانوروں کی طرح اپنے آباو اجداد کا تسلسل ہیں ۔ ہم اسلئے مسیحی ہیں کہ ہمارے بڑے مسیحی تھے اور ہماری عبادت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذرا سوچئیے لاتعداد گرجا گھروں میں جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں اگر ان کا کچھ حصہ بھی قبول ہو جائے تو ہماری حالت بدل جائے۔ مقدس یعقوب ہماری دعا ؤں کو یوں پیش کرتا ہے: تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اسلئے کہ بری نیت سے مانگتے ہو۔۔۔ ۔ْ (یعقوب ۴:۳ )۔ نیز ہمیں ان دعاؤں کے جواب کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ خدا ہماری دعائیں سن کر قبول کرے گا تو ہماری دعاؤں کا انداز فرق ہو۔ گرجا گھروں میں خادم اپنے دشمنوں کے لئے برکت چاہ رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکی دعا میں اثر نہیں ۔ یہ ایک دکھاوا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی پارسائی ظاہر کر رہا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہی خادم کلیسیا کو لوٹنے، چرچ پراپرٹی بیچنے اور دیگر مقدمات میں ملوث ہوتا ہے۔ حیرت ہے وہ اپنے جسمانی و کلیسیائی مقدمات کے لئے بھی خدا سے دعا کرتا ہے جبکہ خدا کے خلاف ہی اس کا عمل ہوتا ہے۔ وہ گرجا گھر میں اپنے دشمنوں کے لئے دعا مانگتا ہے کہ اے خدا ان کی آنکھیں کھول دے جو تیرے ممسوح کے خلاف منصوبے بناتے ہیں، جبکہ اسے اپنے اعمال نظر نہیں آ رہے ہوتے کہ اس نے کلیسیا کے ساتھ کیا کیا۔ نتیجہ یہ کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری عبادت خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتی؟میرے کڑوے جوابات سے اکثر مسیحی ناراض ہو جاتے ہیں لیکن میرا جواب آج بھی یہی ہے کہ ہم خود دیانتدار نہیں نیز جن کے پیچھے عبادت کرتے ہیں وہ ہم سے بھی بڑے چور ہیں۔ ایسے ماحول میں خدا سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہی حالت ہماری شخصی و خاندانی عبادات کا ہے۔
روح القدس سچے پرستارکے ذریعے ہی کام و کلام کرتا ہے ، اسلئیے عبادت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عبادت ایک ضابطہ حیات ہے جس کے وسیلہ سے برکت ملتی ہے۔ اس لئے ہمیں لائق طور پر عبادت کرنی چاہیے۔ یاد رکھئیے نامکمل یا ادھوری عبادت خدا سے قرب کا ذریعہ نہیں بن سکتی، قربت ہوگی تو نجات ملے گی۔ دعا ہے خدا ہم سب کو لائق طور پر عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آخرت اور نجات: Salvation After Death

نجات کے متعلق کچھ بدعتی گروہوں کا یہ خیال ہے کہ جو بھی مسیح کا نام لے گا وہ نجات پائے گااورآخرت میں سب کو نجات دی جائے گی۔کچھ کہتے ہیں کہ موت کے بعد لوگوں کو نجات کا دوسرا موقع بھی دیا جائے گا۔ یوں یہ مسیحی قوم کو دھوکے میں رکھ کر انہیں گناہ کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔ بے شک نجات کے متعلق یہ اہم سوال ہے کہ کیا سب کو نجات حاصل کرنے کا موقع ملے گا؟موت کے بعد کیا ہو گا؟موت ایک حقیقت ہے اور نجات یا ابدی زندگی کا حصول بھی ایک ایماندار کے لئے ضروری امر ہے کیونکہ خدا ’ ’چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں ۔ْ‘‘ (۱ تیمتھیس ۲: ۴)۔ خدا سب کو نجات کا موقع کیسے فراہم کرے گا؟نجات کا راستہ یسوع مسیح ہے لیکن کرہ ارض پر موجود مختلف قوموں، فرقوں، تہذیبوں اور مذاہب کے ان لوگوں کا کیا بنے گا جنہوں نے یسوع کا نام تک نہیں سنا ، یا جو یسوع مسیح کی زمینی آمد سے پہلے ہلاک ہوئے۔دیگر اقوام تو دور کی بات ابھی تک مسیحیوں تک بھی درست تعلیمات نہیں پہنچیں۔ ابلاغِ عامہ کہ ذمہ داری کلیسا کی ہے لیکن چرچ نے اپنی ذمہ داری دیانتداری سے پوری نہیں کی۔ آج ہر مسیحی راہِ نجات سے منحرف ہو کربھی نجات کے متعلق پر امیدہے۔اسے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ مسیح پر ایمان لایا ہے اسلئے اسے اس کی بتائی ہو ئی راہ پہ چلنا بھی ہے کیونکہ موت کے بعد اس کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔نجات ایک عالمگیر حقیقت ہے لیکن اس کی فراہمی کا طریقہ کار ایمانداروں اور غیر ایمانداروں کے لئے مختلف ہے۔
اگرچہ نجات کے لئے دوسرے موقع کی فراہمی دلچسپ امر ہے لیکن بائبل مقدس اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ راستبازی اور نجات میں ہم زمینی زندگی میں کئے گئے اعمال کی اہمیت کو تفصیلاً دیکھ چکے ہیں یعنی جب تک ایماندار اپنی جسمانی حالت میں زندہ ہے اس کے لئے توبہ و نجات کے دروازے کھلے ہیں مگر موت کے بعد کچھ نہیں : ’ ’ ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔ْ اور لعزر نام ایک غریب ناسوروں سے بھرا ہو اس کے دروازے پر ڈالا گیا تھا۔ْ اسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کتے بھی آ کر اس کے ناسور چاٹتے تھے۔ْ اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مر گیا اور فرشتوں نے اسے لیجا کر ابرہام کی گود میں پہنچا دیا اور دولت مند بھی موا اور دفن ہوا۔ْ اس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اٹھائیں اور ابراہام کو دور سے دیکھا اور اس کی گود میں لعزرکو۔ْاور اس نے پکار کر کہا اے باپ ابرہام مجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑپتا ہوں۔ْ ابرہام نے کہا بیٹا ! یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر بری چیزیں لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتا ہے اور تو تڑپتا ہے ۔ْ اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھاواقع ہے ۔ ایسا کہ جو یہاں سے پار تمہاری طرف جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آ سکے۔ْ اس نے کہا پس اے باپ ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اسے میرے باپ کے گھر بھیج ۔ْ کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ انکے سامنے ان باتوں کی گوہی دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ْ ابرہام نے اس سے کہا انکے پاس موسیٰ اور انبیا تو ہیں انکی سنیں۔ْ اس نے کہا نہیں اے باپ ابرہام ہاں اگر کوئی مردوں میں سے انکے پاس جائے تو وہ توبہ کریں گے۔ْ اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی ہی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔ْ‘ ‘ (لوقا ۱۶: ۱۹۔۳۱)۔
یہاں دوسرے موقعے کی سہولت ہوتی تو دولت مند کو دوسرا موقع دیا جاتا۔ مزید دیکھئے : ’ ’ کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار روشن ہو گئے اور وہ آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اور روح القدس میں شریک ہو گئے۔ْ اور خدا کے عمدہ کلام اور آیندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے ۔ْ اگر وہ بر گشتہ ہو جائیں تو انہیں توبہ کے لئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے اس لئے کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی طرف سے دوبارہ مصلوب کر کے اعلانیہ ذلیل کرتے ہیں۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۶: ۴۔۶) ۔ ’ ’ کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔ْ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور غضبناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھا جائے گی۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۱۰: ۲۶،۲۷)۔ پس جنہیں پہلا موقع مل چکا انہیں دوسرا موقع نہیں مل سکتا۔ دوسرا موقع صرف ان کے لئے ہے جنہیں پہلا موقع نہیں ملا یعنی جو یسوع کو نہیں جانتے اور جنہوں نے یسوع کی خوشخبری نہیں سنی کیونکہ خدا ناانصاف نہیں وہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے ۔ پس جو یسوع کو جانتے ہیں یا یسوع کو مانتے ہیں ان کو پہلا موقع اور آخری موقع مل چکا۔
کچھ بدعات موت کے بعد نجات کے دوسرے موقع پہ متفق ہیں اور وہ مختلف حوالے دے کر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں :
’ ’اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔ْ ‘ ‘ (۱ کرنتھیوں ۱۵: ۱۹)۔ اس حوالے کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑ ھیں تو یہ بات حقیقی ایمانداروں کے متعلق کہی گئی ہے جن کو موت کے بعد ابدی آرام ملے گا نہ کہ گنہگاروں کے بارے۔ یسوع مسیح کے ان الفاظ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے: ’ ’ اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی ۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۱۰: ۱۶)۔ یہاں دوسری بھیڑوں سے مراد غیر یہودی لوگ ہیں جو مسیح پر ایمان لا کر نجات پائیں گے ۔ اس ضمن میں یہ دلیل بہت مضبو ط ہے: ’ ’ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جئیں گے۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۵ : ۲۵)۔ یہ آیت غیر ایمانداروں کے لئے تو خوشخبری ہو سکتی ہے لیکن جو لوگ پہلے ہی سے مسیح کی آواز سن چکے ہیں ان کے لئے اس آیت کو دوسرا موقع تصور کرنا درست نہیں۔ اسی باب کی ۲۸، ۲۹ آیت بھی دیکھئے: ’ ’ اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اس کی آواز سن کر نکلیں گے۔ْ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔ْ ‘ ‘ اس بات کی تصدیق یسوع لعزر کو قبر سے پکار کے کرتا ہے۔
بحرحال اس بات کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہو گا کیونکہ روزِ عدالت سبھی آمنے سامنے ہونگے: ’ ’ وہ اس وقت ان شہروں کو ملامت کرنے لگا جن میں اس کے اکثر معجزے ظاہر ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے توبہ نہ کی تھی کہ ۔ْ اے خرازین تجھ پر افسوس! اے بیت صیدا تجھ پر افسوس! کیونکہ جو معجزے تم میں ظاہ ہوئے اگر صور اور صیدا میں ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اور خاک میں بیٹھ کر کب کے توبہ کر لیتے۔ْ مگر میں تم سے کہتا ہون کہ عدالت کے دن صور اور صیدا کا حال تمہارے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ اور اے کفر نحوم کیا تو آسمان تک بلند کیا جائے گا؟ تُو تو عالمِ ارواح میں اترے گا کیونکہ جو معجزے تجھ میں ظاہر ہوئے اگر سدوم میں ہوتے تو آج تک قائم رہتا ۔ْمگر میں تم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن سدوم کے علاقہ کا حال تیرے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ ‘ ‘ (متی ۱۱: ۲۰۔۲۴)۔ مزید دیکھئے: ’ ’ نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگون کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے۔ْ دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانی کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی ۔ کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑ ا ہے۔ْ ‘ ‘ ( متی ۱۲: ۴۱، ۴۲)۔
خدا سب کوعدالت کے لئے دوبارہ زندہ کر ے گااور ہمیں بھی عدالت کا سامنا کرنا ہو گا: ’ ’ پھر میں نے ایک بڑا سفید تخت اور اس کو جو اس پر بیٹھا ہوا تھا دیکھا جس کے سامنے سے زمین اور آسمان بھاگ گئے اور انہیں کہیں جگہ نہ ملی۔ْپھر میں نے چھوٹے بڑے سب مردوں کو اس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِ حیات اور جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہواتھا انکے اعمال کے مطابق مردوں کا انصاف کیا گیا۔ْ اور سمندر نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور موت اور عالم ارواح نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور ان میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اسکا انصاف کیا گیا۔ْ ‘ ‘ (مکاشفہ ۲۰:۱۱۔۱۳)۔پس ’ ’آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا اور اسکے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۹:۲۷)۔ یعنی عدالت اعمال کے مطابق ہو گی اور نجات کا کوئی دوسرا موقع نہیں۔موت کے ساتھ ہی موقع بھی ختم۔
اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کے مبارک لوگوں میں شمار ہو سکیں کیونکہ یہ کوشش ہم اپنی زمینی زندگی میں ہی کر سکتے ہیں موت کے بعد کچھ نہیں صرف عدالت کا ہولناک انتظار ہے۔ ہمیں اچھا پھل لانا ہے کیونکہ موت کے بعد پھل لانا ممکن نہ ہو گا: ’ ’ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ْپس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔ْ جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند !کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل ہی ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ْاس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟۔ْ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔ْ پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ْ اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے اپنا گھر ریت پربنایا ۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۹۔۲۷)۔ دعا ہے کہ خدا ہم سب کوکلامِ مقدس کیے بتائی ہوئی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اپنے فضلِ خاص کی بدولت ہمیں غلط راہوں سے محفوظ رکھ کر نجات یافتہ برگزیدوں میں شامل کرے۔ آمین۔ 

راستبازی

راستبازی سے مرادسچائی اور ایمانداری سے خدا کے سکھائے ہوئے اصول و ضوابط کی فرمانبرداری کرنا ہے۔یہ گناہ کی ضد ہے اور اسے آسان الفاظ میں اسے خدا کی فرمانبرداری اور روز مرہ نیک زندگی کے معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے، لیکن یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ انسان بذاتِ خود راستباز نہیں ٹھہر سکتا بلکہ خُدا اُسے راستباز ٹھہراتا ہے۔ راستبازی نجات کا اہم ترین ستون ہے : ’’۔۔۔اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔ْ‘‘ (متی ۵: ۲۰)۔ ہمارے اعمال کی درستگی ہمیں نجات کی سمت لے جانے اور خدا کی بادشاہت کا فرزند بننے کے لئے تیار کر سکتی ہے۔راستبازی کلام مقدس کے مرکزی مضامین میں سے ہے اور انسان کو راست باز بننے کی تلقین بار ہا کی گئی ہے: ’’بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ْْ ‘‘ (متی ۶:۳۳)۔ خدا کی راستبازی یہ ہے کہ مسیح پر ایمان لا کر اسکے حکموں کے تابع ہو جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ ناراست کو کیسے راستباز بنایا جا سکتا ہے؟ گنہگار کو راستباز ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ خدا کے ساتھ ٹوٹی ہوئی رفاقت کا پھر سے بحال ہو جانا، کفارے کی بنیاد بھی یہی ہے۔ کلام مقدس ہماری رہنمائی کرتا ہے : ’’اسلئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ْ مگر اسکے فضل کے سبب سے اس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ْ‘‘ (رومیوں ۳: ۲۳،۲۴) ۔ ابراہام بھی اعمال سے نہیں بلکہ خدا پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرا۔ ’’ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہرینگے۔ْ‘‘ (رومیوں ۵: ۱۹)۔
ہم خدا کے فضلِ خاص سے راستباز تو ٹھہرائے گئے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم صرف مسیحی کہلوا کر ہی نجات یافتہ ہونے کا تمغہ سجا لیتے ہیں۔ہم ایمان لانے کے بعد حکموں پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں: ’’پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور انکو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْاور ان کو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا۔۔۔ ۔ْ‘‘ (متی۲۸:۱۹،۲۰) ۔ ہم راست اعمال نہیں کر رہے: ’’۔۔۔اور جب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے اندر آیا تو اُس نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا جو شادی کے لباس میں نہ تھا ۔ْ اور اس نے اس سے کہا میاں تُو شادی کی پوشاک پہنے بغیر یہاں کیونکر آگیا؟ لیکن اسکا منہ بند ہو گیا۔ْ اس پر بادشاہ نے خادموں سے کہا کہ اُسکے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو ۔ وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا۔ْ کیونکہ بلائے ہوئے بہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے۔ْ‘‘ (متی ۲۲: ۱۴ ۱) ۔ ہم بحثیت مسیحی بلائے تو گئے ہیں لیکن ہمیں برگزیدہ یا پسندیدہ بھی بننا ہے۔ ہمیں با دشاہی کی ضیافت میں شامل ہو نے کی اُمید تو ہے لیکن ہما را لبا س را ستبا زی کا نہیں ۔ ہما رے اعمال اِس لا ئق نہیں کہ ہم اُس بادشاہی کی ضیا فت میں شریک ہو سکیں ۔پس ہما ر اکر دا رو عمل ہما رے مسیحی ایمان کا آ ئینہ ہو ناچا ہئے ۔ اسی بات کو لے کر اعمال کی اہمیت پر انتہائی زور دیا جاتا ہے اور یسوع کی مخلصی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مخلصی کی اہمیت سے کوئی منکر نہیں اور اسے ہم کفارہ کے تحت دیکھ چکے ہیں لیکن اعمال کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ نیز بدعتی فرقوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نجا ت صرف اعمال سے ہے اسلئے ہمیں راستباز بننے اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ایک مسیحی صرف اِس لئے مسیحی ہے کہِ اس کے آباؤ اجداد مسیحی تھے۔یعنی اِس کی ذاتی زندگی میں مسیح کا تجربہ یا زندگی بخش بات نہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ مسیحی ہے لیکن یہ علم نہیں کہ وہ کیوں اور کیسے مسیحی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان خود سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن راست اعمال کرنا اس کا فرض ہے نجات کا حصول تب ہی سہل ہو گا۔ مسیح پر ایمان لے آنے یا غوطہ لینے کے بعد عمو ماً یہ سمجھا جا تا ہے کہ اب ہمیں کچھ کر نے کی ضرو رت نہیں بلکہ ہما ری نجا ت کا کام مکمل ہو چکا ہے، بس غو طہ لے لیں تو سیدھے جنتی ۔ یو ں یہ کفارے تک رسا ئی کا سا را عمل پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔اعمال کی اہمیت زیا دہ تر مسیحی بھولے بیٹھے ہیں ۔یہی وہ راستبازی ہے جو ہمیں برگزیدوں میں شامل کروا سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثر صر ف نجا ت کو جا نتے ہیں لیکن یہ نہیں جا نتے کہ نجات کس راہ سے گزر کرحاصل ہوگی :’ ’ تنگ دروا زہ سے دا خل ہو کیو نکہ و ہ دروازہ چو ڑا ہے اور وہ را ستہ کشا دہ ہے جو ہلا کت کو پہنچا تا ہے اور اس سے دا خل ہو نے والے بہت ہیں۔ْ کیونکہ وہ دروا زہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچا تا ہے اور اس کے پا نے والے تھو ڑے ہیں۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۳،۱۴) ۔
مسیحی ایمان میں شمولیت کے بعد یہی تصور کیا جا تا ہے کہ ہم بیٹھے بٹھائے نجات یا فتہ ہو چکے ہیں اس لئے روحانی مستقبل کے بارے میں گھبرا نے کی ضرو رت نہیں ۔ ان کے بقول Eat, Drink and be Happy کیونکہ یہوا ہ یریؔ نے نجات مہیا کر دی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر بائبل مقدس اس کی تر دید کیو ں کر تی ہے :’ ’ جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۲۶)۔ ہمیں خدا کے فضل کو غلط معنو ں میں نہیں لینا چا ہئے۔ہم پلک جھپکتے ہی نجا ت یافتہ لو گوں میں شامل ہو نا چا ہتے ہیں لیکن یہ اتنا آ سان بھی نہیں ۔ آج کتنے ہی مسیحی نجات یافتہ کہلوانے کے ساتھ ساتھ اپنی پرا نی ڈگرپر چل رہے ہیں،بھیس بدل گیا ہے روش نہیں :
بھیس بدلا کیا ہوا دل کا بدلنا چا ہئے
ایک دو با تیں نہیں بالکل بدلنا چا ہئے
ہم کیسے خدا کے حضور مقبول ہو سکتے ہیں؟ یقیناً اپنے مسیحی ایمان و راست عمل سے۔ یسوع مسیح اپنی زمینی زندگی میں ہمیں نیک اعمال کرنے کی تعلیم دیتا رہا۔ بے شک مسیحیت میں اعمال کی نوعیت بنی اسرائیل سے مختلف ہے۔ بنی اسرائیل کوراستبازی کے تناظر میں خدا اور انسان سے متعلقہ بہت پیچیدہ قسم کے قوائد و ضوابط کی پاسداری کرنا ضروری تھا۔ یسوع مسیح نے انسان کو خدا سے ملانے کے ساتھ ساتھ اس پیچیدگی کو بھی دور کر دیا۔ یعنی اُس نے انسان بن کر راستبازی و نجات کو انسانی سطح پر قائم کیا: ’ ’ جب ابن آ دم اپنے جلا ل میں آ ئیگا اور سب فرشتے اُس کے سا تھ آ ئیں گے ۔ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ْ اور سب قو میں اُس کے سامنے جمع کی جا ئیں گی اور وہ ایک کو دو سرے سے جدا کر یگا جیسے چر وا ہا بھیڑو ں کو بکریو ں سے جدا کر تا ہے۔ْ اور بھیڑو ں کو اپنے دہنے اور بکریو ں کو با ئیں کھڑا کر یگا ۔ْاُس وقت با دشا ہ اپنے د ہنی طر ف والو ں سے کہے گاآ ؤ میرے با پ کے مبا ر ک لو گو جو با دشا ہی بنا یِ عالم سے تمہا رے لئے تیا ر کی گئی ہے اُسے میرا ث میں لو۔ْکیو نکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھا نا کھلا یا ، میں پیا ساتھا تم نے مجھے پا نی پلا یا ، میں پر دیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتا را۔ْ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنا یا ، بیما ر تھا تم نے میری خبر لی ، قید میں تھا تم میرے پاس آ ئے ۔ْ تب را ستباز جو اب میں اُس سے کہیں گے اے خدا وند !ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھا نا کھلایا یا پیا سا دیکھ کر پا نی پلا یا؟۔ْ ہم نے کب تجھے پر دیسی دیکھ کر گھر میں اتا را ؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنا یا ؟ ۔ْ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آ ئے ؟ ۔ْ بادشا ہ جوا ب میں ان سے کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ چونکہ تم نے میرے اُن سب سے چھو ٹے بھا ئیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا اُس لئے میرے ہی سا تھ کیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۲۵:۳۱۔۴۰) ۔ یہاں انسان کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی راستبازی کے زمرے میں آگیا اور نجات کا سبب بنا۔
بے شک یہ میرا ث راستبازوں کے لئے ہے ناراستوں کے لیے نہیں اس لئے ہمیں راستباز بننا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے رو پو شی اختیار نہیں کر نی ۔ ہمیں مسیحی قو م کی رُوحا نی و جسما نی تر قی کے لئے مل جل کر کا م کر نا ہے ۔ لیکن ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم آ ج تک اپنی پرا نی انسا نیت سے با ہر ہی نہیں نکلے ۔ہمارا دشمن ابلیس ہما رے گھرو ں میں گھساہوا ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک بے سود اور نکمی الجھنو ں میں الجھے ہیں ۔ ہم اپنے مسیحی ایما ن پر خو د ہی کیچڑ اچھا ل رہے ہیں : ’ ’ کیونکہ بہتیرے ایسے ہیں جنکا ذکر میں نے تم سے بارہا کیا ہے اور اب بھی رو رو کر کہتا ہو ں کہ وہ اپنے چال چلن سے مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ْ ‘ ‘ (فلپیوں ۳: ۱۸)۔ ہمارا چال چلن بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
آسمانی وطن میں جانے کے لئے ہمیں سب سے پہلے تو بہ کی طر ف ما ئل ہو ناہے ۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کا پتہ ہی نہیں۔ اسی تناظر میں مجھے ایک مثال یاد آگئی جو ہماری ایمانی حالت کی بڑی اچھی وضاحت کرتی ہے۔ایک بادشاہ کے ناک پر کسی وجہ سے زخم ہو گیا۔بادشاہ نے بڑا علاج کروایا لیکن زخم ر وز بروز بڑھتا ہی گیا۔ بالآخر ایک طبیب نے مشورہ دیا کہ اگر ناک کو کاٹا نہ گیا تو زخم پورے جسم پر پھیل جائے گا جس کا علاج ناممکن ہو گا۔ بادشاہ یہ بات سُن کر نہایت پریشان ہواکہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اسی پریشانی کے عالم میں وزیرنے اُسے مشورہ دیا ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کا ناک کاٹتے ہی پورے ملک میںیہ قانون لاگو کیا جائے کہ سب لوگوں کے ناک کاٹے جائیں ،اسی طرح ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کا ناک بھی کاٹا جائے اور یہ قانون نسل در نسل قائم رہے۔ بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی اور شاہی فرمان کے ذریعے اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا گیا۔یوں اُس ملک کا ہر باشندہ نسل در نسل ناک کی نعمت سے محروم ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ اُس قوم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ انسانی جسم کے ایک اہم عضوسے محروم ہیں۔ بہت سے بادشاہ آئے اور گئے لیکن کسی نے بھی اس قانون کو بدلنے کی کوشش نہ کی، کرتے بھی کیسے وہ خود بھی ناک سے محروم تھے اور اس حوالے سے ان کا ضمیر بھی مردہ ہو چکا تھا۔ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد اُس ملک سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جس کا ناک درست قُدرتی حالت میں تھا۔ ناک کٹے لوگوں نے اس شخص کو دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا کہ اس کا ناک کیسا ہے؟
آج ہم نے بھی اپنی یہی حالت کرلی ہے۔ہم کسی راستباز مسیحی کو سمجھنے کی بجائے اُس پر ہنستے ہیں اگرچہ کمی ہماری اپنی ذات میں ہے۔ یہی وہ کلیسیائی بانجھ پن ہے جو ہمیں وراثت میں ملاہے اور ہم بھی اسے جُوں کا تُوں اگلی نسل کو سونپنے جا رہے ہیں۔ ہم ناک کٹوانے کی رسم نسل در نسل سر انجام دے کر حقیقی مسیحی روح کو بجھا چکے ہیں۔ ہمیں ہنسنا نہیں بلکہ اس حقیقت کو محسوس کرنا ہے کہ ہم ایمانی لحاظ سے معذور ہوکر اپنے روحانی مستقبل کو تاریک کر چکے ہیں۔ ابھی ہمیں اپنے گنا ہو ں کا احسا س نہیں ہو رہا ہما ری مثال اُس آدمی کی سی ہے جو پانی میں تیرتا ہے تو پا نی کا بو جھ محسو س نہیں کر تا اگر وہی آ دمی پا نی سے با ہر نکل کر دیکھے تو ایک گلاس پا نی کا وزن بھی محسو س کر ے گا۔ ہم بھی گنا ہ میں تیر رہے ہیں اور ان گنا ہوں کا بو جھ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا اگر ہم اِن گنا ہو ں سے با ہر نکلیں تو پھر ہمیں چھو ٹے سے چھو ٹے گنا ہ کا بھی احسا س ہو گا ،یہی وہ احسا س ہے جو تو بہ کی طر ف ما ئل کر کے نجات کی طرف لے جا تا ہے ۔بہت سے طے شدہ مسیحی رُو ح القدس کے دعویدا ر ہو نے کے سا تھ ساتھ اپنے اعمال سے مسیحی ہونے کی نفی کر رہے ہیں ۔ کیا یہی ہیں وہ رُو ح القدس کے فضا ئل جو با ئبل مقدس بیان کر رہی ہے ؟ : ’ ’مگر رُوح کا پھل محبت، خو شی، اطمینان، تحمل ، مہر با نی ، نیکی، ایمانداری، حلم، پر ہیز گا ری ہے۔ْ ‘ ‘ (گلتیو ں ۵:۲۲،۲۳)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے بیٹے کو با ر بار مصلو ب کر کے اعلا نیہ ذلیل کر تے ہیں (عبرا نیوں ۶:۶)۔ یہ مسیح پر ایما ن تو رکھتے ہیں مگر سو فی صد نہیں ۔ یہ بھیڑو ں کی شکل میں بھیڑیے ہیں ۔ یہ لو گو ں کے سامنے غیر زبا نیں اور بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے توکر تے ہیں لیکن ان کے اندر لا لچ کی رُو ح بڑی کا میابی سے عمل کر تی ہے ۔ انہیں مسیحیت کی کو ئی فکر نہیں بلکہ یہ آ پس کے جھگڑو ں میں ہی الجھے ہو ئے ہیں جن کا نتیجہ عا م کلیسیا ئی رکن کی کلیسیا سے بد ظنی ہے ۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا حقیقی مسیحی وجود ناجانے کہاں کھو گیاہے؟ کیا غلامی ہی ہمارا مستقبل ہے؟ کیا مذہبی آمر ہی قیامت اور زندگی ہے؟ کیا کوئی ہمت والاNo Sir! نہیں کہہ سکتا؟ ہم اپنی ڈور انسانی ہاتھوں میں کیوں سونپ رہے ہیں؟ ہم مشترکہ مفاد کے لئے کیوں نہیں سوچتے؟ ہم کیوں وقت کو نہیں پہچان رہے؟ ہم کیوں مُردہ قوموں کی طرح اِسی دُنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں؟ آخر ہم کب تک مردہ ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ کیا ہم معاشی و مذہبی استحصال کے لئے ہی چُنے گئے ہیں؟ غیر تو غیر، ہمارے اپنے رہنما بھی تعصب کی عینک لگائے ہماری زبوں حالی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔حیرت ہے یہ اِسی مسیحیت کی چھاپ سجائے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور پھر انہی مسیحیوں سے رُوپوشی اختیار کر رہے ہیں۔
مسیحیت انساینت کی قدر کرنا سکھاتی ہے اور یہی راستبازی ہے۔ لوقا ۱۰ باب میں جب شرع کا عالم نجات کی راہ پوچھتا ہے تو یسوع انسانیت سے محبت کو خدا کے بعد اولین ترجیح دیتا ہے: ’’ اُس نے اس سے کہا توریت میں کیا لکھا ہے؟ تو کس طرح پڑھتا ہے؟ ۔ْ اس سے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ْ اس نے اس سے کہا تو نے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر تو تُو جیئیگا۔ْ‘‘ آگے چل کے یسوع ہمیں پڑوسی کی شناخت بھی کرواتا ہے: ’’ یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلیمؔ سے یریحوؔ کی طرف جا رہا تھاکہ ڈاکوؤں میں گھِر گیا۔ انیوں نے اس کے کپڑے اتا ر لئے اور مارا بھی اور ادھ مؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ْ اتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ اسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اس نے ترس کھایا۔ْ اور اس کے پاس آکر اُسکے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اس کی خبر گیری کی۔ْ دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دئے اور کہا اس کی خبر گیری کرنا اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہو گا میں پھر آ کر تجھے ادا کردوں گا۔ْاِن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوؤں میں گھِر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟۔ْ اُس نے کہا وہ جس نے اُس پر رحم کیا ۔ یسوع نے اس سے کہا جا تُو بھی ایسا ہی کر۔ْ‘‘ کیا ہم اپنے پڑوسی کا خیال رکھ رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم اپنے ہم جنس سے روپوشی اختیار کر رہے ہیں جو کسی طور بھی راستبازی نہیں۔
ہمیں راستبازی اور ریاکاری میں فرق جاننا بھی ضروری ہے کیونکہ معاشرے میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ راستبازی ہمیں نجات کی طرف لے جاتی ہے جبکہ ریاکاری نجات سے محروم کرتی ہے۔ریاکاری یا Hypocrisyکی مذمت یسوع مسیح نے بارہا بڑے سخت الفاظ میں کی ۔ یسوع مسیح نے فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کرتے وقت اکثر اوقات لفظ ریا کار استعمال کیا ۔ ریاکاری زمانۂ قدیم سے چلی آرہی ہے اورآج مسیحیت میں بھی اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ بہت سے ریاکار مسیحی زندگی کی دوڑمیں سبقت لئے ہوئے ہیں، انہیں ذاتی مفاد عزیز ہے چاہے کوئی جیے یا مرے ۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ کئی رُوپ بدلتے ہیں۔اگر ہم چند لمحات کے لئے اپنی زندگیوں پر غور کریں تو اپنے آپ کو ریاکاروں سے کچھ کم نہیں پائیں گے ۔ہمیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ہم اپنے آپ کو پاکیزہ اور دوسرے کو حقیر جانتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری کسی کمی کی نشان دہی کردے تو ہم جواباً کوئی جواز پیش کر دیتے ہیں ۔ ہم معاشرے سے اجر تو پانا چاہتے ہیں مگر معاشرے کو کچھ اچھا دینا نہیں چاہتے۔ہم اپنے نیک اعمال کی تشہیر ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ عزیزو! یہ راستبازی نہیں ریاکاری ہے۔
جھوٹ راستبازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہم جائز ناجائز چھوٹے یا بڑے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں حننیاہ اور سفیرہ کو جھوت کی کیا سزا ملی؟ مجھے جھوٹ کے حوالے سے ایک کہانی یاد آ گئی۔ کسی گرجا گھر میں پادری صاحب نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگلے اتوار میں جھوٹ کے متعلق پیغا م دو ں گاکیونکہ یہ ہماری زندگیوں کاایک ایسا حصہ ہے جس کی وجہ سے ہم روحانی طور پر ترقی نہیں کر رہے ، میری گذارش ہو گی کہ آپ مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کر آئیں۔ اتوار آ گیا اور پادری صاحب نے جماعت سے سوال کیا کہ پچھلے اتوارمیں نے مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کرآنے کو کہا تھا تو آج کون کون یہ باب پڑھ کر آیا ہے؟ جماعت میں سے اکثریت نے ہاتھ بلند کئے۔ یہ دیکھ کر پادری صاحب مسکرائے اور بولے مقدس مرقس کی انجیل میں صرف ۱۶ باب ہیں ، اب میں جھوٹ کے گناہ پر پیغام شروع کرتا ہوں۔ بے شک جھوٹ ایک اہم بیماری ہے جو ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکا ہے۔عزیزو! یہا ں ایک لمحے کو رکیں اور سوچیں کہ ہم روزانہ کتنے جھوٹ بولتے ہیں؟
آ ج ایک راستباز مسیحی تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ بہت سے مسیحی خود مسیحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔A.T.Schofieldنے اپنی کتاب The Knowledge of Godمیں مسیحیوں کی اس حالت کا یوں تذکرہ کیا ہے:
The half-hearted policy of present day Christians in trusting God with a half trust, and believing in their Scriptures with a half faith, has led to their being half-and-half all around, and wholehearted in nothing. You see in the world the gambler absorbed in bridge, the sportsman in shooting, the golfer in the links, the racing man in the turf, the society woman in fashion, honestly and wholeheartedly; but where is the Christian who is absorbed in Christianity? To whom the fact of God is the greatest fact, the truth of the Scriptures the greatest truth, the love of the Divine the all absorbing passion?
گو یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ مسیحیت کو جتنا نقصان خود مسیحیوں نے پہنچایا ہے کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا، اسی لئے مسیحیت کی اصل شکل مسخ ہوچکی ہے۔کسی کو پتہ ہی نہیں کہ مسیحیت کی اصل رُوح کیا ہے اور اگر کسی کو پتہ ہے بھی تو وہ سسٹم سے خوف زدہ ہوکر اپنی آواز بلند نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے خود اُس کے گھروالے ہی اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ یاد رکھئے! عدالت گھر والوں سے ہی شروع ہوگی، ہمیںیسوع کا وفادار سپاہی بن کر اُن مسیحیوں کے خلاف لڑنا ہے جو مسیحیت کے خلاف لڑرہے ہیں۔ موجودہ مسیحی ،مسیح کی باتوں کی بہ نسبت شیطان کی باتوں کو ترجیح دے کر مسیحیت کے خلاف صف آراء ہیں اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ آج بہت سے مسیحی گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، قبروں کی پوجا کی جاتی ہے اور پیروں فقیروں کی درگاہوں پر حاضری دی جاتی ہے۔ بت پرستی کی یہ قسم مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی، یہ بغاوت کی گھنا ؤنی قسم ہے ۔ کلامِ مقدس بھی اس کی تصدیق کرتا ہے: ’’ کیونکہ بغاوت اور جادوگری برابر ہیں اور سرکشی ایسی ہے جیسے مورتوں اور بتوں کی پرستش۔ْ‘‘ (۱۔سموئیل ۱۵:۲۳)۔یہ کہاں کی راستبازی ہے؟ کلام مقدّس واضح طور پر بیان کرتا ہے: ’’جو جنات کے یار ہیں اور جو جادو گر ہیں تم ان کے پاس نہ جانا اور نہ ان کے طالب ہونا کہ وہ تم کو نجس بنادیں۔ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں ۔ْ‘‘ (احبار ۱۹:۳۱)۔یعنی یہ لوگ نجس ہیں، بھلا نجس و طاہر میں کیا میل؟کیا ہم راستباز ہیں؟ کیاہم مسیحیوں کی ترقی کا سبب بن رہے ہیں؟
عزیزو ! ہمیں ایک دوسرے سے محبت رکھنی چا ہئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر کو ئی کمزو ر ہے تو اسے سہا را دیکر طاقت ور بنایا جائے، ایک دو سرے کے احوال پر نظررکھی جائے اور ذاتی مفاد کو کلیسیا ئی مفا د پر ترجیح نہ دی جائے ۔کلام مقدس نجات کے حصول کی خاطراعمال کی اہمیت پر بھی زور دیتاہے: ’’ اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔ْ اس سے ہم جانیں گے کہ حق کے ہیں اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دے گا اس کے بارے میں ہم اس کے حضور اپنی دلجمعی کریں گے۔ْ ‘‘ (۱ یوحنا ۳:۱۸،۱۹)۔ مقدس یعقوب اعمال کے بغیر نجات کو ناممکن قرار دیتاہے : ’’ اے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے ؟۔ْاگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور ان کو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ْ اور تم میں سے کوئی ان سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ انہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟۔ْ اسی طرح ایمان بھی اگر اس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تواپنی ذات سے مردہ ہے۔ْ۔۔۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں۔ْ مگر اے نکمے آدمی! کیا تو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان بغیر اعمال کے بیکار ہے۔ْ جب ہمارے باپ ابراہام نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربانگاہ پر قربان کیا تو کیا وہ اعمال سے راستباز نہہ ٹھہرا؟۔ْ پس تو نے دیکھ لیا کہ ایمان نے اس کے اعمال کے ساتھ مل کر اثر کیا اور اعمال سے ایمان کامل ہوا۔ْ ۔۔۔ غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۱۴۔۲۶)۔
پس فضل کو پانے کے بعد ہمارے راست اعمال بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صرف اعمال ہی سے ہم نجات پائیں گے نہ ہی شریعت پر عمل کرنے سے۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کی فکر ہی نہیں۔ ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنے آ پ کو جا نچیں اور پرکھیں کہ جو رو شنی ہم میں ہے کہیں تاریکی تو نہیں ؟ ہمیں بحیثیت فر د اور بحیثیت قوم اپنا احتساب کر نے کی ضرو رت ہے اگر آ ج نہیں تو آ نے والے وقت میں؛ تو پھر کیوں نہ یہ عمل آج ہی سے شرو ع کر یں اورناراستی کے جو عنا صر ہم میں مو جو د ہیں اپنے اندر سے نکال پھینکیں ۔ عزیزو! موت کے بعد کچھ نہیں مسیحی ایماندار کی دنیاوی زندگی کا اختتام ہی سزا اور جزا کی حد ہے۔ اس کے بعد نہ تو کوئی دوسرا موقع ہے اور نہ ہی کوئی اور صورت۔اس لئے اعمال کی اہمیت کو نظر انداز کرنا خلافِ عقل امر ہے ۔میری دُعا ہے کہ خدا ہم سب کو نجات یافتہ راستبازوں میں شامل ہو نے کی تو فیق بخشے ۔ (آمین)۔

یسوع مسیح کی مصلوبیت

یسوع مسیح کی مصلوبیت کے حوالے سے بے شمار اعتراض کئے جاتے ہیں جیسے یہ کہ یسوع مصلوب نہیں ہوا بلکہ اس کی جگہ اس کا کوئی ہمشکل مصلوب ہوا، وہ صلیب پر موا نہیں بلکہ زندہ حالت میں اتار لیا گیا ، اسے بدھ والے دن مصلوب کیا گیا نہ کہ جمعے والے دن،یوناہ نبی کا نشان یسوع پورا نہیں کر سکا، اگر مرنے والا یسوع ہی تھا تو اس کی لاش تیسرے دن تک گل سڑ کیوں نہ گئی؟آئیے ان اعتراضات کو بائبل کی روشنی میں دیکھتے ہیں:
پہلے اعتراض کے مطابق یسوع مسیح خو د مصلو ب نہیں ہو ا بلکہ اس کی جگہ اس کا کو ئی ہمشکل مصلو ب ہوا ۔ یہ ایک فلمی اعتراض ہے جس کی بنیا د یسوع مسیح کے ڈبل رو ل پر رکھی گئی ہے لیکن کیا اس فلمی عقیدے کا حقیقت سے کو ئی تعلق ہے ؟ آ ئیے با ئبل مقدس سے رہنما ئی حا صل کریں ۔ آ خری فسح کھا نے کے بعد یسوع شا گردو ں کے سا تھ گتسمنی با غ میں دُعا کے لئے گیا ؛ اگر بالفرض دُعا کے دوران جب شا گرد سو رہے تھے یسو ع مسیح کا سٹنٹ( Stuntسے مُراد ہمشکل ہے) یسو ع کی جگہ لیتا یا Replaceکر تا ہے اور پھر یہو داہ اسکر یو تی آ کر اسی سٹنٹ یسوع کا بو سہ لیتا ہے اور جب شا گردو ں میں سے ایک سر دا ر کاہن کے نو کر کا کا ن اڑا دیتا ہے تو کیا وہ سٹنٹ یسوع اس کے کان کو چھو کر اچھا کر سکتا تھا ؟کیا وہ سٹنٹ یسوع سر دا رکا ہن اور لو گو ں کے سا منے اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا :’ ’سر دا ر کا ہن نے اُس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہو ں کہ اگر تو خدا کا بیٹا یسوع ہے تو ہم سے کہہ دے ۔ْ یسو ع نے اس سے کہاتو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہو ں کہ اِس کے بعد تم ابن آ دم کو قا درِ مطلق کی دہنی طر ف بیٹھے اور آسما ن کے با دلو ں پر آ تے دیکھو گے۔ْ‘‘ (متی ۲۶:۶۳،۶۴) یہا ں مسیح کی ذا تی حقیقت کے با رے میں حلفاً یعنی قسم سے پو چھا گیا ہے۔ کیا کو ئی جھو ٹی قسم اور اتنا بڑادھو کا و د عویٰ ایک سا تھ کر سکتا ہے ؟
اس کے جواب میں یہ کہا جا تا ہے کہ خدا نے سا را انتظام اس طر ح کیا کہ لو گو ں کو یہ سب حقیقت ہی لگا یعنی اس عقیدے کی Justification پر غو ر کریں تو خدا کی پا ک ذا ت کے متعلق بھی ابہا م پیدا ہو تے ہیں ۔ کیا خدا اتنا بڑا ڈرا مہ کر سکتا ہے ؟ کیا خدا بھی عام انسا نو ں کی طر ح انسا نو ں کو دھو کہ دے سکتا ہے ؟ اگر یسوع مسیح کی جگہ سٹنٹ یسوع مصلو ب ہوا تو کیا وہ اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا: ’ ’ اس نے اس سے کہا کہ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہو ں کہ آ ج ہی تو میر ے ساتھ فر دو س میں ہو گا۔ْ‘‘(لو قا ۲۳:۴۳)۔کیا سٹنٹ یسوع کے پاس اتنا اختیا ر تھا ؟ کیا یسوع کی صلیبی مو ت سے متعلق پیشن گو ئیا ں محض جھو ٹ ہیں ؟ ہر گز نہیں شیطان اپنی ہار تسلیم نہیں کر تا اس لئے وہ مسیح کے تجسم ، مصلو بیت اور زندہ جی اٹھنے کے متعلق طر ح طرح کی بد عتیں پھیلا تا ہے ۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : متی باب ۲۶،۲۷ ؛ مرقس باب ۱۴،۱۵ ؛لوقا باب ۲۲،۲۳؛ یو حنا باب ۱۳تا ۱۹ )۔
دوسرے اعتراض کے مطا بق یسوع مسیح کو صلیب پر تو چڑھا یا گیا لیکن وہ صلیب پرُ موا نہیں بلکہ بے ہو شی کی حالت میں صلیب سے اتا ر لیا گیا، اسی حالت میں اسے قبر میں رکھا گیا اور جب اسے ہو ش آ یاتو وہ قبر سے باہر نکل آ یا۔ ہے ناں کسی ناول کی کہا نی ؟ اب بالفرض یہ سب ما ن بھی لیاجا ئے تو کیا اتنے گہرے زخم محض مختصر سے وقت میں ٹھیک ہو گئے ؟ با ئبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں اس با ت کی تصد یق کرتی ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر موا :
’ ’یسوع نے پھر بڑی آ واز سے چلا کر جا ن دے دی۔ْ‘‘(متی۷ ۲:۵۰)
’ ’ارمتیہ کا رہنے والا یو سف آ یا جو عزت دا ر مشیر اور خو د بھی خدا کی با دشا ہی کا منتظر تھا اور اس نے جرا ت سے پیلا طس کے پاس جا کر یسوع کی لاش ما نگی۔ْ اور پیلا طس نے تعجب کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا اور صو بہ دا ر کو بلا کر اُس سے پو چھا کہ اس کو مرے ہو ئے دیر ہو گئی ؟۔ْ جب صو بہ دا ر سے حال معلو م کر لیا تو لا ش یوسف کو دلادی۔ْ‘‘ (مرقس ۱۵:۴۳۔۴۵)۔
’ ’ لیکن جب اُنہو ں نے یسو ع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹا نگیں نہ تو ڑیں۔ْ مگر اُن میں سے ایک سپا ہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اُس سے خو ن اورپا نی بہہ نکلا۔ْ جس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گوا ہی سچی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تاکہ تم بھی ایما ن لا ؤ۔ْ ‘‘ (یو حنا ۱۹:۳۳۔۳۵)۔ یہ تو ہو گئیں با ئبل مقدس کی شہا دتیں آ ئیے اب چند شہا دتیں انسا نی عقل کے تحت بھی دیکھ لیں:
یہو دی یسوع کو کسی نہ کسی عبرت ناک طریقے سے ما رنا چا ہتے تھے جس کا تذکرہ بائبل مقدس میں با رہا ملتا ہے ، اپنی خوا ہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے صلیبی مو ت کا سہارا لیا اور جھو ٹی گوا ہیا ں پیش کر کے سزا ئے مو ت کا حکم بھی صا در کروا لیا ۔انسا نی عقل کے مطابق دیکھاجا ئے تو اتنے لو گ یسو ع کو زندہ حالت میں کیسے اتار سکتے تھے یا پھر اسے زندہ حالت میں لوا حقین کے حوالے کر سکتے تھے ؟
یسو ع مسیح کو صلیبی مو ت سے پہلے بہت اذیت دی گئی ، کو ڑے ما رے گئے اور جب وہ جسما نی طو ر پر بالکل نڈھال ہو گیا تو اُسے گلگتا کی طر ف لے گئے ۔ یسو ع کے نڈھال ہو نے کا اندا زہ ہم اس سے بخو بی لگا سکتے ہیں کہ اسے صلیب تک اٹھا نا مشکل تھا اور وہ صلیب اٹھا کر گر ا بھی۔ اتنی اذیت کے بعد جب اسے صلیب پر کیلو ں سے جڑا گیا تو یہ ایک نہا یت در د نا ک منظر تھا ۔ آ خری فسح کے بعد ہمیں کہیں شوا ہد نہیں ملتے کہ اُسے کچھ کھا نے کو دیا گیاسوا ئے سرکہ کے ۔ اب آ پ کو منصف ٹھہرا تے ہو ئے میں یہ جا ننا چا ہو ں گا کہ اتنی اذیت کے بعد کسی شخص کو اگر وہ زندہ بچا رہے تو بحالی میں کتنے دن لگیں گے ؟ یعنی وہ کتنے دنو ں میں چلنے پھر نے کے قا بل ہو گا ؟ یا د رہے کہ ہا تھو ں پیرو ں میں کیلو ں کے آ ر پا ر گہرے زخم ہیں، پسلی میں نیزہ ہے ، با قی جسم پرکو ڑے ما رے گئے ہیں ۔ آپ کتنا بھی کم سے کم وقت بتا ئیں تو تین دن سے زا ئد ہی بتا ئیں گے اور وہ بھی با قا عدہ علا ج کے سا تھ ۔ اِسی صو ر تِ حال کو بیا ن کر دہ اعترا ض سے منسلک کیاجا ئے تو یہ اعترا ض اپنے عقیدے سمیت بے معنی ہو جا تا ہے ۔
قبر میں کون یسوع کا علاج کر تا رہا ؟ یسو ع اتنی جلدی صحت یاب ہو کر گلیل کیسے چلاگیا ؟ اگر شا گر د اُس کا جسم چرا کر لے گئے اور پھر کسی نا معلو م مقا م پر اس کا علا ج کر تے رہے تو کیا اتنی جلدی اتنے گہرے زخمو ں کا علاج ممکن تھا ؟ وہ کفن کو قبر میں کیو ں چھو ڑ گئے ؟ کیا اُن کے پاس پہرے دا رو ں کی مو جو دگی میں اتنا وقت تھا کہ کپڑے بدل کر یسو ع کو لے گئے ؟ اگر یہ سب شا گردو ں کا کیا دھرا تھا تو پھر مسیح کے زندہ ہو نے پر انہیں حیرت کس با ت کی تھی ؟ وہ جا نتے تھے کہ مسیح زندہ نہیں ہوا بلکہ انہو ں نے خو د اُس کا علا ج معالجہ کیا ہے ۔ اگر مسیح کی لا ش شا گردو ں نے چرا ئی تھی تو پھر انہیں اور اُس کی ماں کو تا ریخ کا اتنا بڑا ڈرامہ کر نے کی کیا ضرو ر ت تھی ؟ اور اگر بالفر ض لا ش چرا بھی لی تو کیا اُسے دو با رہ دفن کیا یا کہیں پھینک دیا گیا ؟ کیا کو ئی بتا سکتا ہے ؟یا پھر کوئی مسیح کی دوسری قبر کا ہی بتا دے؟
دو سری طر ف دیکھیں تو یسوع کو صلیبی مو ت کی سزا سنا ئی گئی ۔عا م عدالتو ں میں جب کسی کوسزا ئے مو ت سنا ئی جائے تو جج یہ جملہ بے مقصد نہیں لکھتے:
TO BE HANGED TILL DEATH
یسوع کو بھی یہی سزا سنا ئی گئی ۔ مو جو دہ دو ر میں سزا ئے مو ت پا نے والے کی لاش مکمل تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کر دی جا تی ہے ۔ بالکل یہی سلسلہ یسو ع کے ساتھ پیش آ یا اور اُس کی لا ش با قا عدہ تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کی گئی جس کا ذکر با ئبل مقدس میں موجودہے ۔ کیا وہ سب دھو کا کھا گئے ؟کیا بے ہو ش یسو ع کو مر دہ قرا ر دیا گیا ؟ ہر گز نہیں ! سا را زما نہ دھو کہ کھا جا ئے مگر کیا ایک ما ں اپنے بیٹے کو زندہ در گو ر کر سکتی ہے؟ میرا یہ سوال ان تما م معترض حضرا ت سے ہے کہ کیا ان کا ضمیر اجا زت دے گا کہ وہ اپنی اولاد تو درکنار کسی غیر کو بھی زندہ در گو ر کر سکیں ؟
تیسرے اعتراض کے مطابق یسوع کو بدھ والے دن مصلوب کیا گیانہ کہ جمعے والے دن۔ ان کے مطابق گڈ فرائیڈے ایک فضول اور من گھڑت تہوار ہے ۔ صرف یوناہ نبی کی تین دن اور تین رات والی بات کو پکڑ کر یہ لوگ پوری تاریخ ہی مسخ کر رہے ہیں۔ فرض کریں یسوع بدھ ہی کو مصلوب ہوا اب ذرا ان باتوں کے جواب بھی دیں تاکہ میں قائل ہو سکوں:
بدھ شام ۶ بجے کے بعد جمعرات شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔ پہلا دن
جمعرات شام ۶ بجے کے بعد جمعہ شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔دوسرا دن
جمعہ شام ۶ بجے کے بعدسبت شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔تیسرا دن
سبت شام ۶ بجے کے بعداتوار شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی صبح ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔چوتھا دن
اس حساب کے مطابق یسوع چوتھے دن کی صبح زندہ ہو رہا ہے جبکہ کلام مقدس اسکے تیسرے دن زندہ ہونے کا ذکر کرتا ہے۔یوں اس حسابی فارمولے کے تحت تیسرا دن ہفتے کا دن بنتا ہے جبکہ ہفتے کے دن آرام کا ذکر ہے۔لوقا ۲۴ : ۱،۲دیکھیں: ’’ سبت کے دن تو انہوں نے حکم کے مطابق آ رام کیا۔ْ لیکن ہفتے کے پہلے دن وہ صبح سویرے ہی ان خوشبودار چیزوں کو جو تیار کی تھیں لیکر قبر پر آئیں۔ْ ‘‘ نیز لوقا۲۴: ۲۱،۲۲ دیکھیں: ’’ لیکن ہم کو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دیگا اور علاوہ ان سب باتوں کے اس ماجرے کو آج تیسرا دن ہو گیا۔ْ اور ہم میں سے چند عورتوں نے بھی ہم کو حیران کر دیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تھیں۔ْ ‘‘ اگر یسوع بدھ واے دن مصلوب ہوا تو ہفتے کا پہلا دن تیسرا کیسے بنتا ہے؟
نئے عہد نامہ میں تیرہ مرتبہ یسوع کے تیسرے دن زندہ ہونے کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ شاگردوں کے مطابق یہ تیسرا دن تھا (لوقا۲۴:۲۱)، فرشتوں نے بھی تیسرے دن کا ہی کہا ( لوقا۲۴:۷)، پطرس بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے (اعمال ۱۰:۴۰)، پولوس بھی یہی کہتا ہے (کرنتھیوں ۱۵:۴)، یسوع کے دشمنوں نے بھی تیسرے دن تک پہرے کی درخواست کی (متی ۲۷:۶۴،۶۳) اور سب سے بڑھ کر یسوع نے خود یہی کہا (یوحنا ۲: ۲۲۔۱۹)۔
اگر یسوع بدھ والے دن مصلوب ہوا اور جمعرات فسح کے برہ کی تیاری کا دن تھا تو عورتوں نے جمعے والے دن خوشبودار چیزیں لاش کو کیوں نہ لگائیں؟ آخر وہ چوتھے دن تک کیوں انتظار کرتی رہیں؟ دراصل یہ تیاری کا دن تھا اور انہیں سبت کی تیاری بھی کرنا تھی کیونکہ جمعے کی شام چھے بجے سے سبت شروع ہو جانا تھا جس کا ذکر بھی موجود ہے: ’’ اور
دیکھو یوسف نام ایک شخص مشیر تھا جو نیک اور راستباز آدمی تھا ۔ْ اور انکی صلاح اور کام سے رضامند نہ تھا ۔ یہ یہودیوں کے شہر ارمتیہ کا باشندہ اور خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا۔ْ اس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی ۔ْ اور اس کو اتار کر مہین چادر میں لپیٹا ۔ پھر ایک قبر کے اندر رکھ دیا جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی اور اس میں کوئی کبھی رکھا نہ گیا تھا ۔ْ وہ تیاری کا دن تھا اور سبت کا دن شروع ہونے کو تھا۔ْ اور ان عورتوں نے جو اسکے ساتھ گلیل سے آئی تھیں پیچھے پیچھے جا کر اس قبر کو دیکھا اور یہ بھی کہ اس کی لاش کس طرح رکھی گئی۔ْ اور لوٹ کر خوشبودار چیزیں اور عطر تیار کیا۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۳:۵۶۔۵۰) ۔ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا کیا یہ بات بدھ کی شام کے متعلق کہی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں یہ جمعے کی شام کے متعلق ہی ہے کیونکہ شام چھے بجے سبت شروع ہونے کو تھا اسلئے یسوع کو سبت شروع ہونے سے پہلے دفنایا گیااور سبت جمعے کی شام سے ہی شروع ہوتا ہے بدھ کی شام سے نہیں۔ عورتوں نے لوٹ کر خوشبودار چیزیں تیار کیں یعنی جمعے والے دن ہی تیار کر لیں اور صرف ایک دن یعنی سبت کے دن حکم کے مطابق آرام کیا نہ کہ جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ آرام کر کے اتوار کو قبر پر گئیں یہ تو ویسے بھی خلافِ عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ لعزر کے واقعہ سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اتنے دنوں بعد لاش سے بدبو آتی ہے۔
جو لوگ تیاری کے دن کو بدھ سمجھ کر فسح کی تیاری سے منسلک کر رہے ہیں وہ شدید غلطی پر ہیں کیونکہ فسح کے برہ کی قربانی جمعرات کو بنتی ہے اور یسوع مصلوب ہونے سے پہلے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری فسح کھا چکا تھا۔ یہی وہ فسح تھی جسکی تیاری کا ذکر ہمیں یوں ملتا ہے : ’’اور عید فطیر کا دن آیاجس میں فسح ذبح کرنا فرض تھا۔ْ اور یسوع نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جا کر ہمارے کھانے کے لئے فسح تیار کرو۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۲: ۸،۷)۔ یہی وہ موقع تھا جب یسوع نے شاگردوں کے پاؤں دھوئے اور اسی رات یسوع پکڑوایا گیا۔ یہ منگل ہرگز نہ تھا۔ خدارا ! اتنی بڑی تاریخی غلطی نہ کریں یہ تیاری کا دن سبت کی تیاری کا دن ہے جیسا کہ اوپر واضح طور پہ بیان کیا گیا ہے کہ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا ۔
یونانی لفظ Paraskeue کا ترجمہ تیاری کا دن کیا گیا ہے۔ Paraskeueسے مراد ہفتے کا چھٹا دن یعنی سبت سے پہلا دن ہے ۔ آج بھی یونانی یہودی جمعے کے دن کو Paraskeue کہتے ہیں۔ پس تیاری کا دن بدھ کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر فرض کر لیں کہ یہ بدھ ہی تھا تو پھر سبت کس حساب سے شروع ہوتا ہے؟ بدھ کے بعد جمعرات اور جمعہ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں کہ دو دن پہلے ہی سبت کی تیاری کر کے بیٹھ جائیں؟ کیا ہم اتوار سے ایک دن پہلے ہفتے والے دن ہی عبادت کی تیاری نہیں کرتے؟ یا پھر دو دن پہلے جمعرات کو تیار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں؟ آپ بھی سوچئے۔
یو ناہ نبی کے نشا ن کے با رے میں یسوع مسیح خو د بیا ن کر تا ہے:’’اِس زمانہ کے بُرے اور زنا کا ر لو گ نشا ن طلب کر تے ہیں مگر یو نا ہ نبی کے نشان کے سوا کو ئی اور نشا ن اُن کو نہ دیا جا ئے گا ۔ْکیو نکہ جیسے یو نا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہاویسے ہی ابن آ دم تین را ت دن زمین کے اندر رہے گا۔ْ‘ ‘ (متی ۱۲:۳۹،۴۰)۔ بمطابق انگریزی ترجمہ:
An evil and adulterous generation craves for a sign; and yet no sign shall be given to it but the sign of Jonah the prophet; for just as Jonah was three days and three nights in the belley of the sea monster, so shall the Son of man be three
days and three nights in the heart of the earth. (Matthew 12 :39,40)
اُردو تر جمہ کے مطا بق یو نا ہ مجموعی طور پرتین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا جبکہ انگریزی ترجمہ کے مطا بق یو نا ہ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ۔ مزید وضا حت کے لئے ہم یو نا ہ کی کتاب کے اصل متن میں دیکھتے ہیں :’ ’لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یو نا ہ کو نگل جا ئے اور یونا ہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ْ ‘ ‘ (یو نا ہ ۱: ۱۷) اب اس کا انگریزی ترجمہ بھی ملاحظہ ہو:
And the Lord appointed a great fish to swallow Jonah, and Jonah was in the stomach of the fish for three days and three
nights . (Jonah 1:17)
یہا ں بھی دو نو ں تراجم ایک دو سرے سے اسی لحا ظ سے فر ق نظر آ تے ہیں لیکن اگر اُردو تر جمے کو درست تصور کیا جا ئے تو پھر اِس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ انگریزی تر جمہ غلط ہے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ اُردو تر جمہ اصل عبرا نی متن سے قریب تر ہے ۔ یسوع مسیح واقعتا تین رات دن زمین کے اندررہا ۔تین رات دن سے مرا د : (i) جمعہ کی را ت (ii) ہفتے کا دن (iii) ہفتے کی را ت یعنی یہ کل ملا کر تین رات دن بنتے ہیں ۔ دراصل معترض کو اعترا ض ترجمے کی صحت پر ہونا چا ہئے نہ کہ اِس بات پر کہ یو نا ہ کا نشان پو را نہیں ہوتا۔جنا ب ! یو نا ہ کا نشا ن تو بڑے ہی خو د کا ر طریقے سے پو را ہورہا ہے پتہ نہیں آ پ کو سمجھ کیو ں نہیں آ رہا ؟ جمعے کی را ت ، ہفتے کا دن اور پھر ہفتے کی را ت مل کر تین رات دن ہی بنتے ہیں نہ کہ تین دن اور تین را تیں ہیں ۔
یو نا ہ کے نشان کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یو نا ہ مچھلی کے پیٹ کے اندر زندہ تھا جبکہ مسیحی کہتے ہیں کہ یسو ع مسیح مرنے کے بعد قبر میں رکھا گیا ۔ اگر یو نا ہ کے نشان پر غو ر کریں تو یہ بات تین رات دن کے حوالہ سے ہے نہ کہ زندہ یا مُردہ حالت کے لئے ۔ با رہویں باب میں ہم یہ ثا بت کر چکے ہیں کہ یسوع مسیح صلیب پر موا اور پھر دفن کیا گیا۔ آ خر قبر کے اندر کی حالت کیا تھی ؟ یسوع مسیح قبر کے اندر کیا کر تا رہا ؟ پطرس رسول ہما ری یہ مشکل آ سا ن کر دیتا ہے : ’ ’وہ جسم کے اعتبا ر سے تو ما را گیا لیکن رُو ح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا ۔ْ اُسی میں اُس نے جا کر اُن قیدی رُو حوں میں منا دی کی ۔ْ جو اُس اگلے زمانہ میں نا فر ما ن تھیں جب خدا نو ح کے وقت میں تحمل کر کے ٹھہرا رہا تھاا ور وہ کشتی تیار ہو رہی تھی جس پر سوار ہو کر
تھو ڑے سے آ دمی یعنی آ ٹھ جا نیں پا نی کے وسیلہ سے بچیں ۔ْ اور اُس پا نی کا مشا بہ بھی یعنی بپتسمہ یسوع مسیح کے جی اٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں بچا تا ہے اُس سے جسم کی نجا ست کا دُور کر نا مراد نہیں بلکہ خا لص نیت سے خدا کا طالب ہو نا مرا د ہے۔ْ‘ ‘ (۱۔ پطرس۳:۱۸۔۲۱)
مندرجہ بالا اقتباس سے ایک بات کھل کر سامنے آ تی ہے کہ یسوع مسیح کا جسم تو قبر میں تھا مگر اُس کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں منا دی کر رہی تھی ۔اِس خیال کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور حوالہ پیش کر نا چا ہوں گا: ’ ’جب وہ عالمِ بالا پر چڑھا تو قیدیو ں کو سا تھ لے گیا اورآ دمیوں کو انعا م دئیے ۔ْ ( اُس کے چڑھنے سے اور کیا پا یا جا تا ہے سوا اس کے کہ وہ زمین کے نیچے کے علا قہ میں اُترا بھی تھا؟۔ْ اور یہ اُترنے والا وہی ہے جو سب آسما نو ں سے بھی اوپر چڑھ گیا تا کہ سب چیزو ں کو معمو ر کر ے)۔ْ ‘ ‘ (افسیو ں ۴:۸۔۱۰)
پس یہ بات بڑے وثو ق سے کہی جا سکتی ہے کہ یسوع مسیح کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں جو عالمِ اروا ح میں تھیں منا دی کر نے گئی جبکہ اس کا جسم قبر میں رہا ۔ اگر ہم کہیں کہ یسوع مسیح جسم سمیت قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے گیا تو دُرست نہیں ہوگا کیو نکہ اُسے عالمِ اروا ح میں بحیثیت رُو ح ہی جا تا تھا ۔ رُو ح منا دی کر نے کے بعد جسم میں واپس آ ئی اور پھر یسو ع مسیح زندہ ہوا اِسی لئے یسوع نے مر یم سے کہا کہ مجھے نہ چھوُ ، میں ابھی تک باپ کے پاس نہیں گیا یعنی یسو ع مسیح رُو حا نی حالت میں منا دی کر نے عالمِ اروا ح میں گیا نہ کہ سیدھا باپ کے پاس جسما نی حالت میں ۔قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے کا مقصد یہ تھا کہ جو لو گ یسوع مسیح کے دو رِ خو شخبری سے پیشتر مر چکے ہیں انہیں عالمِ اروا ح میں خو شخبری سنا ئی جائے تا کہ وہ بھی اِس خو شخبری پر ایمان لا کر نجا ت حاصل کر یں یعنی یسو ع مسیح اپنے نجات کے پیغام کو تما م جہا نو ں اور تما م ادوار کے لئے یکسا ں یا Universalizeکر رہا ہے ۔ یسو ع مسیح صرف مو جو د ہ جہا ن کے لئے ہی نہیں بلکہ ما ضی اورمستقبل کو بھی نجا ت کی خو شخبری دے رہا ہے:
(i) زمین کے نیچے پا تال میں قیدی رُو حیں جو بر گشتگی میں تھیں زمانہ ما ضی
(ii) زمین کے اوپر اُس وقت کے لو گ جو یسوع پر ایمان لا ئے زمانہ حال
(iii) زمین کے اوپر آ ئندہ جہان والے یسو ع کے تا بع ہو ں زما نہ مستقبل
یسو ع مسیح نے اپنی نجات کے پیغام کو ابتدا سے انتہا تک مکمل کیا ۔یو حنا ۱۷:۲۰،۲۱ میں یسوع نجات کے پیغام کو عالمگیر کر رہا ہے : ’ ’میں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کر تا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایما ن لا ئیں گے تاکہ وہ سب ایک ہو ں۔ْ‘ ‘
یسوع مسیح کی صلیبی مو ت کو ہم با ئبل مقدس سے ثا بت کر چکے ہیں لیکن یسوع مسیح کی مو ت پر ایک اعترا ض یہ بھی ہے کہ اگر مرنے والا یسوع مسیح ہی تھا تو پھر اُس کی لا ش تیسرے دن تک صیح حالت میں کیسے رہی ؟اِس میں گلنے سڑنے کا عمل کیو ں شروع نہ ہو ا ؟ یسوع مسیح کی مو ت کو اِس پہلو سے دیکھنے کے لئے ہمیں اپنے مطالعہ کو وسیع کرنا ہو گا ۔ موضوع پربحث شروع کر نے سے پہلے ہمیں یہ با ت ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسو ع مسیح نہ تو کو ئی بو ڑھا آ دمی تھا اور نہ ہی بیما ری کی وجہ سے اُس کا جسم کمزو ر تھا۔ اُسے تندرست حالت میں گرفتار کیا گیا اورانسا نی جسم اتنا حساس نہیں کہ مرنے کے فو راً بعد گلنا سڑنا شروع ہوجا ئے ۔ انسا نی لاش گلنے سڑنے کے دو ران مختلف مرا حل سے گزرتی ہے لیکن اعترا ض کی نو عیت اور مدت کو مد نظر رکھتے ہو ئے میں یہا ں صرف پہلے مر حلے کو ہی بیان کرو ں گا ۔
Decomposition یا گلنے سڑنے کا ابتدا ئی یا پہلا مر حلہ تدفین کے چند روز بعدباضابطہ طور پر شروع ہو تا ہے ۔ ابتدا ئی مر حلے میں انسا نی جسم کا درجہ حرا رت کم سے کم در جہ تک چلا جا تا ہے اور اس کے سا تھ سا تھ جسم میں مو جود با فتیں نا کا رہ ہو کر کیمیا ئی عمل کا حصہ بننا شروع ہو جا تی ہیں، جسم با لکل سخت حالت میں اکڑ جا تا ہے اور کیڑو ں کا حملہ شروع ہو جا تا ہے۔ یہ کیڑے اسی حملے کے دو ران نئے انڈے دیتے ہیں ۔ پہلے مر حلے میں حملہ کر نے والے کیڑو ں کا تعلق Diptera یا Calliphoridae گروہ سے ہوتا ہے ۔ اِس مر حلے میں بیکٹیر یا کا بڑا اہم کر دا ر ہے جو انسا نی جسم میں مو جود کا ربو ہا ئیڈ ریٹس اور پرو ٹین وغیرہ کو تحلیل کر تا ہے ۔ گلنے سڑنے کے عمل میں خو ن ایک محرک کا کر دا ر ادا کر تا ہے۔ اگر دیکھا جا ئے تو یسو ع مسیح کا خو ن صلیب پر ہی بہہ چکا تھا یعنی یسوع کی لاش کا تیزی سے گلنا سڑنا مشکل تھا ۔ یسوع کی لاش دو را تیں اور ایک دن قبر کے اندر رہی ،گلنے سڑنے کا عمل چند روز بعد شروع ہوتا ہے کیا مسیح کے لئے یہ ایک دن بعد ہی شرو ع ہو جا ناتھا ؟ اگر مرنے والے کا جسم بیما ری کی وجہ سے خرا ب نہ ہوا ہو تو ایک دو دن تک لا ش کو سر د خانے کی بجا ئے گھرو ں میں ہی رکھ لیتے ہیں تاکہ دو ردرازسے آنے والے عزیز و اقا ر ب بھی مر نے والے کا آ خری دیدار کر سکیں ۔ نیز ہمیں یہ با ت بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسوع مسیح کی مصلو بیت کے وقت سر دی کا موسم تھا اور یہ سردی اس قدر تھی کہ لوگ آ گ تا پتے تھے: ’ ’نوکر اور پیادے جا ڑے کے سبب سے کو ئلے دہکا کر کھڑے تاپ ر ہے تھے اور پطرس بھی اُن کے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا۔ْ ‘ ‘ ( یو حنا ۱۸:۱۸) اب مو سم کیو نکہ سردی کا تھا اِس لئے لا ش کے جلد سڑنے کے امکا نا ت اور بھی کم تھے ۔جب اتنے سا رے ثبو ت آ پ کے خلا ف ہیں تو پھر آ پ کیو ں اپنے با طل مو قف پر بضد ہیں ؟آپ کیوں اِس نبوت کو باطل ثا بت کر نے کی ناکا م کو شش کر رہے ہیں: ’ ’کیونکہ تو نہ میری جا ن کو پا تال میں رہنے دیگا اور نہ اپنے مقدس کو سڑنے دیگا۔ْ ‘ ‘(زبور ۱۶:۱۰)۔

Sabbath: سبت

مسیحی کس دن عبادت کریں؟ اس سوال کا ایک فوری جواب تو یہ ہے کہ دعا کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے لیکن کلیسیائی دستور کے تحت ایک خاص دن کا مقرر کیا جانا ضروری تھا جس میں ساری کلیسیا مل کر خداوند کے حضور آ سکے۔ مسیحیوں کی اکثریت اتوار والے دن گرجا گھر جاتی ہے لیکن کچھ بدعتی عناصر اتوا ر یعنی Sundayکو عبادت کا دن نہیں ما نتے بلکہ اتوا ر کی جگہ سنیچر یعنی سبت کے دن عبادت کر تے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ اتوار والے دن عبادت کرنے والے حیوان کی چھاپ لیتے ہیں۔بے شک سبت ہی کو پا ک ٹھہرا کر عبا دت کا دن مخصوص کیا گیا لیکن ہمیں اسے مسیحی تنا ظر میں دیکھنا ہو گا نہ یہو دی پس منظر میں ۔ میں سبت کی اہمیت سے منکر نہیں لیکن کیا عہد نامہ جدید بھی ہمیں سبت کے رو ز عبا دت کر نے کو کہتا ہے ؟
اپنے موقف کی وضا حت کے لئے چند حوالا جا ت پیش کر نا چا ہو نگا ۔جب یسوع اور اُس کے شا گرد سبت کے دن کھیتو ں میں سے گزرتے ہو ئے بالیں تو ڑ کر کھانے لگے تو سبت کی بے حرمتی کا اعتر اض آ یا جس کے جوا ب میں یسو ع میں نے بڑا مضبو ط جواب دیا: ’ ’ کیو نکہ ابن آ دم سبت کا مالک ہے۔ْ ‘‘(متی ۱۲:۱۔۸) ۔ انجیل مقدس میں ہمیں بہت سے شواہد ملتے ہیں جہاں یسوع نے سبت کے دن معجزا ت کئے یہا ں اُن کا تفصیلاً ذکر کر نا مو ضو ع سے ہٹنے کے مترا دف ہو گا ۔ خدا وند یسوع مسیح لوقا ۱۸:۱۸۔۳۰میں حکمو ں کا ذکر کرتا ہے :’ ’ توُ حکمو ں کو تو جا نتا ہے ، زنا نہ کر ، خو ن نہ کر ، چو ری نہ کر ، جھو ٹی گوا ہی نہ دے ، اپنے باپ کی اور ما ں کی عزت کر۔ْ ‘‘یہاں سبت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔مزید دیکھئے مرقس ۲:۲۷،۲۸ : ’ ’اور اُس نے اُن سے کہا کہ سبت آ دمی کے لئے بناہے نہ کہ آدمی سبت کے لئے۔ْ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔ْ ‘‘ سبت کے حوالے سے ایلن جی وائیٹ کی رویا دیکھیں:
Jesus raised the cover of the Ark, and she (Ellen G. White) beheld the tablets of stone on which the Ten Commandments were written. She was amazed as she saw the Fourth Commandment in the very center of the Ten precepts, with a soft halo of light encircling it.
خودساختہ نبوت کی انتہا دیکھیں کہ اسے دس احکام والی لوحیں پکڑائی گئی ہیں جن میں سے اسے چوتھا حکم یعنی سبت کو پاک ماننا سب کے مرکز میں روشن ہوتا دکھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یسوع شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ مکمل کرنے آیااس لئے یسوع کی پیروی اسی صورت ممکن ہے جب ہم شریعت پر عمل کریں۔ چلیں ان کی یہ بات مان لیتے ہیں لیکن یہ خود شریعت پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ بروں اور بیلوں کی قربانیاں کیوں نہیں دیتے؟ ختنے کی تعلیم رد کیوں کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ دیگر بہت سی شرعی رسومات کو ترک کیوں کرتے ہیں؟ صرف دہ یکی اور سبت پر ہی زور کیوں؟ سبت کے متعلق یہ ہے کہ یہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک ہوتا تھا۔ اگر ان ۲۴ گھنٹوں میں کوئی وزن اٹھایا جاتا یا آگ جلائی جاتی یا کچھ پکایا جاتا تو سبت کا تقدس مجروع ہوتا جس کی سزا موت تک تھی۔ اب سبت کے پجاری یہ بتائیں کہ کیا یہ ایسے ہی سبت مناتے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ روٹیاں بھی کھاتے ہیں ، کھانے پکاتے ہیں اور دیگر دنیاوی کام بھی کرتے ہیں۔ پس یہ ایک دکھاوا ہے جو ایک بدعت ہی کا کام ہے۔
یہ کہتے ہیں کہ ابتدائی کلیسیا سبت والے دن ہی عبادت کرتی تھی جسے بعد میں پوپ کے حکم سے تبدیل کر کے اتوار کر دیا گی۔ یہ سب ۳۶۴م میں لدیکیہ کی کونسل میں ہوا۔ ابتدا ئی کلیسیاکس دن عبادت کر تی تھی اس کا ذکر بھی بائبل مقدس میں ملتاہے ۔ اعمال ۲۰:۷ دیکھیں: ’ ’ ہفتے کے پہلے دن جب ہم رو ٹی تو ڑنے کے لئے جمع ہو ئے۔ْ ‘‘ ۱۔کرنتھیو ں ۱۲:۲ دیکھیں: ’’ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آ مدنی کے موافق کچھ رکھ چھوڑا کر ے۔ْ‘‘ اب ہفتے کا پہلا دن تو اتوا ر ہی بنتا ہے ۔ ذرا کلسیو ں ۲:۱۶،۱۷ بھی ملا حظہ کریں :’ ’پس کھا نے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی با بت کو ئی تم پر الزا م نہ لگا ئے۔ْ کیو نکہ یہ آ نے والی چیزو ں کاسا یہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں ۔ْ‘‘ جب بائبل مقدس سبت کے بارے الزام نہ لگانے کا حکم دے رہی تو پھر یہ کون ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اتوار والے دن عبادت کرنا حیوان کی چھاپ لینا ہے؟ کیا انہوں نے بائبل نہیں پڑھی؟ جی ہاں پڑھی ہے لیکن اس کے اثر کو قبول نہیں کیا۔
مقدسین کے کچھ خطوط بھی دیکھیں جن میں ہفتے کے پہلے دن ہی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حوالے Dr. D. Anderson Berry کی کتاب Seventh Day Adventism سے لئے گئے ہیں:
Therefore, also we keep the eighth day with joyfulness, the day also on which Jesus rose again from the dead. (Epistle of Barnabas 100 AD).
Be not deceived with strange doctrines, nor with old fables, which are unprofitable. For if we still live according to the Jewish Law, we acknowledge that we have not received Grace . . . If, therefore, those who were brought up in the ancient order of things have come to possession of a new hope, no longer observing the Sabbath, but living in the observance of Lord\'s Day, on which also our life has sprung up again by Him and by His death. (Epistle of Ignatius 107 AD).
And on the day called Sunday all who live in cities or in the country gather together in one place, and the memories of the apostles or the writings of the prophets are read . . . Sunday is the day on which we all hold a common assembly, because it is the first day of thee week on which God made the world; and Jesus Christ our Savior on the same day rose from the dead. (The Writings of Justin Martyr 145 AD).
ان سارے حوالوں میں کسی پوپ یا روم یا لدیکیہ کی کونسل کا ذکر نہیں کا ذکر نہیں ۔ بائبل بھی ہفتے کے پہلے دن عبادت کی تصدیق کرتی ہے اور ابتدائی کلیسیا ئی رہنماؤں کی تحریریں بھی۔ کیا یہ سب حیوان کی چھاپ لے رہے تھے؟ ابتدائی رسولوں نے بھی حیوان کی چھاپ لی؟
اب ایک بات تو صاف ظا ہر ہے کہ عہد نامہ جدید اور ابتدائی رسولوں کے مطابق ہفتے کا پہلا دن ہی عبا دت کا دن ہے مگر معترض حضرا ت اس ضمن میں کچھ تا ریخی حقا ئق پیش کر تے ہیں ۔ ان کے مطابق اتوا ر یعنی Sun Dayسورج دیوتا کا دن ہے جسے Sundayکہا جا تا ہے ،مزید یہ کہ جو لو گ اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں وہ درحقیقت سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔اگر پر کھنے کا یہی معیار ٹھہرا تو کیا 25دسمبر کو پا کستا نی غیر مسیحی بھی کرسمس منا رہے ہو تے ہیں ؟ ہر گز نہیں وہ 25دسمبر کو قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کا یو م ولا دت منا رہے ہو تے ہیں ۔ اگر چہ یہ دو نو ں خو شیا ں ایک ہی دن منا ئی جا تی ہیں لیکن ان دو نو ں کی جدا گا نہ حیثیت ہے۔ بالکل اسی طر ح اتوار کو مسیحی عبادت کر تے ہیں جبکہ دیوتا کو ماننے والے اپنے سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔
ہفتے کے پہلے دن کی اہمیت کے با رے میں چند حقا ئق قا بل غو ر ہیں :
i) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا نے اِس کر ہ ارض پر تخلیق کا کام شروع کیا ۔ خدا نے رو شنی کو تا ریکی سے جدا کیا بالکل اُسی طرح ہفتے کے پہلے دن حقیقی مسیحی جو نور کے فرزند ہیں تا ریکی سے جدا ہو نے کا عملی ثبو ت پیش کر تے اور گو اہی دیتے ہیں کہ تا ریکی سے جدا ہو کر نو ر میں آ گئے ہیں۔ یسوع مسیح نے فر ما یا کہ تم دنیا کو نو ر ہو، پس نو ر کا تا ریکی سے جدا ہو نا ضرو ری ہے کیو نکہ شریعت کا دو ر تا ریکی کا دور ہے جبکہ فضل روشنی کا دور ہے ۔ یہی وہ بنیاد ی فر ق ہے جو ہفتے کے پہلے اور آ خری دن میں ہے ۔
ii) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا وند یسوع مسیح نے مو ت اور قبر پر فتح پا ئی وہ اتوا ر کو زندہ ہو ا۔ا گر ہم ہفتے والے دن عبادت کر تے ہیں تو ایک لحا ظ سے قبر میں پڑے ہو ئے یسوع کی عبادت کر تے ہیں اور اگر اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں تو جی اٹھے یسوع کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہفتے کے پہلے دن یسوع مسیح نے مو ت کی تا ریکی کو زندگی کی رو شنی میں بدل دیا ۔ اتوا ر مسیحی ایما ندا رو ں کے لئے خو شی کا دن ہے اس لئے عبا دت بھی اسی رو ز وا جب ہے ۔ یا د رکھئے! ہم زندہ کو ماننے والے ہیں مُردہ کو نہیں ۔
iii) ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوا ر ابتدا کی طر ف اشا رہ کرتا ہے، مسیح کے سا تھ ابدی جلال میں دا خل ہو نے کی طر ف اشا رہ کر تا ہے ۔ عیدِ پنتکست کا دن مسیحی تا ریخ کے اہم ترین دنو ں میں سے ایک ہے اور یہ دن ہفتے کا پہلا دن ہی تھا یعنی مسیحی کلیسیا کو با ضا بطہ طو ر پر رُو ح القدس کا بپتسما بھی اتوا ر ہی کو ملا اوریو ں حقیقی مسیحی ایماندار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریکی سے جدا ہو گئے ۔
اب ذرا غو ر کر کے خو د ہی فیصلہ کیجئے کہ جب اتنی سا ری بر کات خو شیا ں اور معجزا ت ایک ہی دن یعنی اتوار کو نصیب ہو ں تو کیا وا جب نہیں کہ اسی دن اکٹھا ہو کر ان سا ری بر کتو ں اور نعمتو ں کے لئے خدا کی شکر گزا ری کی جا ئے ؟

تثلیث : Trinity

انسا نی تا ریخ کی ابتدا ء ہی سے خدا اور انسان ہر دور میں مو ضو عِ بحث رہے ہیں ۔ انسان کی ہر ممکن کو شش ہے کہ وہ خدا کے متعلق پو رے طو ر سے جا نے ۔ انسان اُس راز کو پا نا چا ہتا ہے جو خداکی حا کمیت کے پیچھے کا ر فر ما ہے ۔ وہ طر ح طرح سے خدا کی تخلیقا ت کا متبا دل ڈھو نڈنے کی سعی کر تا ہے اور پھر ایک ایسا مو قع آ تا ہے کہ وہ خدا کے وجود سے منکر ہو جا تا ہے ۔خدا کون ہے اور کیسا ہے؟ ہر مذہب میں خدا کے متعلق مختلف نظر یا ت ہیں سا حرؔ لدھیا نوی ا س امر کی عکا سی یو ں کر تا ہے :
ہر ایک دو ر کا مذ ہب نیا خدا لا یا
کریں تو ہم مگر کس خدا کی با ت کریں ؟
غیر اقوا م میں خدا کے متعلق تصورات یکسا ں نہیں رہے۔دا نی ایل نبی کے دو ر میں نبو کد نصر با دشا ہ نے سو نے کی مو رت بنوا ئی اور مقررہ وقت پر اُے سجدہ کر نے کا حکم بھی دیا، سجد ہ نہ کر نے کی صو ر ت میں انسا ن کو آ گ کی جلتی بھٹی میں ڈالنے کی سزاتجویز کی گئی لیکن خدا کے لو گو ں سدرک ، میسک اور عبد نجو نے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کیا۔ بے شک اُن پر سزا کا اطلا ق ہوا لیکن خدا نے اپنا ہا تھ بڑھا کر اُنہیں بچا یا اوربا دشا ہ چلا اٹھا کہ سدرک اور میسک اور عبد نجوکا خدا مبا رک ہوکیونکہ کوئی دوسرا معبو د نہیں جو اس طر ح رہا ئی دے سکے (دا نی ایل ۳ باب )۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ (بحوالہ جلالی کلیسیا از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
بیان کردہ حوالا سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔
مسیحیت میں خدا کا تصور دیگر اقوام سے قطعی مختلف تو نہیں لیکن منفر د ضرو ر ہے ۔ خدا کو ہر بات اور ہر کا م میں اولین ترجیح حا صل ہے اور اس کی با دشا ہت
جسما نی نہیں بلکہ رُو حا نی ہے ۔ Blaise Pascal اس تصور کو یو ں بیان کر تا ہے :
The Christians\' God does not consist merely of a God who is the author of mathematical truths, but the God of Abraham, the God of Isaac and the God of Jacob. The God of Christians is a God of love and consolation; He is a God who makes them inwardly aware of their wretchedness and His infinite Mercy; who united Himslef with them in the depths of their soul; who fills it with humility, joy, confidence and love, who makes them incapable of having any other end but Him.
یسوع مسیح کے دور میں خدا کا نام لینا ممنوع سمجھا جاتا تھا اور خدا کو احتراماً بنی اسرائیل کا قدوس کہا جاتا تھا۔ اگر ہم خدا اور بنی اسرائیل کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا اپنے روح کے ذریعے ان سے کلام کرتا تھا یعنی دونوں کے درمیان روح القدس ایک رابطہ تھا۔ جب ہم یسوع کی تعلیمات کی طرف آئیں تو وہ خدا کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اسے باپ کہہ کر پکارتا اور دوسروں کو بھی کہتا ہے کہ اسے باپ کہہ کر پکاریں ۔ یہ خدا سے اس کے قریبی تعلق کا اظہار بھی ہے۔ پس خدا، یسوع مسیح اور روح القدس بائبل مقدس کا بنیادی جز ہیں۔ انہی تینوں کی اشتراکیت کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔
عقیدہ تثلیث فی التوحید مسیحی علم الہیات کے مشکل ترین عقائد میں سے ایک ہے۔ اس عقیدے کے مطابق خدا کی ذات تین اشخاص یعنی باپ اور بیٹے اور روح القدس کا مجموعہ ہے لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ ان تینوں اشخاص کا جوہر ایک ہے۔ آج بہت سے مسیحی تثلیث فی التو حیدسے منکرہیں ۔اِس عقیدے کے مطابق مسیحی تین خدا ؤ ں کو مانتے ہیں یعنی باپ کو،بیٹے کو اور رُوح القدس کو۔ یہ اس با ت پر بضد ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور اس کا نا م یہووا ہؔ ہے ۔بعض عقلمندوں کے مطابق باپ اور بیٹا اور روح القدس یسوع کے ہی تین روپ ہیں جن کا نام یسوع ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جسے یہ لو گ سمجھنے یادُو ر کر نے کی کو شش نہیں کر تے بلکہ تنقید برا ئے تنقید کو شعا ر بنا ئے ہو ئے ہیں۔یہ تثلیث کو ان ا لفاظ میں رد کرتے ہیں:
Never was there a more deceptive doctrine advanced than that of the trinity. It could have originated only in one mind, and that the mind of Satan the Devil. (Reconciliation 1928, p 101).
Therefore, those who accept the Bible as God\'s Word do not worship a Trinity consisting of three persons or gods in one. In fact, the word Trinity does not even appear in the Bible. (Knowledge that Leads to Everlasting Life 1995. p 31).
Trinity is inadequate and a departure from the consistent and empathic Biblical revelation of God being one. (www.upci.org/about).
بائبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں خدا کے ایک ہو نے کے متعلق بیان کر تی ہے : ’ ’خداوند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘ (استشنا ۶:۴) مزید دیکھئے :’ ’یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرا ئیل سن! خدا وند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘(مر قس ۱۲:۲۹) در حقیقت مسیحی ذا تِ خدا میں تین اقا نیم یعنی با پ ، بیٹا اور رو ح القدس کے قا ئل ہیں ۔ اب اعترا ض ہے ان تینوں کے میل کا کہ یہ تینو ں ایک دو سرے سے اس قدر گہر ا با ہمی ربط کیو ں رکھتے ہیں؟ یہ تینو ں شخصیا ت قدیم ہیں حا دث نہیں اور یہی وہ قدیم اور گہرا تعلق ہے جسے تثلیث کا نام دیا گیا ہے ۔اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا تین ہیں لیکن کیا کیا جا ئے ، اعترا ض کر نے کا کو ئی نہ کو ئی بہا نہ تو ہر کو ئی ڈھو نڈتا ہے ۔ اگر چہ بائبل مقدس میں تثلیث کا لفظ نہیں ملتا لیکن با رہا ایسے شواہد ضرو ر ملتے ہیں جو تثلیث کو ثا بت کر تے ہیں، انہی شواہد کو اکھٹا کر کے ایک نام دے دیا گیا ہے ۔ جیسے بچے کی پیدائش کے بعد اُس کا نام تجویز کیاجاتاہے مگر پیدائش سے قبل بچے کا وجود ہوتا ضرور ہے بالکل اُسی طرح باپ ، بیٹے اور روح القدس کے وجود کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اِن کا مشترکہ وجودکبھی تھاہی نہیں۔ بائبل کی بات کریں تو بائبل میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کا نام یسوع ہے نہ ہی یہ لکھا گیا ہے کہ یہ تنیوں ایک ہی شخص کے مختلف روپ ہیں۔
باپ، بیٹا اور روح القدس تنیوں جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ نہ تو باپ بیٹا ہے نہ بیٹا باپ، نہ باپ روح القدس ہے نہ بیٹا روح القدس ہے۔ یہ تینوں جدا بھی ہیں اور ایک بھی ہیں کیونکہ ان کا جوہر ایک ہے۔
3
(یوحنا ۸: ۱۶: ’’اور اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا۔ْ ‘‘ یوحنا ۱۴: ۲۶: ’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گااور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلا ئے گا۔ْ‘‘ اعمال ۱۰: ۳۸: ’’ کہ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا ۔وہ بھلائی کرتا اور ان سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا۔ْ‘‘)
تثلیث مسیحی ایما ن کی بنیا د ہے ۔ مسیح پر ایمان اُسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب اُس کے سا تھ خدا اور رُو ح القدس کو بھی تسلیم کیا جا ئے ۔ مسیحی ایمان میں شامل ہو نے کا بپتسمہ در اصل ہے ہی تثلیث کا بپتسمہ ۔ یسو ع مسیح خو د تثلیث کے نام پر قو مو ں کو مسیحی ایما ن میں شامل کر نے کا حکم دیتا ہے :’’ پس تم جا کر سب قو مو ں کو شا گر د بنا ؤ اور ان کو با پ اور بیٹے اور رُو ح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْ‘‘(متی ۲۸:۱۹) یعنی یہ تینو ں اقا نیم مسیحی ایمان کا بنیا دی جز ہیں۔ اس آ یت سے ایک اور بڑا اعترا ض ختم ہو جا تا ہے کہ یسوع مسیح صر ف بنی اسرا ئیل کے لئے آ یا یہا ں سب قو مو ں کو شا گرد بنا نے کا حکم دیا گیا صرف بنی اسرا ئیل کو نہیں ۔
بائبل مقدس میں بے شمار جگہوں پر تثلیث کا ذکر موجود ہے لیکن لفظ تثلیث کا نہ لکھا جانا ہی اعتراض کو بنیاد بخشتا ہے۔میں یہاں ان حوالوں میں سے چند ایک پیش کرنا چاہو ں گا:با ئبل مقدس کے مطابق دنیا کی ابتدا ہی تثلیث سے ہو ئی :’ خدا (باپ) نے ابتدا میں زمین و آ سمان کو پیدا کیا۔ اور زمین ویرا ن اور سنسان تھی اور گہرا ؤ کے اوپر اندھیرا تھا اورخدا کی رُو ح (رُو ح القدس ) پا نی کی سطح پر جنبش کر تی تھی ۔اور خدا نے کہا(خدا کاکلمہ مسیح) ، رو شنی ہو جا اور رو شنی ہو گئی۔‘ (بمطا بق پیدا ئش ۱:۱۔۳) بائبل مقدس کی پہلی تین آ یا ت ہی تثلیث کے تینو ں اقا نیم کو ثا بت کرتی ہیں ۔یہا ں خدا با پ پہلے خود ہے پھر رُو ح القدس سا تھ ہے اور پھر اپنے کلمے یعنی یسوع مسیح کے سا تھ ہے ۔ کتنی خو بصو رت ابتدا ہے بائبل مقدس کی اور اس جہا ن کی۔ کیاآ ج سے پہلے آپ نے ان آ یا ت پر اس طرح غو رکیا تھا ؟
عہد نا مہ عتیق و جدید دو نو ں میں با رہا ان تینو ں شخصیات کا ذکر آ تا ہے ۔ با ئبل مقدس سے ایک بڑی دلچسپ آ یت پیش کر نا چا ہو ں گا : ’ ’ اور خداوند نے کہا کہ دیکھو انسا ن نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی ما نند ہو گیا۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۳:۲۲)۔جب انسا ن کی تخلیق کا ذکر ہوا تب بھی جمع صیغہ استعمال ہوا :’ ’پھر خدا نے کہا کہ ہم انسا ن کو اپنی صو رت پر اپنی شبیہ کی ما نند بنا ئیں۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۱:۲۶)۔ یہا ں جمع صیغہ سے مرا د خدا خود، یسو ع مسیح اور رُو ح القدس ہے جبکہ یہ کہتے ہیں یہاں خدا فرشتوں سے مخاطب ہے ، بھلا خدا کا فرشتوں سے صلاح لینا بنتا ہے؟ مقدس جسٹن شہیدسن 74 م میں برنباس کو لکھے گئے خط میں اس غلط فہمی کو دور کرتا ہے:
And further, my brethren, if the Lord Jesus endured to suffer for our soul, He being the Lord of all the world, to whom God said that at the foundation of the world, let us make man after Our image, and after Our likeness,

understand how it was that He endured to suffer at the hand of men. (Justin\'s Letter to Barnabas Ch. 5, 74 AD).
ترجمہ: بھائیو! اگر خداوند یسوع نے ہماری روح کے لئے دکھ سہا تو وہ جانتا تھا کہ اسے کیوں اورکیسے آدمیوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھانا ہے کیونکہ وہ جہان کا مالک تھا اور اسی کو خدا نے جہان کے بنیاد رکھتے وقت کہا کہ آؤ ہم انسان کو اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔
’’ اور تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی ملکر سچی ہوتی ہے ۔ْ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔ْ‘‘ (یوحنا ۸: ۱۷،۱۸)۔ اگر باپ اور بیٹا ایک ہی شخص ہیں تو پھر یہ دو گواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
’’ اس وقت میں نے خداوند کی آواز سنی جس نے فرمایا میں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائیگا؟۔ْ‘‘ ( یسعیاہ ۶: ۸)۔ یہاں پہلے واحد اور بعد میں جمع کا صیغہ ذاتِ خدا میں موجود کثرت کا اظہار ہے۔ پرانے عہد نامہ میں تقریباً ستائیس سو سے زائد مقامات پر خدا کے لئے الوہیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع صیغہ ہے۔ الوہیم الوہ کی جمع ہے جو خدا کی ذات میں کثرت کا اظہار ہے۔ پیدائش ۳:۲۲ کے مطابق خدا نے کہا کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ ہم میں سے ایک سے کیا مراد ہے؟
’’ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قُدوس قُدوس قُدوس رب الافواج ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۶: ۳)۔ یہاں تین مرتبہ قُدوس باپ اور بیٹے اور روح القدس کو جلال دینے کے لئے کہا گیا۔
’’ اور یسوع بپتسما لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیااور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ْ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔ْ‘‘ (متی ۳: ۱۶،۱۷)۔ یہاں باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں کی جداگانہ حیثیت کا ثبوت موجودہے۔یہ کسی صورت بھی ایک وقت میں ایک ہی شخص کے تین روپ نہیں ہو سکتے۔
’’ اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگااور خدا تعالےٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ْ ‘‘ ( لوقا ۱:۳۵) ۔ خدا ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی اکٹھے ہیں۔
’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گاوہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔ْ ‘‘ ( یوحنا ۱۴: ۲۶)۔ باپ ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی موجود ہیں۔
’’ مگر اس نے روح القدس سے معمور ہو کر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھ کر ۔ْ کہا کہ دیکھو! میں آسمان کو کھلا اور ابنِ آدم کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں۔ْ ‘‘ ( اعمال ۷: ۵۵، ۵۶)۔ ستفنس نے یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا یعنی دو شخصیات کا ذکر ملتا ہے صرف یسوع کا ہی نہیں اور یسوع خود ہی اپنے دہنے ہاتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔
’’ خداوند یسوع مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح القدس کی شراکت تم سب کے ساتھ ہوتی رہے۔ْ‘‘ ( ۲ کرنتھیوں ۱۳:۱۴)۔ اگر یہ ایک ہی شخص یعنی یسوع کے نام ہوتے تو ان کو ہر جگہ یسوع کیوں نہ لکھا گیا بلکہ تینوں کو الگ الگ ناموں سے پکارا گیا۔
پس بائبل مقدس میں بہت سے مقامات پر ان تینوں شخصیات کے باہمی ربط اور ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے ، اسی ربط و ہم آہنگی کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔یاد رکھیں نہ باپ بیٹا ہو سکتا ہے نہ بیٹا باپ یہ ایک بدعت سے جسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔نئے عہد نامہ میں ایک بار بھی یسوع کو باپ کہہ کر نہیں پکارا گیابلکہ ہر جگہ بیٹا ہی کہا گیا ہے۔ صرف خدا باپ کو ہی باپ کہا گیا ہے کہیں بیٹا نہیں کہا گیا نہ ہی روح القدس کو ان ناموں سے پکارا گیا ہے۔ تقریباً ۵۰ سے زائد آیات میں باپ اور بیٹے کا مشترکہ ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ اگر باپ ہی بیٹا ہے یا بیٹا باپ ہے پھر یہ سب آیات کس لئے ہیں؟ خدا کیوں ہمیں چکر دے رہا ہے؟
آئیے تثلیث کے تینوں اقانیم کی اشتراکیت کو بائبل مقدس سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تثلیث کو تاریخی لحاظ سے بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اعتراض کے مطابق یہ خیال شیطان کے ذہن کی پیداوار ہے جبکہ رسول تثلیث کے قائل تھے جس کا انہوں نے مبہم الفاظ میں ذکر بھی کیا اور کچھ نے واضع طور پر تثلیث کا ذکر کیا۔ تثلیث کو بدعت قرار دے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 325 م میں نقایا کی کونسل میں ہوا، اس کا وجود پہلے نہ تھا اور نہ ہی کوئی اسے جانتا تھا۔ میں یہاں اس دعویٰ کو باآسانی غلط ثابت کر رہا ہوں کہ تثلیث کا آغاز نقایا کی کونسل سے ہوا کیونکہ میں یہاں سن 30 م سے 325 م تک مختلف مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں ، میں نے ان میں سے چند ایک کا با محاورہ اردو ترجمہ بھی کیاہے۔
مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عہد نامہ عتیق کی آخری کتاب ملاکی 425 ق م میں تحریر کی گئی یعنی یسوع مسیح کی زمینی آمد سے صدیاں قبل پرانے عہد نامے کی کتب مکمل ہو چکی تھیں۔ نئے عہد نامے کی کتب تقریباً 96 سن مسیح میں مکمل ہوئیں جن میں سے آخری کتاب مکاشفہ ہے۔ سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ یسوع مسیح کو تقریباً 33 م میں مصلوب کیا گیا یعنی یہ حوالے انتہائی مستند ہیں۔
یہاں دوسوالوں کو ذہن میں رکھئے گاپہلا یہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس ایک ہی اہمیت کے حامل ہیں یا نہیں اور دوسرایہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس کسی ایک ہی شخصیت کے تین روپ یا نام ہیں یا نہیں:
There are neither three Fathers, or three Sons, or three Paracletes, but one Father, and one Son, and one Paraclete. Wherefore also the Lord, when He sent forth the apostles to make disciples of all nations, commanded them to baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Ghost, not unto one person having three names, nor into three persons who became incarnate, but into three possessed of equal honor. For there is One that became incarnate and that neither the father nor the Paraclete, but the Son only, who became so not in appearance or imagination, but in reality. For the Word became flesh. (Epistle of Ignatius to Philippians, Chapter 2 and 3, 30-107 AD).
ترجمہ: نہ تو تین باپ ہیں، نہ تین بیٹے اور نہ تین مددگار(روح القدس) لیکن ایک باپ اور ایک بیٹا اور ایک روح القدس۔ اسی لئے خداوند یسوع مسیح نے بھی رسولوں کو بھیجا کہ ساری قوموں سے شاگرد بنائیں اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دیں۔ صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں ، نہ ہی تین شخصیات کے نام سے جو مجسم ہوئے لیکن تین ایک ہی رتبے کے افراد کے نام سے۔ ان میں سے ایک ہی مجسم ہوا نہ باپ مجسم ہوا نہ روح القدس لیکن صرف بیٹاجس کی تجسیم تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہے، کیونکہ کلام ہی مجسم ہوا۔
صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں یعنی صرف یسوع کے نام کا بپتسما درست نہیں بلکہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے۔نہ ہی ان تینوں کا ایک نام ہے۔ ابتدائی رسولوں نے بپتسمے کا طریقہ بھی بتایا ہے:
As regards baptism, baptize in this manner, having first given all the preceding instructions baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Spirit and immerse three times in running water. (Didache: The Teachings of the Twelve Apostles, 60 AD).
ترجمہ: بپتسمے کے متعلق یہ ہے کہ اس طرح سے پبتسمہ دیا جائے۔ پہلے تمام ضروری ہدایات دی جائیں اور پھربپتسما دیا جائے باپ کے نام سے اور بیٹے کے نام سے اور روح القدس کے نام سے اور تین مرتبہ بہتے پانی میں ڈبکی دی جائے۔ Didache کلیسیائی رسومات و عبادات کے طریقہ کار کی سب سے پرانی اور مستند کتاب ہے ۔یہاں بھی ان تینوں کا ذکر ہے نہ کہ صرف یسوع کے نام سے بپتسمہ دینے کو کہا گیا ہے۔
In like manner also the three days which were before the luminaries are types of the Trinity of God, and His Word, and His Wisdom. (Theophilus to Autolycus II, 168 AD).
مقدس تھیفلس 168م میں تثلیث کا ذکر ان الفاظ میں کر رہا ہے:سورج اور چاند کی تخلیق سے پہلے جو تین دن تھے وہ تثلیث کی ہی حالتیں ہیں یعنی خدا کی، اس کے کلمے کی اور اس کی حکمت کی۔ یہاں لفظ تثلیث نقایا کی کونسل سے ۵۷ا سال قبل استعمال ہوا ہے۔
Church holds the Father to be God, and the Son God, and the Holy Spirit, and declare their union and their distinction in order. (Athenagoras A Plea for Christians 10:3, 160 AD).
مقدس اتھناگورس 160م میں لکھتا ہے کہ: کلیسیا باپ کو خدا مانتی، بیٹے اور روح القدس کی خدا مانتی اور ان کے اکٹھ اور ترتیب وار درجے پر ایمان رکھتی ہے۔ مقدس کلیمنٹ 190 م میں اسے بالکل واضح کرتا ہے:
I understand nothing else than the Holy Trinity to be meant; for the third is the Holy Spirit, and the Son is the second, by whom all things were made according to the will of the Father. (Clement in Stromata Book V Ch. 14, 190 AD).
ترجمہ: میں تثلیٹ کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کو نہیں مانتااور اس ترتیب میں روح القدس تیسرے درجے پر ہے، بیٹا دوسرے درجے پر جس کے وسیلہ سے تمام چیزیں باپ کی مرضی سے وجود میں آئیں۔
مقدس طرطالین (160-225 م) تثلیث کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
We define that they are two, the Father and the Son, and three with the Holy Spirit, and this number is made by the pattern of salvation which brings about unity in trinity, interrelating the three, the Father, the Son and the Holy Spirit. They are of one substance and power, because there is one God from whom these degrees, forms and kinds devolve in the name of Father, Son and Holy Spirit. (Against Praxeas p 156)
ترجمہ: ہم بیان کرتے ہیں کہ وہ دو ہیں یعنی باپ اور بیٹا ،اوریہ روح القدس کے ساتھ مل کر تین ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد نجات کے منصوبہ کے عین مطابق ہیں۔ یہ تثلیت میں توحید کو
پیش کرتی ہے، تینوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے، یعنی باپ ، بیٹے اور روح القدس کو۔ یہ جوہر اور طاقت میں ایک ہیں کیونکہ خدا ایک ہے جس میں سے یہ تینوں حالتیں، شکلیں اور اقسام باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے ظاہر ہوتی ہیں۔ طرطالین مزید لکھتا ہے:
The connection of the Father in the Son, the Son in the Paraclete, produces three coherent persons, who are yet distinct one from another. These three are one essence not one person, as it is said, \'I and my Father are one,\' in respect of unity of substance, not singularity of number. Yet we have never given vent to the phrases two Gods or two Lords; not that it is untrue the Father is God, the Son is God, the Spirit is God. (Ante-Nicene Fathers vol. 3 p 621)
ترجمہ: باپ کا بیٹے سے تعلق اور بیٹے کا روح القدس سے تعلق تین ہم آہنگ شخصیات کو ظاہر کرتا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ یہ تینوں جوہر ی لحاظ سے ایک ہیں شخصی لحاظ سے نہیں ۔ اسی لئے یہ کہا گیاکہ میں اور باپ ایک ہیں، یہاں جوہر کے ایک ہونے کی بات ہے تعداد کے ایک ہونے کی نہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی خدا کے دو ہونے یا خداوند کے دو ہونے کی بات کی ہے اور نہ ہی یہ جھوٹ ہے کہ باپ خدا ہے، بیٹا خدا ہے، روح القدس خدا ہے،( جوہری اعتبار سے یہ تینوں خدا ہیں)۔
مقدس گریگری 262 م میں تثلیث کویوں بیان کرتا ہے:
But some treat the Holy Trinity in an awful manner, when they confidently assert that there are not three persons. But we believe that three persons namely, Father, Son and Holy Spirit are declared to possess the one Godhead. If they say how can there be three Persons, and how but one Divinity? We shall make this reply: that there are indeed three persons, inasmuch as there is one person of God the Father, and one of the Lord the Son, and one of the Holy Spirit and yet there is one divinity, inasmuch as there is one substance in the Trinity. (A Sectional Confession of Faith, p 14, 262 AD).
ترجمہ: ۔۔۔ لیکن کچھ لوگ مقدس تثلیث کو بری طرح بیان کرتے ہیں جب وہ پر اعتماد طریقے سے کہتے ہیں کہ تثلیث تین شخصیات نہیں لیکن ہم یہ مانتے اور ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تین شخصیات ہی ہیں جن کے نام باپ ، بیٹا اور روح القدس ہیں یہی تین خدا کے مکمل وجود کا اظہار ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ کہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی واحد ذات میں تین اشخاص موجود ہوں تو ہمارا جواب یہی ہو گا ہے بے شک یہ تین ہی ہیں یعنی ایک شخص خدا باپ کی صورت میں، ایک خداوند یسوع مسیح کی صورت میں اور ایک روح القدس کی صورت میں لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ تثلیث کا ایک ہی جوہر ہے۔
مقدس اتھناسیس (296-373 م) تثلیث کو یوں بیان کرتا ہے: تثلیث اعداد و شمار کا نام نہیں بلکہ یہ سچائی اور اصل وجود کا اظہار ہے۔ جس طرح باپ جو ہے سو ہے اسی طرح اس کا کلمہ بھی ایک ہے اور روح القدس بھی حقیقی وجود رکھتا ہے۔ پس کلیسیائی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تین الگ الگ شخصیات ہیں اور ان کا جوہر ایک ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں بھی ایک ہیں، تعداد میں نہیں بلکہ جوہری لحاظ سے۔
آئیے آخر میں اس عقیدے کو چند دُنیا وی عقلی دلا ئل سے بھی سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں ۔ایٹم کی مثال پر غو ر کریں ۔ایٹم الیکٹران پرو ٹان اور نیو ٹران پر مشتمل ہو تا ہے ، یہ تینوں اجزاء جدا گا نہ حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ؛ نہ تو الیکٹران ایٹم ہے، نہ نیو ٹرا ن ایٹم ہے اور نہ پرو ٹان ایٹم ہے بلکہ یہ باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ۔ یہ تینو ں اجزا ء تقسیم نہیں ہو تے بالکل اسی طر ح با پ اور بیٹا اور رُوح القدس بھی تقسیم نہیں ہوتے۔ جب کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے عنصر یعنی ایٹم کی واحدت میں کثرت موجود ہے تو پھر خدا کی ذات میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ سو رج کی مثال پرغورکریں ،سو ر ج دیکھنے کو ایک ہی ہے لیکن آ گ ، رو شنی اور حرا رت اس کے بنیا دی اجزا ء ہیں ۔ انڈے کی مثال دیکھیں انڈہ کہنے کو تو ایک ہے لیکن خو ل زردی اور سفیدی پر مشتمل ہو تا ہے ۔ پانی کو دیکھیں جو ٹھوس مائع اور گیس کی تین حالتیں اختیار کرتا ہے۔ الغر ض ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو تثلیث فی التو حید کو دنیا وی زندگی سے ثا بت کر تی ہیں ۔ عقیدہ تثلیث تین خدا ؤ ں کی تعلیم ہر گز نہیں بلکہ خدا صرف ایک ہی ہے جو سب کا خا لق و مالک ہے ۔ عقیدہ تثلیث فی التو حید سے مراد خدا 1=3 + 1 1+ نہیں بلکہ اس سے مرا د خدا 1x1x1=1ہے فرق بس غو ر سے سمجھنے کا ہے ۔فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے بائبلی، تاریخی و عقلی دلائل آپ کے سامنے ہیں۔ دعا ہے خدا آپ کو اپنے گہرے بھید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین