عبادت سے مراد بندگی ، پرستش یا پوجا ہے ۔کرہ ارض پر چرند پرند، حیوان ، بت ، اجرام فلک وغیرہ کی عبادت کی جاتی ہے ، ہمارا موضوع کیونکہ خدا سے متعلقہ ہے اس لئے ہم اسے خدا کی عبادت کے طور پر ہی دیکھیں گے۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں عہد عتیق و جدید میں عبادت کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ عہد عتیق میں بنی اسرائیل کے لئے طرح طرح کی پیچیدہ عبادتی رسومات کا ذکر ملتا ہے جنہیں یہاں بیان کرنا موضوع سے ہٹنے کے مترادف ہو گا۔ ہمارا موضوع کیونکہ مسیحی فلسفہ نجات سے متعلقہ ہے اس لئے ہم مسیحی طرزِ عبادت کو ہی مرحلہ وار دیکھیں گے ۔عبادت عمومی طور پر تین صورتوں میں کی جا سکتی ہے: شخصی عبادت،خاندانی عبادت اور باجماعت یا اجتماعی عبادت۔ عبادت نجات کے عمل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ وہ عمل ہے جو ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر ذاتی مفادات کی خاطر عبادت کرتے ہیں۔ کلام مقدس میں خدا کی عبادت کے متعلق بہت سے بیانات ملتے ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
بلکہ جب تو دعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کر اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔ْ (متی ۶: ۶) ۔ اور آپس میں مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گایا کرواور دل سے خداوند کے لئے گاتے بجاتے رہا کرو۔ْ (افسیوں ۵:۱۹)۔ پس ہم وہ بادشاہی پا کر جو ہلنے کی نہیں اس فضل کو ہاتھ سے نہ دیں جس کے سبب سے پسندیدہ طور پر خدا کی عبادت خدا ترسی اور خوف کے ساتھ کریں۔ْ( عبرانیوں ۱۲: ۲۸)۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ْ (یوحنا ۴:۲۳) ۔ کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلے سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ْ (فلپیوں ۴:۶)۔ پس اے بھائیوں کیا کرنا چاہیے جب تم جمع ہوتے ہو تو ہر ایک کے دل میں مزمور یا تعلیم یا مکاشفہ یا بیگانہ زبان یا ترجمہ ہوتا ہے۔ْ (۱۔کرنتھیوں ۱۴: ۲۶)۔ مسیح کے کلام کو اپنے دلوں میں کثرت سے بسنے دو اور کمال دانائی سے آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ۔ْ (کلسیوں ۳: ۱۶)۔
پس مذکورہ بالا بیانات سے عبادت کا مقصد و مفہوم ہم پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کب، کہاں اور کیسے کی جائے؟ عبادتی طریقہ کار کے متعلق بائبل مقدس سے رہنمائی ضروری ہے کیونکہ اگر ہماری عبادت اس طریقہ کے مطابق نہیں تو یہ مکمل عبادت نہیں۔ عبادت درست طور پر نہ ہو نے سے جنت کی راہ مبہم ہو سکتی ہے۔
عبادت کب کرنی چاہیے؟ مسیحی عبادت دنوں ، مہینوں اور وقتوں کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ مسیحی کسی بھی وقت عبادت کر سکتے ہیں لیکن کلیسیائی دستور کے تحت عام عبادت کے لئے اتوار کا دن مخصوص کیا گیا ہے، اگرچہ کچھ اس دن پہ اعتراض کرتے ہیں اور ہفتے یا سبت کو عبادت کا دن گردانتے ہوئے اتوار کے دن عبادت کرنے والوں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس تصور کی درستگی ضروری ہے کہ عبادت کب کرنی چاہیے۔
بے شک سبت ہی کو پا ک ٹھہرا کر عبا دت کا دن مخصوص کیا گیا لیکن ہمیں اسے مسیحی تنا ظر میں دیکھنا ہو گا نہ یہو دی پس منظر میں ۔ میں سبت کی اہمیت سے منکر نہیں لیکن کیا عہد نامہ جدید بھی ہمیں سبت کے رو ز عبا دت کر نے کو کہتا ہے ؟ اپنے موقف کی وضا حت کے لئے چند حوالہ جا ت پیش کر نا چا ہو نگا ۔جب یسوع اور اُس کے شا گرد سبت کے دن کھیتو ں میں سے گزرتے ہو ئے بالیں تو ڑ کر کھانے لگے تو سبت کی بے حرمتی کا اعتر اض آ یا جس کے جوا ب میں یسو ع میں نے بڑا مضبو ط جواب دیا: ’ ’ کیو نکہ ابن آ دم سبت کا مالک ہے۔ْ ‘‘(متی ۱۲:۱۔۸) ۔ انجیل مقدس میں ہمیں بہت سے شواہد ملتے ہیں جہاں یسوع نے سبت کے دن معجزا ت کئے یہا ں اُن کا تفصیلاً ذکر کر نا مو ضو ع سے ہٹنے کے مترا دف ہو گا ۔
خدا وند یسوع مسیح لوقا ۱۸:۱۸۔۳۰میں حکمو ں کا ذکر کرتا ہے :’ ’ توُ حکمو ں کو تو جا نتا ہے ، زنا نہ کر ، خو ن نہ کر ، چو ری نہ کر ، جھو ٹی گوا ہی نہ دے ، اپنے باپ کی اور ما ں کی عزت کر۔ْ ‘‘ یہاں سبت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔مزید دیکھئے مرقس ۲:۲۷،۲۸ : ’ ’اور اُس نے اُن سے کہا کہ سبت آ دمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لئے۔ْ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔ْ ‘‘
ابتدا ئی کلیسیاکس دن عبادت کر تی تھی اس کا ذکر بھی بائبل مقدس میں ملتاہے ۔ اعمال ۲۰:۷ دیکھیں: ’ ’ ہفتے کے پہلے دن جب ہم رو ٹی تو ڑنے کے لئے جمع ہو ئے۔ْ ‘‘
۱۔کرنتھیو ں ۱۲:۲ دیکھیں: ’’ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آ مدنی کے موافق کچھ رکھ چھو ڑا کر ے۔ْ‘‘ اب ہفتے کا پہلا دن تو اتوا ر ہی بنتا ہے ۔ ذرا کلسیو ں ۲:۱۶،۱۷ بھی ملا حظہ کریں :’ ’پس کھا نے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی با بت کو ئی تم پر الزا م نہ لگا ئے۔ْ کیو نکہ یہ آ نے والی چیزو ں کاسا یہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں ۔ْ‘‘ اب ایک بات تو صاف ظا ہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے مطابق ہفتے کا پہلا دن ہی عبا دت کا دن ہے مگر معترض حضرا ت اس ضمن میں کچھ تا ریخی حقا ئق پیش کر تے ہیں ۔ ان کے مطابق اتوا ر یعنی Sun Dayسورج دیوتا کا دن ہے جسے Sundayکہا جا تا ہے ،مزید یہ کہ جو لو گ اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں وہ درحقیقت سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔اگر پر کھنے کا یہی معیار ٹھہرا تو کیا 25دسمبر کو پا کستا نی غیر مسیحی بھی کرسمس منا رہے ہو تے ہیں ؟ ہر گز نہیں وہ 25دسمبر کو قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کا یو م ولا دت منا رہے ہو تے ہیں ۔ اگر چہ یہ دو نو ں خو شیا ں ایک ہی دن منا ئی جا تی ہیں لیکن ان دو نو ں کی جدا گا نہ حیثیت ہے۔ بالکل اسی طر ح اتوار کو مسیحی عبادت کر تے ہیں جبکہ دیوتا کو ماننے والے اپنے سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔
ہفتے کے پہلے دن کی اہمیت کے با رے میں چند حقا ئق قا بل غو ر ہیں :
i) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا نے اِس کر ہ ارض پر تخلیق کا کام شروع کیا ۔ خدا نے رو شنی کو تا ریکی سے جدا کیا بالکل اُسی طرح ہفتے کے پہلے دن حقیقی مسیحی جو نور کے فرزند ہیں تا ریکی سے جدا ہو نے کا عملی ثبو ت پیش کر تے اور گو اہی دیتے ہیں کہ تا ریکی سے جدا ہو کر نو ر میں آ گئے ہیں۔ یسوع مسیح نے فر ما یا کہ تم دنیا کو نو ر ہو، پس نو ر کا تا ریکی سے جدا ہو نا ضرو ری ہے کیو نکہ شریعت کا دو ر تا ریکی کا دور ہے جبکہ فضل روشنی کا دور ہے ۔ یہی وہ بنیاد ی فر ق ہے جو ہفتیکے پہلے اور آ خری دن میں ہے ۔
ii) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا وند یسوع مسیح نے مو ت اور قبر پر فتح پا ئی وہ اتوا ر کو زندہ ہو ا۔ا گر ہم ہفتے والے دن عبادت کر تے ہیں تو ایک لحا ظ سے قبر میں پڑے ہو ئے یسوع کی عبادت کر تے ہیں اور اگر اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں تو جی اٹھے یسوع کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہفتے کے پہلے دن یسوع مسیح نے مو ت کی تا ریکی کو زندگی کی رو شنی میں بدل دیا ۔ اتوا ر مسیحی ایما ندا رو ں کے لئے خو شی کا دن ہے اس لئے عبا دت بھی اسی رو ز وا جب ہے ۔ یا د رکھئے! ہم زندہ کو ماننے والے ہیں مُردہ کو نہیں ۔
iii) ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوا ر ابتدا کی طر ف اشا رہ کرتا ہے، مسیح کے سا تھ ابدی جلال میں دا خل ہو نے کی طر ف اشا رہ کر تا ہے ۔ عیدِ پنتکست کا دن مسیحی تا ریخ کے اہم ترین دنو ں میں سے ایک ہے اور یہ دن ہفتے کا پہلا دن ہی تھا یعنی مسیحی کلیسیا کو با ضا بطہ طو ر پر رُو ح القدس کا بپتسمہ بھی اتوا ر ہی کو ملا اوریو ں حقیقی مسیحی ایماندار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریکی سے جدا ہو گئے ۔اب ذرا غو ر کر کے خو د ہی فیصلہ کیجئے کہ جب اتنی سا ری بر کات خو شیا ں اور معجزا ت ایک ہی دن یعنی اتوار کو نصیب ہو ں تو کیا وا جب نہیں کہ اسی دن اکٹھا ہو کر ان سا ری بر کتو ں اور نعمتو ں کے لئے خدا کی شکر گزا ری کی جا ئے ؟مندرجہ بالا بیانات ہفتہ وار عام عبادت کے لئے ہے لیکن اجتماعی عبادات کی اور بھی اقسام ہیں جیسے کنوینشن وغیرہ جو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہیں۔
عبادت کہاں کی جا سکتی ہے؟ شخصی و خاندانی عبادت کہیں بھی کی جا سکتی ہیں لیکن اجتماعی عبادت کے لئے مخصوص و تقدیس شدہ گرجا گھر ہی موزوں ترین مقام ہے۔ ہفتہ وار عام عبادات کے لئے گرجا گھر کی عمارت میں کافی گنجائش ہوتی ہے مگرکنوینشنز و دیگر اجتماعی عبادات کے لئے جگہ کی کمی کے باعث کسی گراؤنڈ یا چرچ سے ملحقہ احاطے کو زیر استعمال لایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کھلی جگہوں پہ عبادت ہونے والی عبادات میں سنجیدگی کا فقدان ہوتا ہے۔ نیز عبادت کے لئے مختص کی جانے والی جگہ کی صفائی کا مناسب انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ میں نے بہت سی جگہوں پہ پرندوں اور جانوروں کی گندگی کے اوپر دریاں یا کرسیاں لگی دیکھیں ہیں۔ یاد رکھئیے عبادت کے لئے روحانی و جسمانی پاکیزگی بہت ضروری ہے کیونکہ ہم دورانِ عبادت ایک پاک ذات سے ملنے کی سعی کرتے ہیں۔ طہارت و پاکیزگی پہ زیادہ بات نہیں کرو نگا کیونکہ یہ ایک وسیع مضمون ہے۔
عبادت کیسے کی جائے؟ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں۔ْ (یوحنا ۴:۲۴)۔ عبادت کے طریقے کا تعین کرنا ہی ہمارا مرکزی نقطہ ہے۔ بائبل مقدس سے اخذ شدہ معلومات کے مطابق مسیحی عبادت اقرارِ گناہ، اقرارِ ایمان، حمد و ثناء ، تلاوت و تفسیرِ کلامِ مقدس، دعا، سفارشی مناجات، پاک شراکت، ہدیہ اور کلماتِ برکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ عام عبادت کے اجزا ہیں لیکن عبادت کسی بھی موقع پر کی جا سکتی ہے جس کے اجزا عام عبادت کی طرح نہیں ہوتے جیسے بچے کی پیدائش، مخصوصیت، سالگرہ یا نکاح ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جا سکتی کیونکہ کسی اور کو عبادت کے لائق ٹھہرا کر ہم نجات سے دور ہو جاتے ہیں: اور موسیٰ خداوند کے پاس لوٹکر گیا اور کہنے لگا ہائے ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کا دیوتا بنایا۔ْ اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب سے جو تو نے لکھی ہے مٹا دے۔ْاور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ جس نے مرا گناہ کیا ہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤنگا۔ْ (خروج ۳۲:۳۲،۳۳)۔ ہم بھی آج اسی طرح کی بت پرستی کا شکار ہیں اور جگہ جگہ زیارتوں اور میلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ کار کلام مقدس کے مطابق کے بنانا ہو گا کیونکہ عبادت صرف اور صرف خدا کی ہے بتوں کی نہیں۔ اس موضوع کو تفصیلاً بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ بہت سے مسیحی اسی طریق کو مکمل عبادت تصور کرتے ہیں اس عمل کی نفی بہت ضروری ہے۔
مسیحی عبادات میں بت پرستی کا عنصر زمانہ قدیم ہی سے موجود ہے اور یہ زیادہ تر مسیحیوں میں قابلِ قبول بھی ہے کیونکہ مسیحیت کا لبادہ اوڑھے ہے۔ بائبل مقدّس واضح طور پر بیان کرتی ہے:’’میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا ۔ْ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ْ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرناکیونکہ مَیں خداوند تیرا غیور خدا وندہوں۔۔۔‘‘(خروج ۲۰:۳۔۵) لیکن بت پرست اپنے گناہ کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ ہم مسیح یا مسیحی قائدین کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو کسی صورت بھی غیر معبود نہیں ہوسکتے ، کیونکہ وہ خود مسیحی تھے۔ ایسے تمام اصحاب کے لئے بائبل مقدّس میں سے ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا:’’ اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام مَیں تم کو سکھاتا ہوں تم اُن پر عمل کرنے کے لئے اُن کو سن لو تاکہ تم زندہ رہو اور اُس ملک میں جسے خداوند تمہارے باپ دادا کا خدا تم کو دیتا ہے داخل ہوکر اس پر قبضہ کر لو ۔ْ جس بات کا مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کوجو مَیں تم کو بتاتا ہوں مان سکو۔ْ جو کچھ خداوند نے بعل فغور کے سبب سے کیا وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ اُن سب آدمیوں کو جنہوں نے بعل فغور کی پیروی کی خداوند تیرے خدا نے تیرے بیچ سے نابود کر دیا۔ْ پر تم جو خداوند اپنے خدا سے لپٹے رہے ہو سب کے سب آج تک زندہ ہو ۔ْ دیکھو! جیسا خداوند میرے خدا نے مجھے حکم دیا اس کے مطابق مَیں نے تم کو آئین اور احکام سکھا دئیے ہیں تاکہ اُس ملک میں اُن پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لئے جارہے ہو۔ْ سو تم اُن کو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہریں گے ۔۔۔سو تُو ضرور ہی اپنی احتیاط رکھنا اور بڑی حفاظت کرنا تانہ ہو کہ تو وہ باتیں جو تو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول جائے اور وہ زندگی بھر کے لئے تیرے دل سے جاتی رہیں بلکہ تو اُن کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔ْ خصوصاًاُس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خدا کے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھا کہ قوم کو میرے حضور جمع کر اور مَیں ان کو اپنی باتیں سناؤں گا تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ْ چنانچہ تم نزدیک جاکر اُس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑآگ سے دہک رہا تھا اوراس کی لَو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی ۔ْ اور خداوند نے اس آگ میں سے ہوکر تم سے کلام کیا ۔تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صورت نہ دیکھی ، فقط آواز ہی آواز سنی ۔ْ۔۔۔سو تم اپنی خوب ہی احتیاط رکھنا کیونکہ تم نے اُس دن جب خداوند نے آگ میں سے ہوکر حورب میں تم سے کلام کیا کسی طرح کی کوئی صورت نہیں دیکھی ۔ْتانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لئے بنالو جس کی شبہیہ کسی مرد یا عورت۔ْ یازمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے۔ْ یا زمین کے رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ۔ْ یا جب تو آسمان کی طرف نظر کرے اور تمام اجرام فلک یعنی سورج اور چانداور تاروں کو دیکھے تو گمراہ ہوکر ان ہی کو سجدہ اور ان کی عبادت کرنے لگے جن کو خداوند تیرے خدا نے رویِ زمین کی سب قوموں کے لئے رکھا ہے ۔ْ۔۔۔سو تم احتیاط رکھو تانہ ہو کہ تم خداوند اپنے خدا کے اُس عہد کو جو اُس نے تم سے باندھا ہے بھول جاؤ اور اپنے لئے کسی چیز کی شبہیہ کی کھودی ہوئی مورت بنالو جس سے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو منع کیا ہے ۔ْ۔۔۔یہ سب کچھ تجھ کو دکھایا گیا تاکہ تو جانے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ْ۔۔۔ ‘‘ (استثنا ۴:۱۔۴۰)
اس بیان کی روشنی میں ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے بت پرستی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کلامِ مقدّس اس حقیقت کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے: ’’۔۔۔ مَیں ہی نے خلق کیا اور مَیں ہی اٹھاتا رہوں گا مَیں ہی لئے چلوں گا اور رہائی دوں گا ۔ْ تم مجھے کس سے تشبہیہ دو گے اور مجھے کس کے برابر ٹھہراؤ گے اور مجھے کس کی مانند کہو گے تاکہ ہم مشابہ ہوں ؟۔ْجو ہتھیلی سے باافراط سونا نکالتے اور چاندی کو ترازو میں تولتے ہیں وہ سنار کو اُجرت پر لگاتے ہیں اور وہ اُس سے ایک بت بناتا ہے پھر وہ اُس کے سامنے جھکتے بلکہ سجدہ کرتے ہیں۔ْ وہ اُسے کندھے پر اُٹھاتے ہیں وہ اُسے لے جاکر اُس کی جگہ پر نصب کرتے ہیں اور وہ کھڑا رہتا ہے وہ اپنی جگہ سے سِرکتا نہیں بلکہ اگر کوئی اُسے پکارے تو وہ نہ جواب دے سکتا ہے اور نہ اسے مصیبت سے چھڑا سکتا ہے ۔ْ اے گنہگارو ! اس کو یاد رکھو اور مرد بنو اس پر پھر سوچو ۔ْ ‘‘ (یسعیاہ ۴۶:۴۔۸)۔ اگر دینے والا صرف خدا ہی ہے تو پھر کیا ہم خدا کو کسی بت سے تشبیہ دے کر راست ٹھہرا سکتے ہیں ؟ کیا کلامِ مقدّس ہم پر بت کی بے بسی واضح نہیں کرتا ؟ ہم کیوں ان باتوں کے متعلق نہیں سوچتے ؟
سجدہ صرف زندہ خدا ہی کو واجب ہے ۔ مکاشفہ ۲۲:۸،۹ ملاحظہ کیجئے: ’’۔۔۔اور جب مَیں نے سنا اور دیکھا تو جس فرشتہ نے مجھے یہ باتیں دکھائیں مَیں اس کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گرا ۔ْ اس نے مجھ سے کہا خبردار ! ایسا نہ کر مَیں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہم خدمت ہوں ۔ خدا ہی کو سجدہ کر ۔ْ‘‘ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ خُدا کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جائے ۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو غیر فانی خدا کے جلال کو فانی چیزوں سے بدل کر بے حرمت کرتے ہیں ۔ رومیوں ۱:۲۱۔۲۳ ہمارے اس طرزِ عمل کو یوں پیش کرتا ہے:’’اگرچہ انہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اس کی خدا ئی کے لائق اس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا ۔ْ وہ اپنے آپ کو دَانا جتا کر بیوقوف بن گئے ۔ْ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ْ‘‘ ان آیات سے ایک اور بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فانی انسان یا گزرے مقدسین کی پرستش بھی بت پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ یہ دونوں عقائد کلامِ مقدّس کے منافی ہیں کیونکہ پرستش صرف زندہ خدا ہی کی کرنی چاہیے۔(بحوالہ جلالی کلیسیا : از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
مندرجہ بالا حوالہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے جن سے آج تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستگی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔ پطرس رسول نے زندہ حالت میں کسی انسان کو سجدہ کرنے سے منع کیا تو کیا یہ واجب ہے کہ ہم دوہزار سال گزر جانے کے بعد اس کا یا اس کے کسی اور ہم خدمت کا بت بناکر اسے سجدہ کریں ؟ بقول مضطر ؔ کاشمیری:
جنا بِ شیخ نے دنیا کو کیا الو بنا یا ہے
بتو ں کو سامنے رکھ کے خداکا نام لیتے ہیں
پس عبادت کہیں بھی ہو،کیسے بھی ہو صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔ جو عبادت خدا کے لئے نہیں وہ کسی صورت بھی نجات کی طرف نہیں لے جاسکتی بلکہ انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔
اقرارِ گناہ مسیحی عبادت کا اہم ترین حصہ ہے کیونکہ گناہ ہی نجات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بحثیت مسیحی اقرارِ ایمان بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام مقدس کی تلاوت و تفسیر عبادت کا مرکزی حصہ ہوتا ہے جوہماری ایمانی و اخلاقی اقدار کو مضبوطی بخشتا ہے ۔ سفارشی مناجات یا دعائیں کلیسیا و بنی نوع انسان کے مسائل اور ملکی و قومی حالات کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔ ان دعاؤں میں عموماً بیماروں، ناداروں، بے روزگاروں، طلب علموں اور ملکی خوشحالی و سلامتی کو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ شکرگزاریاں، منتیں و ہدیہ جات ہمیں خدا کا احسان مند ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ افسوس! ہمارے ہاں اس احسان کو کم ہی مانا جاتا ہے۔ ہم دیناوی چیزوں پر منہ مانگی رقم خرچ کر دیتے ہیں لیکن ہمارا ہدیہ پانچ یا دس روپے سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہمارا چھوٹا بچہ ایک وقت میں سو یا پچاس روپے باآسانی خرچ کر دیتا ہے لیکن ہم کلیسیائی امور کو چلانے کے لئے بہت کم دیتے ہیں۔ میں کوئی پادری نہیں جو ہدیے کی بات کر رہا ہوں لیکن بطور کلیسیائی رکن ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ حکم صرف خوشحال اراکین کے لئے ہی نہیں، بیوہ کی دو دمڑیاں ہمارے لئے روشن مثال ہیں۔
پاک شراکت یا عشائے ربانی عبادت کا مقدس ترین حصہ ہے جس میں ہم یسوع مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں۔ روٹی مسیح کے بدن کو ظاہر کرتی ہے جبکہ انگور کا شیرہ یسوع کے خون کو۔ یہ ایک عظیم ضیافت ہے جس میں ایمانداروں کی شرکت لازمی ہے کیونکہ جو مسیح کا بدن کھاتا اور اس کا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسی میں ہے۔ ہمیں مناسب طور پر اس میں شریک ہونا ہے کیونکہ نامناسب شرکت عذابِ الہی کا سبب بن سکتی ہے۔ عشائے ربانی کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن بعض گرجاگھروں میں اس ساکرامنٹ کو درست یا مکمل طور پر ادا ہی نہیں کیا جاتا، صرف روٹی یعنی مسیح کا بدن ہی جماعت میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور انگور کے شیرے یعنی مسیح کے خون سے محروم رکھا جاتا ہے۔حاضر جماعت بھی مجرمانہ چپ سادھے رہتی ہے اور برسوں ادھورے ساکرامنٹ میں شرکت کرتی رہتی ہے۔ ایسا کرنے والے کوئی جواز بھی پیش کر یں، مسیح کا مقرر کردہ حکم و طریق ان کی ذاتی تفسیر سے معتبر ہے۔
حمد و ثناء کا حصہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ عبادت کے شروع سے آخر تک چلتا ہے۔ حمد و ثناء میں مسیحی گیتوں اور زبوروں کے ذریعے خدا کی شتائش کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ گیتوں کے معیار و الفاظ کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم انجانے میں بہت سی غلط تراکیب کو حمد و ثناء کا حصہ بنا لیتے ہیں اور پشت در پشت گاتے رہتے ہیں۔پس ہمیں حمد کے لئے الفاظ و لسانی تراکیب کا موزوں ترین انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ہم خدا کی بجائے شیطان کو خوش کرتے ہیں۔ موضوع کیونکہ اہم ہے اس لئے یہاں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ اقتباس اپنی زیر طبع کتا ب گرہن زدہ سے اختصار کے ساتھ پیش کر رہا ہوں جس میں مسیحی گیتوں کو بائبل مقدس اور لسانی تراکیب کے معیار پر پرکھا گیا ہے، اگرچہ پاکستانی معاشرے میں یہ ایک خطرناک عمل ہے لیکن غلط تصورات کو پھیلنے سے روکنا بھی بہت ضروری ہے:
گرہن نمبر۱۳
تیرے لہو سے پاپ دھوتا ہوں (گیت کا پہلا مصرعہ)
شاعر نامعلوم ،کتاب نغماتِ مسیحا ، مرتب مسز نسرین صادق ، چرچ آف پاکستان ، کراچی ڈایوسیس۔ گیت نمبر ۶
اس گیت میں شاعر یا انسان فاعل ہے یہی بات اب بائبل مقدس میں دیکھئے:
۔ ۔ ۔ یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔ْ ۱ یوحنا ۱:۷
یہاں فاعل یسوع کا خون ہے جبکہ انسان مفعول ہے۔ کیا شاعر نے سارا معاملہ الٹ نہیں کر دیا؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ شاعر مستقل طور پر فاعل ہے :
اپنی خودی سے ہاتھ دھوتا ہوں ۔ ۔ ۔ خود کو لہو میں ڈبوتا ہوں۔
انسان خود مسیح کے خون سے پاپ نہیں دھو سکتا بلکہ مسیح کا خون اسکے پاپ دھوتا ہے۔ امید ہے یہ فرق آپ سمجھ گئے ہونگے۔
گرہن نمبر۱۵
ہم تین بادشاہ مشرق کے ہیں
سجدہ کرنے ہم آئے ہیں
سفر دور کا پیچھا نور کا
کر کے ہم آئے ہیں۔
شاعر : جے ایچ ہاپکنز ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر ۱۵۱
یہ کرسمس کا ایک مشہور گیت ہے جسے ہم برسوں سے گا رہے ہیں۔ اس کو انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے لیکن انگریزی میں بھی لفظ King ہی استعمال ہو ا ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ بائبل مقدس کیا کہتی ہے: جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلیم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ۔ْ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ (متی ۲:۱،۲)۔
Now after Jesus was born in Bethlehem of Judea in the days of Herod the king, behold, magi from the east arrived in Jerusalem, saying, \"Where is He who has been born King of the Jews? (Matthew 2:1,2)
بائبل مقدس کے مطابق پورب یامشرق سے مجوسی یسوع کو دیکھنے آئے نہ کہ بادشاہ۔ بادشاہ کا مطلب ہم سب جانتے ہیں لیکن مجوسی کی تشریح ضروری ہے۔ مجوسی علمِ نجوم، فالگیری اور خوابوں کی تعبیر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس لئے انہیں دانش مند بھی کہا جاتا تھا۔
گرہن نمبر۱۷
مریم کی فوج بن کے ہم شیطان کو بھگائیں گے (پہلا مصرعہ)
شاعر :نامعلوم ،کتاب :ہوشعنا، ناشر: دخترانِ مقدس پولوس ،گیت نمبر۲۲۱
مریم کی فوج کا ذکر پوری بائبل میں کہیں موجود نہیں ، یسوع کی فوج کا ذکر ضرور ہے : اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے ۔ْ اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے پہنے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ْ (مکاشفہ ۱۹:۱۳،۱۴)۔
گرہن نمبر۲۱
کیا کروں تعریف تیری مجھ میں دانائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر کروں جی جان سے تجھ کو نہ میں یسوع پیار
نام رکھتا ہوں ولے میں دل سے عیسائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان دی تو نے ذبیح اللہ سب کے واسطے
ایسی خوبی اور میں ہم نے کبھی پائی نہیں
شاعر :واعظ ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر۲۰۳
یہاں دو اصطلاحات عیسائی اور ذبیح اللہ پرلسانی و بائبلی حوالے سے غور کیجئے۔ کلام مقدس یسوع کو مسیح کہتا ہے عیسیٰ نہیں ۔یسوعؔ عبر انی لفظ یشو ؔ ع کی یو نا نی شکل ہے جس کے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا کے ہیں ۔ مسیح عبرا نی اور عر بی د ونو ں زبا نو ں میں ایک معنی رکھتا ہے یعنی مسح کیا ہو ا شخص ۔ یو ں یسوع مسیح کے پو رے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا مسح کیا ہوا شخص ہیں۔عیسیٰ کا مطلب یہودیوں کا ایک نبی ہے ۔پس عیسیٰ کا لفظی مطلب یسوع مسیح کی شانِ اقدس کا ترجمان یا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ہم عیسائی نہیں مسیحی ہیں۔ شاگرد پہلی بار انطاکیہ میں مسیحی کہلائے (اعمال ۱۱:۲۶)۔ یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا بائبل مقدس اور مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال:
ابنِ مریم مر گیا یا زند ۂ جاوید ہے
ہیں صفات ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جِس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
دوسری اصطلاح ذبیح اللہ ہے جس کا مطلب اللہ کی راہ میں قربان ہونے والا ہے ۔یہ بھی اسلامی اصطلاح ہے جس کا مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ابرہام کے بیٹے اسماعیل کا لقب ہے اس لئے بھی یسوع کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس اصطلاح کی بنیاد یہ ہے کہ خدا نے ابرہام کو اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی دینے کا حکم دیا اس لئے اسماعیل ذبیح اللہ ہے، جبکہ بائبل مقدس اضحاق کی قربانی کا ذکر کرتی ہے (دیکھئیے پیدائش ۲۲ باب)۔ اب فیصلہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔مندجہ بالا گرہن مستند کتابوں سے ہیں لیکن موجودہ دور میں روح کے گیت تو ہر حد کو پھلانگ گئے ہیں یعنی نیم حکیم اور خطرہِ جان۔ یہ ایک کرب ناک صورتحال ہے جسے درست کرنا شاید اس سے بھی کرب ناک ہو۔ پس حمد و ثناء ایک حساس معاملہ ہے اور ہمیں گیتوں اور غزلوں میں موجود مواد کو علم الہی کی روشنی میں پرکھنا بھی چاہیے۔جب لائق طور پر پرستش ہی نہ ہو تو نجات کیسی؟
درست طور پر کی جانے والی عبادت ہی برکت کا وسیلہ بنتی ہے۔عبادت کا اختتام اسی لئے کلماتِ برکت سے کیا جاتا ہے ۔ ان کلمات میں خدا باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے لوگوں کو برکت دی جاتی ہے۔ کلماتِ برکت کے بعد ہی عبادت سے رخصت ہونا چاہیے کیونکہ یہی عبادت کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اکثر لوگ عبادت شروع ہونے کے بعد آتے ہیں اور ہدیہ دے کر چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اقرارِ گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی کلماتِ برکت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جاتے وقت لوگوں کی جوتیاں بھی چرا لے جاتے ہیں، یوں وہ عباد ت سے برکت نہیں لعنت حاصل کرتے ہیں۔گرجا گھر میں نوجوان لڑکے لڑکیاں کیا کرتے ہیں؟ کیا تانک جھانک کے لئے گلی محلے کافی نہیں ہوتے؟یہ ملاکی کی کتاب نئے عہد نامے میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟انہیں بائبل کا علم کیوں نہیں؟ دورانِ عبادت ہماری توجہ کس طرف ہوتی ہے ؟ ہم کیوں نامناب طور پر مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں؟ دورانِ عبادت ایس ایم ایس وفون کالز کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہوتا؟ افسوس اگر کسی کو منع کرو تو وہیں بے عزت ہونا عام سی بات ہے۔عزیزو! اگر نجات چاہیے تو یہ سب درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادت کے لئے ہمیں کولہو کا بیل نہیں بننابلکہ روح اور سچائی سے پرستش کرنے والے پرستاربننا ہے۔ گرجا گھروں میں رٹی رٹائی دعائیں دہراتے رہنے سے نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس سارے عمل میں عابد عموماً خدا سے دور ہی رہتا ہے پھر بھی وہ ہر اتوار گرجے جانا ضروری سمجھتا ہے۔ ہم جانوروں کی طرح اپنے آباو اجداد کا تسلسل ہیں ۔ ہم اسلئے مسیحی ہیں کہ ہمارے بڑے مسیحی تھے اور ہماری عبادت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذرا سوچئیے لاتعداد گرجا گھروں میں جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں اگر ان کا کچھ حصہ بھی قبول ہو جائے تو ہماری حالت بدل جائے۔ مقدس یعقوب ہماری دعا ؤں کو یوں پیش کرتا ہے: تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اسلئے کہ بری نیت سے مانگتے ہو۔۔۔ ۔ْ (یعقوب ۴:۳ )۔ نیز ہمیں ان دعاؤں کے جواب کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ خدا ہماری دعائیں سن کر قبول کرے گا تو ہماری دعاؤں کا انداز فرق ہو۔ گرجا گھروں میں خادم اپنے دشمنوں کے لئے برکت چاہ رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکی دعا میں اثر نہیں ۔ یہ ایک دکھاوا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی پارسائی ظاہر کر رہا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہی خادم کلیسیا کو لوٹنے، چرچ پراپرٹی بیچنے اور دیگر مقدمات میں ملوث ہوتا ہے۔ حیرت ہے وہ اپنے جسمانی و کلیسیائی مقدمات کے لئے بھی خدا سے دعا کرتا ہے جبکہ خدا کے خلاف ہی اس کا عمل ہوتا ہے۔ وہ گرجا گھر میں اپنے دشمنوں کے لئے دعا مانگتا ہے کہ اے خدا ان کی آنکھیں کھول دے جو تیرے ممسوح کے خلاف منصوبے بناتے ہیں، جبکہ اسے اپنے اعمال نظر نہیں آ رہے ہوتے کہ اس نے کلیسیا کے ساتھ کیا کیا۔ نتیجہ یہ کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری عبادت خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتی؟میرے کڑوے جوابات سے اکثر مسیحی ناراض ہو جاتے ہیں لیکن میرا جواب آج بھی یہی ہے کہ ہم خود دیانتدار نہیں نیز جن کے پیچھے عبادت کرتے ہیں وہ ہم سے بھی بڑے چور ہیں۔ ایسے ماحول میں خدا سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہی حالت ہماری شخصی و خاندانی عبادات کا ہے۔
روح القدس سچے پرستارکے ذریعے ہی کام و کلام کرتا ہے ، اسلئیے عبادت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عبادت ایک ضابطہ حیات ہے جس کے وسیلہ سے برکت ملتی ہے۔ اس لئے ہمیں لائق طور پر عبادت کرنی چاہیے۔ یاد رکھئیے نامکمل یا ادھوری عبادت خدا سے قرب کا ذریعہ نہیں بن سکتی، قربت ہوگی تو نجات ملے گی۔ دعا ہے خدا ہم سب کو لائق طور پر عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بلکہ جب تو دعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کر اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔ْ (متی ۶: ۶) ۔ اور آپس میں مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گایا کرواور دل سے خداوند کے لئے گاتے بجاتے رہا کرو۔ْ (افسیوں ۵:۱۹)۔ پس ہم وہ بادشاہی پا کر جو ہلنے کی نہیں اس فضل کو ہاتھ سے نہ دیں جس کے سبب سے پسندیدہ طور پر خدا کی عبادت خدا ترسی اور خوف کے ساتھ کریں۔ْ( عبرانیوں ۱۲: ۲۸)۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ْ (یوحنا ۴:۲۳) ۔ کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلے سے شکر گزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ْ (فلپیوں ۴:۶)۔ پس اے بھائیوں کیا کرنا چاہیے جب تم جمع ہوتے ہو تو ہر ایک کے دل میں مزمور یا تعلیم یا مکاشفہ یا بیگانہ زبان یا ترجمہ ہوتا ہے۔ْ (۱۔کرنتھیوں ۱۴: ۲۶)۔ مسیح کے کلام کو اپنے دلوں میں کثرت سے بسنے دو اور کمال دانائی سے آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ۔ْ (کلسیوں ۳: ۱۶)۔
پس مذکورہ بالا بیانات سے عبادت کا مقصد و مفہوم ہم پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کب، کہاں اور کیسے کی جائے؟ عبادتی طریقہ کار کے متعلق بائبل مقدس سے رہنمائی ضروری ہے کیونکہ اگر ہماری عبادت اس طریقہ کے مطابق نہیں تو یہ مکمل عبادت نہیں۔ عبادت درست طور پر نہ ہو نے سے جنت کی راہ مبہم ہو سکتی ہے۔
عبادت کب کرنی چاہیے؟ مسیحی عبادت دنوں ، مہینوں اور وقتوں کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ مسیحی کسی بھی وقت عبادت کر سکتے ہیں لیکن کلیسیائی دستور کے تحت عام عبادت کے لئے اتوار کا دن مخصوص کیا گیا ہے، اگرچہ کچھ اس دن پہ اعتراض کرتے ہیں اور ہفتے یا سبت کو عبادت کا دن گردانتے ہوئے اتوار کے دن عبادت کرنے والوں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس تصور کی درستگی ضروری ہے کہ عبادت کب کرنی چاہیے۔
بے شک سبت ہی کو پا ک ٹھہرا کر عبا دت کا دن مخصوص کیا گیا لیکن ہمیں اسے مسیحی تنا ظر میں دیکھنا ہو گا نہ یہو دی پس منظر میں ۔ میں سبت کی اہمیت سے منکر نہیں لیکن کیا عہد نامہ جدید بھی ہمیں سبت کے رو ز عبا دت کر نے کو کہتا ہے ؟ اپنے موقف کی وضا حت کے لئے چند حوالہ جا ت پیش کر نا چا ہو نگا ۔جب یسوع اور اُس کے شا گرد سبت کے دن کھیتو ں میں سے گزرتے ہو ئے بالیں تو ڑ کر کھانے لگے تو سبت کی بے حرمتی کا اعتر اض آ یا جس کے جوا ب میں یسو ع میں نے بڑا مضبو ط جواب دیا: ’ ’ کیو نکہ ابن آ دم سبت کا مالک ہے۔ْ ‘‘(متی ۱۲:۱۔۸) ۔ انجیل مقدس میں ہمیں بہت سے شواہد ملتے ہیں جہاں یسوع نے سبت کے دن معجزا ت کئے یہا ں اُن کا تفصیلاً ذکر کر نا مو ضو ع سے ہٹنے کے مترا دف ہو گا ۔
خدا وند یسوع مسیح لوقا ۱۸:۱۸۔۳۰میں حکمو ں کا ذکر کرتا ہے :’ ’ توُ حکمو ں کو تو جا نتا ہے ، زنا نہ کر ، خو ن نہ کر ، چو ری نہ کر ، جھو ٹی گوا ہی نہ دے ، اپنے باپ کی اور ما ں کی عزت کر۔ْ ‘‘ یہاں سبت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔مزید دیکھئے مرقس ۲:۲۷،۲۸ : ’ ’اور اُس نے اُن سے کہا کہ سبت آ دمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لئے۔ْ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔ْ ‘‘
ابتدا ئی کلیسیاکس دن عبادت کر تی تھی اس کا ذکر بھی بائبل مقدس میں ملتاہے ۔ اعمال ۲۰:۷ دیکھیں: ’ ’ ہفتے کے پہلے دن جب ہم رو ٹی تو ڑنے کے لئے جمع ہو ئے۔ْ ‘‘
۱۔کرنتھیو ں ۱۲:۲ دیکھیں: ’’ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آ مدنی کے موافق کچھ رکھ چھو ڑا کر ے۔ْ‘‘ اب ہفتے کا پہلا دن تو اتوا ر ہی بنتا ہے ۔ ذرا کلسیو ں ۲:۱۶،۱۷ بھی ملا حظہ کریں :’ ’پس کھا نے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی با بت کو ئی تم پر الزا م نہ لگا ئے۔ْ کیو نکہ یہ آ نے والی چیزو ں کاسا یہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں ۔ْ‘‘ اب ایک بات تو صاف ظا ہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے مطابق ہفتے کا پہلا دن ہی عبا دت کا دن ہے مگر معترض حضرا ت اس ضمن میں کچھ تا ریخی حقا ئق پیش کر تے ہیں ۔ ان کے مطابق اتوا ر یعنی Sun Dayسورج دیوتا کا دن ہے جسے Sundayکہا جا تا ہے ،مزید یہ کہ جو لو گ اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں وہ درحقیقت سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔اگر پر کھنے کا یہی معیار ٹھہرا تو کیا 25دسمبر کو پا کستا نی غیر مسیحی بھی کرسمس منا رہے ہو تے ہیں ؟ ہر گز نہیں وہ 25دسمبر کو قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کا یو م ولا دت منا رہے ہو تے ہیں ۔ اگر چہ یہ دو نو ں خو شیا ں ایک ہی دن منا ئی جا تی ہیں لیکن ان دو نو ں کی جدا گا نہ حیثیت ہے۔ بالکل اسی طر ح اتوار کو مسیحی عبادت کر تے ہیں جبکہ دیوتا کو ماننے والے اپنے سو رج دیوتا کی پر ستش کر تے ہیں ۔
ہفتے کے پہلے دن کی اہمیت کے با رے میں چند حقا ئق قا بل غو ر ہیں :
i) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا نے اِس کر ہ ارض پر تخلیق کا کام شروع کیا ۔ خدا نے رو شنی کو تا ریکی سے جدا کیا بالکل اُسی طرح ہفتے کے پہلے دن حقیقی مسیحی جو نور کے فرزند ہیں تا ریکی سے جدا ہو نے کا عملی ثبو ت پیش کر تے اور گو اہی دیتے ہیں کہ تا ریکی سے جدا ہو کر نو ر میں آ گئے ہیں۔ یسوع مسیح نے فر ما یا کہ تم دنیا کو نو ر ہو، پس نو ر کا تا ریکی سے جدا ہو نا ضرو ری ہے کیو نکہ شریعت کا دو ر تا ریکی کا دور ہے جبکہ فضل روشنی کا دور ہے ۔ یہی وہ بنیاد ی فر ق ہے جو ہفتیکے پہلے اور آ خری دن میں ہے ۔
ii) ہفتے کے پہلے دن یعنی اتوا ر کو خدا وند یسوع مسیح نے مو ت اور قبر پر فتح پا ئی وہ اتوا ر کو زندہ ہو ا۔ا گر ہم ہفتے والے دن عبادت کر تے ہیں تو ایک لحا ظ سے قبر میں پڑے ہو ئے یسوع کی عبادت کر تے ہیں اور اگر اتوا ر کو عبادت کر تے ہیں تو جی اٹھے یسوع کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہفتے کے پہلے دن یسوع مسیح نے مو ت کی تا ریکی کو زندگی کی رو شنی میں بدل دیا ۔ اتوا ر مسیحی ایما ندا رو ں کے لئے خو شی کا دن ہے اس لئے عبا دت بھی اسی رو ز وا جب ہے ۔ یا د رکھئے! ہم زندہ کو ماننے والے ہیں مُردہ کو نہیں ۔
iii) ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوا ر ابتدا کی طر ف اشا رہ کرتا ہے، مسیح کے سا تھ ابدی جلال میں دا خل ہو نے کی طر ف اشا رہ کر تا ہے ۔ عیدِ پنتکست کا دن مسیحی تا ریخ کے اہم ترین دنو ں میں سے ایک ہے اور یہ دن ہفتے کا پہلا دن ہی تھا یعنی مسیحی کلیسیا کو با ضا بطہ طو ر پر رُو ح القدس کا بپتسمہ بھی اتوا ر ہی کو ملا اوریو ں حقیقی مسیحی ایماندار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریکی سے جدا ہو گئے ۔اب ذرا غو ر کر کے خو د ہی فیصلہ کیجئے کہ جب اتنی سا ری بر کات خو شیا ں اور معجزا ت ایک ہی دن یعنی اتوار کو نصیب ہو ں تو کیا وا جب نہیں کہ اسی دن اکٹھا ہو کر ان سا ری بر کتو ں اور نعمتو ں کے لئے خدا کی شکر گزا ری کی جا ئے ؟مندرجہ بالا بیانات ہفتہ وار عام عبادت کے لئے ہے لیکن اجتماعی عبادات کی اور بھی اقسام ہیں جیسے کنوینشن وغیرہ جو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہیں۔
عبادت کہاں کی جا سکتی ہے؟ شخصی و خاندانی عبادت کہیں بھی کی جا سکتی ہیں لیکن اجتماعی عبادت کے لئے مخصوص و تقدیس شدہ گرجا گھر ہی موزوں ترین مقام ہے۔ ہفتہ وار عام عبادات کے لئے گرجا گھر کی عمارت میں کافی گنجائش ہوتی ہے مگرکنوینشنز و دیگر اجتماعی عبادات کے لئے جگہ کی کمی کے باعث کسی گراؤنڈ یا چرچ سے ملحقہ احاطے کو زیر استعمال لایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کھلی جگہوں پہ عبادت ہونے والی عبادات میں سنجیدگی کا فقدان ہوتا ہے۔ نیز عبادت کے لئے مختص کی جانے والی جگہ کی صفائی کا مناسب انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ میں نے بہت سی جگہوں پہ پرندوں اور جانوروں کی گندگی کے اوپر دریاں یا کرسیاں لگی دیکھیں ہیں۔ یاد رکھئیے عبادت کے لئے روحانی و جسمانی پاکیزگی بہت ضروری ہے کیونکہ ہم دورانِ عبادت ایک پاک ذات سے ملنے کی سعی کرتے ہیں۔ طہارت و پاکیزگی پہ زیادہ بات نہیں کرو نگا کیونکہ یہ ایک وسیع مضمون ہے۔
عبادت کیسے کی جائے؟ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں۔ْ (یوحنا ۴:۲۴)۔ عبادت کے طریقے کا تعین کرنا ہی ہمارا مرکزی نقطہ ہے۔ بائبل مقدس سے اخذ شدہ معلومات کے مطابق مسیحی عبادت اقرارِ گناہ، اقرارِ ایمان، حمد و ثناء ، تلاوت و تفسیرِ کلامِ مقدس، دعا، سفارشی مناجات، پاک شراکت، ہدیہ اور کلماتِ برکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ عام عبادت کے اجزا ہیں لیکن عبادت کسی بھی موقع پر کی جا سکتی ہے جس کے اجزا عام عبادت کی طرح نہیں ہوتے جیسے بچے کی پیدائش، مخصوصیت، سالگرہ یا نکاح ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جا سکتی کیونکہ کسی اور کو عبادت کے لائق ٹھہرا کر ہم نجات سے دور ہو جاتے ہیں: اور موسیٰ خداوند کے پاس لوٹکر گیا اور کہنے لگا ہائے ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کا دیوتا بنایا۔ْ اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب سے جو تو نے لکھی ہے مٹا دے۔ْاور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ جس نے مرا گناہ کیا ہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤنگا۔ْ (خروج ۳۲:۳۲،۳۳)۔ ہم بھی آج اسی طرح کی بت پرستی کا شکار ہیں اور جگہ جگہ زیارتوں اور میلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ کار کلام مقدس کے مطابق کے بنانا ہو گا کیونکہ عبادت صرف اور صرف خدا کی ہے بتوں کی نہیں۔ اس موضوع کو تفصیلاً بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ بہت سے مسیحی اسی طریق کو مکمل عبادت تصور کرتے ہیں اس عمل کی نفی بہت ضروری ہے۔
مسیحی عبادات میں بت پرستی کا عنصر زمانہ قدیم ہی سے موجود ہے اور یہ زیادہ تر مسیحیوں میں قابلِ قبول بھی ہے کیونکہ مسیحیت کا لبادہ اوڑھے ہے۔ بائبل مقدّس واضح طور پر بیان کرتی ہے:’’میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا ۔ْ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ْ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرناکیونکہ مَیں خداوند تیرا غیور خدا وندہوں۔۔۔‘‘(خروج ۲۰:۳۔۵) لیکن بت پرست اپنے گناہ کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ ہم مسیح یا مسیحی قائدین کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو کسی صورت بھی غیر معبود نہیں ہوسکتے ، کیونکہ وہ خود مسیحی تھے۔ ایسے تمام اصحاب کے لئے بائبل مقدّس میں سے ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا:’’ اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام مَیں تم کو سکھاتا ہوں تم اُن پر عمل کرنے کے لئے اُن کو سن لو تاکہ تم زندہ رہو اور اُس ملک میں جسے خداوند تمہارے باپ دادا کا خدا تم کو دیتا ہے داخل ہوکر اس پر قبضہ کر لو ۔ْ جس بات کا مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کوجو مَیں تم کو بتاتا ہوں مان سکو۔ْ جو کچھ خداوند نے بعل فغور کے سبب سے کیا وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ اُن سب آدمیوں کو جنہوں نے بعل فغور کی پیروی کی خداوند تیرے خدا نے تیرے بیچ سے نابود کر دیا۔ْ پر تم جو خداوند اپنے خدا سے لپٹے رہے ہو سب کے سب آج تک زندہ ہو ۔ْ دیکھو! جیسا خداوند میرے خدا نے مجھے حکم دیا اس کے مطابق مَیں نے تم کو آئین اور احکام سکھا دئیے ہیں تاکہ اُس ملک میں اُن پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لئے جارہے ہو۔ْ سو تم اُن کو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہریں گے ۔۔۔سو تُو ضرور ہی اپنی احتیاط رکھنا اور بڑی حفاظت کرنا تانہ ہو کہ تو وہ باتیں جو تو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول جائے اور وہ زندگی بھر کے لئے تیرے دل سے جاتی رہیں بلکہ تو اُن کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔ْ خصوصاًاُس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خدا کے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھا کہ قوم کو میرے حضور جمع کر اور مَیں ان کو اپنی باتیں سناؤں گا تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ْ چنانچہ تم نزدیک جاکر اُس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑآگ سے دہک رہا تھا اوراس کی لَو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی ۔ْ اور خداوند نے اس آگ میں سے ہوکر تم سے کلام کیا ۔تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صورت نہ دیکھی ، فقط آواز ہی آواز سنی ۔ْ۔۔۔سو تم اپنی خوب ہی احتیاط رکھنا کیونکہ تم نے اُس دن جب خداوند نے آگ میں سے ہوکر حورب میں تم سے کلام کیا کسی طرح کی کوئی صورت نہیں دیکھی ۔ْتانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لئے بنالو جس کی شبہیہ کسی مرد یا عورت۔ْ یازمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے۔ْ یا زمین کے رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ۔ْ یا جب تو آسمان کی طرف نظر کرے اور تمام اجرام فلک یعنی سورج اور چانداور تاروں کو دیکھے تو گمراہ ہوکر ان ہی کو سجدہ اور ان کی عبادت کرنے لگے جن کو خداوند تیرے خدا نے رویِ زمین کی سب قوموں کے لئے رکھا ہے ۔ْ۔۔۔سو تم احتیاط رکھو تانہ ہو کہ تم خداوند اپنے خدا کے اُس عہد کو جو اُس نے تم سے باندھا ہے بھول جاؤ اور اپنے لئے کسی چیز کی شبہیہ کی کھودی ہوئی مورت بنالو جس سے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو منع کیا ہے ۔ْ۔۔۔یہ سب کچھ تجھ کو دکھایا گیا تاکہ تو جانے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ْ۔۔۔ ‘‘ (استثنا ۴:۱۔۴۰)
اس بیان کی روشنی میں ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے بت پرستی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کلامِ مقدّس اس حقیقت کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے: ’’۔۔۔ مَیں ہی نے خلق کیا اور مَیں ہی اٹھاتا رہوں گا مَیں ہی لئے چلوں گا اور رہائی دوں گا ۔ْ تم مجھے کس سے تشبہیہ دو گے اور مجھے کس کے برابر ٹھہراؤ گے اور مجھے کس کی مانند کہو گے تاکہ ہم مشابہ ہوں ؟۔ْجو ہتھیلی سے باافراط سونا نکالتے اور چاندی کو ترازو میں تولتے ہیں وہ سنار کو اُجرت پر لگاتے ہیں اور وہ اُس سے ایک بت بناتا ہے پھر وہ اُس کے سامنے جھکتے بلکہ سجدہ کرتے ہیں۔ْ وہ اُسے کندھے پر اُٹھاتے ہیں وہ اُسے لے جاکر اُس کی جگہ پر نصب کرتے ہیں اور وہ کھڑا رہتا ہے وہ اپنی جگہ سے سِرکتا نہیں بلکہ اگر کوئی اُسے پکارے تو وہ نہ جواب دے سکتا ہے اور نہ اسے مصیبت سے چھڑا سکتا ہے ۔ْ اے گنہگارو ! اس کو یاد رکھو اور مرد بنو اس پر پھر سوچو ۔ْ ‘‘ (یسعیاہ ۴۶:۴۔۸)۔ اگر دینے والا صرف خدا ہی ہے تو پھر کیا ہم خدا کو کسی بت سے تشبیہ دے کر راست ٹھہرا سکتے ہیں ؟ کیا کلامِ مقدّس ہم پر بت کی بے بسی واضح نہیں کرتا ؟ ہم کیوں ان باتوں کے متعلق نہیں سوچتے ؟
سجدہ صرف زندہ خدا ہی کو واجب ہے ۔ مکاشفہ ۲۲:۸،۹ ملاحظہ کیجئے: ’’۔۔۔اور جب مَیں نے سنا اور دیکھا تو جس فرشتہ نے مجھے یہ باتیں دکھائیں مَیں اس کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گرا ۔ْ اس نے مجھ سے کہا خبردار ! ایسا نہ کر مَیں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہم خدمت ہوں ۔ خدا ہی کو سجدہ کر ۔ْ‘‘ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ خُدا کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جائے ۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو غیر فانی خدا کے جلال کو فانی چیزوں سے بدل کر بے حرمت کرتے ہیں ۔ رومیوں ۱:۲۱۔۲۳ ہمارے اس طرزِ عمل کو یوں پیش کرتا ہے:’’اگرچہ انہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اس کی خدا ئی کے لائق اس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا ۔ْ وہ اپنے آپ کو دَانا جتا کر بیوقوف بن گئے ۔ْ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ْ‘‘ ان آیات سے ایک اور بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فانی انسان یا گزرے مقدسین کی پرستش بھی بت پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ یہ دونوں عقائد کلامِ مقدّس کے منافی ہیں کیونکہ پرستش صرف زندہ خدا ہی کی کرنی چاہیے۔(بحوالہ جلالی کلیسیا : از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
مندرجہ بالا حوالہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے جن سے آج تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستگی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔ پطرس رسول نے زندہ حالت میں کسی انسان کو سجدہ کرنے سے منع کیا تو کیا یہ واجب ہے کہ ہم دوہزار سال گزر جانے کے بعد اس کا یا اس کے کسی اور ہم خدمت کا بت بناکر اسے سجدہ کریں ؟ بقول مضطر ؔ کاشمیری:
جنا بِ شیخ نے دنیا کو کیا الو بنا یا ہے
بتو ں کو سامنے رکھ کے خداکا نام لیتے ہیں
پس عبادت کہیں بھی ہو،کیسے بھی ہو صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔ جو عبادت خدا کے لئے نہیں وہ کسی صورت بھی نجات کی طرف نہیں لے جاسکتی بلکہ انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔
اقرارِ گناہ مسیحی عبادت کا اہم ترین حصہ ہے کیونکہ گناہ ہی نجات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بحثیت مسیحی اقرارِ ایمان بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام مقدس کی تلاوت و تفسیر عبادت کا مرکزی حصہ ہوتا ہے جوہماری ایمانی و اخلاقی اقدار کو مضبوطی بخشتا ہے ۔ سفارشی مناجات یا دعائیں کلیسیا و بنی نوع انسان کے مسائل اور ملکی و قومی حالات کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔ ان دعاؤں میں عموماً بیماروں، ناداروں، بے روزگاروں، طلب علموں اور ملکی خوشحالی و سلامتی کو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ شکرگزاریاں، منتیں و ہدیہ جات ہمیں خدا کا احسان مند ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ افسوس! ہمارے ہاں اس احسان کو کم ہی مانا جاتا ہے۔ ہم دیناوی چیزوں پر منہ مانگی رقم خرچ کر دیتے ہیں لیکن ہمارا ہدیہ پانچ یا دس روپے سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہمارا چھوٹا بچہ ایک وقت میں سو یا پچاس روپے باآسانی خرچ کر دیتا ہے لیکن ہم کلیسیائی امور کو چلانے کے لئے بہت کم دیتے ہیں۔ میں کوئی پادری نہیں جو ہدیے کی بات کر رہا ہوں لیکن بطور کلیسیائی رکن ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ حکم صرف خوشحال اراکین کے لئے ہی نہیں، بیوہ کی دو دمڑیاں ہمارے لئے روشن مثال ہیں۔
پاک شراکت یا عشائے ربانی عبادت کا مقدس ترین حصہ ہے جس میں ہم یسوع مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں۔ روٹی مسیح کے بدن کو ظاہر کرتی ہے جبکہ انگور کا شیرہ یسوع کے خون کو۔ یہ ایک عظیم ضیافت ہے جس میں ایمانداروں کی شرکت لازمی ہے کیونکہ جو مسیح کا بدن کھاتا اور اس کا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسی میں ہے۔ ہمیں مناسب طور پر اس میں شریک ہونا ہے کیونکہ نامناسب شرکت عذابِ الہی کا سبب بن سکتی ہے۔ عشائے ربانی کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن بعض گرجاگھروں میں اس ساکرامنٹ کو درست یا مکمل طور پر ادا ہی نہیں کیا جاتا، صرف روٹی یعنی مسیح کا بدن ہی جماعت میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور انگور کے شیرے یعنی مسیح کے خون سے محروم رکھا جاتا ہے۔حاضر جماعت بھی مجرمانہ چپ سادھے رہتی ہے اور برسوں ادھورے ساکرامنٹ میں شرکت کرتی رہتی ہے۔ ایسا کرنے والے کوئی جواز بھی پیش کر یں، مسیح کا مقرر کردہ حکم و طریق ان کی ذاتی تفسیر سے معتبر ہے۔
حمد و ثناء کا حصہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ عبادت کے شروع سے آخر تک چلتا ہے۔ حمد و ثناء میں مسیحی گیتوں اور زبوروں کے ذریعے خدا کی شتائش کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ گیتوں کے معیار و الفاظ کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم انجانے میں بہت سی غلط تراکیب کو حمد و ثناء کا حصہ بنا لیتے ہیں اور پشت در پشت گاتے رہتے ہیں۔پس ہمیں حمد کے لئے الفاظ و لسانی تراکیب کا موزوں ترین انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ہم خدا کی بجائے شیطان کو خوش کرتے ہیں۔ موضوع کیونکہ اہم ہے اس لئے یہاں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ اقتباس اپنی زیر طبع کتا ب گرہن زدہ سے اختصار کے ساتھ پیش کر رہا ہوں جس میں مسیحی گیتوں کو بائبل مقدس اور لسانی تراکیب کے معیار پر پرکھا گیا ہے، اگرچہ پاکستانی معاشرے میں یہ ایک خطرناک عمل ہے لیکن غلط تصورات کو پھیلنے سے روکنا بھی بہت ضروری ہے:
گرہن نمبر۱۳
تیرے لہو سے پاپ دھوتا ہوں (گیت کا پہلا مصرعہ)
شاعر نامعلوم ،کتاب نغماتِ مسیحا ، مرتب مسز نسرین صادق ، چرچ آف پاکستان ، کراچی ڈایوسیس۔ گیت نمبر ۶
اس گیت میں شاعر یا انسان فاعل ہے یہی بات اب بائبل مقدس میں دیکھئے:
۔ ۔ ۔ یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔ْ ۱ یوحنا ۱:۷
یہاں فاعل یسوع کا خون ہے جبکہ انسان مفعول ہے۔ کیا شاعر نے سارا معاملہ الٹ نہیں کر دیا؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ شاعر مستقل طور پر فاعل ہے :
اپنی خودی سے ہاتھ دھوتا ہوں ۔ ۔ ۔ خود کو لہو میں ڈبوتا ہوں۔
انسان خود مسیح کے خون سے پاپ نہیں دھو سکتا بلکہ مسیح کا خون اسکے پاپ دھوتا ہے۔ امید ہے یہ فرق آپ سمجھ گئے ہونگے۔
گرہن نمبر۱۵
ہم تین بادشاہ مشرق کے ہیں
سجدہ کرنے ہم آئے ہیں
سفر دور کا پیچھا نور کا
کر کے ہم آئے ہیں۔
شاعر : جے ایچ ہاپکنز ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر ۱۵۱
یہ کرسمس کا ایک مشہور گیت ہے جسے ہم برسوں سے گا رہے ہیں۔ اس کو انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے لیکن انگریزی میں بھی لفظ King ہی استعمال ہو ا ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ بائبل مقدس کیا کہتی ہے: جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلیم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ۔ْ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ (متی ۲:۱،۲)۔
Now after Jesus was born in Bethlehem of Judea in the days of Herod the king, behold, magi from the east arrived in Jerusalem, saying, \"Where is He who has been born King of the Jews? (Matthew 2:1,2)
بائبل مقدس کے مطابق پورب یامشرق سے مجوسی یسوع کو دیکھنے آئے نہ کہ بادشاہ۔ بادشاہ کا مطلب ہم سب جانتے ہیں لیکن مجوسی کی تشریح ضروری ہے۔ مجوسی علمِ نجوم، فالگیری اور خوابوں کی تعبیر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس لئے انہیں دانش مند بھی کہا جاتا تھا۔
گرہن نمبر۱۷
مریم کی فوج بن کے ہم شیطان کو بھگائیں گے (پہلا مصرعہ)
شاعر :نامعلوم ،کتاب :ہوشعنا، ناشر: دخترانِ مقدس پولوس ،گیت نمبر۲۲۱
مریم کی فوج کا ذکر پوری بائبل میں کہیں موجود نہیں ، یسوع کی فوج کا ذکر ضرور ہے : اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے ۔ْ اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے پہنے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ْ (مکاشفہ ۱۹:۱۳،۱۴)۔
گرہن نمبر۲۱
کیا کروں تعریف تیری مجھ میں دانائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر کروں جی جان سے تجھ کو نہ میں یسوع پیار
نام رکھتا ہوں ولے میں دل سے عیسائی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان دی تو نے ذبیح اللہ سب کے واسطے
ایسی خوبی اور میں ہم نے کبھی پائی نہیں
شاعر :واعظ ،کتاب :سیالکوٹ کنوینشن گیت کی کتاب، گیت نمبر۲۰۳
یہاں دو اصطلاحات عیسائی اور ذبیح اللہ پرلسانی و بائبلی حوالے سے غور کیجئے۔ کلام مقدس یسوع کو مسیح کہتا ہے عیسیٰ نہیں ۔یسوعؔ عبر انی لفظ یشو ؔ ع کی یو نا نی شکل ہے جس کے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا کے ہیں ۔ مسیح عبرا نی اور عر بی د ونو ں زبا نو ں میں ایک معنی رکھتا ہے یعنی مسح کیا ہو ا شخص ۔ یو ں یسوع مسیح کے پو رے معنی گنا ہو ں سے بچا نے والا مسح کیا ہوا شخص ہیں۔عیسیٰ کا مطلب یہودیوں کا ایک نبی ہے ۔پس عیسیٰ کا لفظی مطلب یسوع مسیح کی شانِ اقدس کا ترجمان یا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ہم عیسائی نہیں مسیحی ہیں۔ شاگرد پہلی بار انطاکیہ میں مسیحی کہلائے (اعمال ۱۱:۲۶)۔ یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا بائبل مقدس اور مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال:
ابنِ مریم مر گیا یا زند ۂ جاوید ہے
ہیں صفات ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جِس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
دوسری اصطلاح ذبیح اللہ ہے جس کا مطلب اللہ کی راہ میں قربان ہونے والا ہے ۔یہ بھی اسلامی اصطلاح ہے جس کا مسیحی ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ابرہام کے بیٹے اسماعیل کا لقب ہے اس لئے بھی یسوع کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس اصطلاح کی بنیاد یہ ہے کہ خدا نے ابرہام کو اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی دینے کا حکم دیا اس لئے اسماعیل ذبیح اللہ ہے، جبکہ بائبل مقدس اضحاق کی قربانی کا ذکر کرتی ہے (دیکھئیے پیدائش ۲۲ باب)۔ اب فیصلہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔مندجہ بالا گرہن مستند کتابوں سے ہیں لیکن موجودہ دور میں روح کے گیت تو ہر حد کو پھلانگ گئے ہیں یعنی نیم حکیم اور خطرہِ جان۔ یہ ایک کرب ناک صورتحال ہے جسے درست کرنا شاید اس سے بھی کرب ناک ہو۔ پس حمد و ثناء ایک حساس معاملہ ہے اور ہمیں گیتوں اور غزلوں میں موجود مواد کو علم الہی کی روشنی میں پرکھنا بھی چاہیے۔جب لائق طور پر پرستش ہی نہ ہو تو نجات کیسی؟
درست طور پر کی جانے والی عبادت ہی برکت کا وسیلہ بنتی ہے۔عبادت کا اختتام اسی لئے کلماتِ برکت سے کیا جاتا ہے ۔ ان کلمات میں خدا باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے لوگوں کو برکت دی جاتی ہے۔ کلماتِ برکت کے بعد ہی عبادت سے رخصت ہونا چاہیے کیونکہ یہی عبادت کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اکثر لوگ عبادت شروع ہونے کے بعد آتے ہیں اور ہدیہ دے کر چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اقرارِ گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی کلماتِ برکت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جاتے وقت لوگوں کی جوتیاں بھی چرا لے جاتے ہیں، یوں وہ عباد ت سے برکت نہیں لعنت حاصل کرتے ہیں۔گرجا گھر میں نوجوان لڑکے لڑکیاں کیا کرتے ہیں؟ کیا تانک جھانک کے لئے گلی محلے کافی نہیں ہوتے؟یہ ملاکی کی کتاب نئے عہد نامے میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟انہیں بائبل کا علم کیوں نہیں؟ دورانِ عبادت ہماری توجہ کس طرف ہوتی ہے ؟ ہم کیوں نامناب طور پر مسیح کے بدن و خون میں شریک ہوتے ہیں؟ دورانِ عبادت ایس ایم ایس وفون کالز کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہوتا؟ افسوس اگر کسی کو منع کرو تو وہیں بے عزت ہونا عام سی بات ہے۔عزیزو! اگر نجات چاہیے تو یہ سب درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادت کے لئے ہمیں کولہو کا بیل نہیں بننابلکہ روح اور سچائی سے پرستش کرنے والے پرستاربننا ہے۔ گرجا گھروں میں رٹی رٹائی دعائیں دہراتے رہنے سے نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس سارے عمل میں عابد عموماً خدا سے دور ہی رہتا ہے پھر بھی وہ ہر اتوار گرجے جانا ضروری سمجھتا ہے۔ ہم جانوروں کی طرح اپنے آباو اجداد کا تسلسل ہیں ۔ ہم اسلئے مسیحی ہیں کہ ہمارے بڑے مسیحی تھے اور ہماری عبادت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذرا سوچئیے لاتعداد گرجا گھروں میں جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں اگر ان کا کچھ حصہ بھی قبول ہو جائے تو ہماری حالت بدل جائے۔ مقدس یعقوب ہماری دعا ؤں کو یوں پیش کرتا ہے: تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اسلئے کہ بری نیت سے مانگتے ہو۔۔۔ ۔ْ (یعقوب ۴:۳ )۔ نیز ہمیں ان دعاؤں کے جواب کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ خدا ہماری دعائیں سن کر قبول کرے گا تو ہماری دعاؤں کا انداز فرق ہو۔ گرجا گھروں میں خادم اپنے دشمنوں کے لئے برکت چاہ رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکی دعا میں اثر نہیں ۔ یہ ایک دکھاوا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی پارسائی ظاہر کر رہا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہی خادم کلیسیا کو لوٹنے، چرچ پراپرٹی بیچنے اور دیگر مقدمات میں ملوث ہوتا ہے۔ حیرت ہے وہ اپنے جسمانی و کلیسیائی مقدمات کے لئے بھی خدا سے دعا کرتا ہے جبکہ خدا کے خلاف ہی اس کا عمل ہوتا ہے۔ وہ گرجا گھر میں اپنے دشمنوں کے لئے دعا مانگتا ہے کہ اے خدا ان کی آنکھیں کھول دے جو تیرے ممسوح کے خلاف منصوبے بناتے ہیں، جبکہ اسے اپنے اعمال نظر نہیں آ رہے ہوتے کہ اس نے کلیسیا کے ساتھ کیا کیا۔ نتیجہ یہ کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری عبادت خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتی؟میرے کڑوے جوابات سے اکثر مسیحی ناراض ہو جاتے ہیں لیکن میرا جواب آج بھی یہی ہے کہ ہم خود دیانتدار نہیں نیز جن کے پیچھے عبادت کرتے ہیں وہ ہم سے بھی بڑے چور ہیں۔ ایسے ماحول میں خدا سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہی حالت ہماری شخصی و خاندانی عبادات کا ہے۔
روح القدس سچے پرستارکے ذریعے ہی کام و کلام کرتا ہے ، اسلئیے عبادت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عبادت ایک ضابطہ حیات ہے جس کے وسیلہ سے برکت ملتی ہے۔ اس لئے ہمیں لائق طور پر عبادت کرنی چاہیے۔ یاد رکھئیے نامکمل یا ادھوری عبادت خدا سے قرب کا ذریعہ نہیں بن سکتی، قربت ہوگی تو نجات ملے گی۔ دعا ہے خدا ہم سب کو لائق طور پر عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین