انسا نی تا ریخ کی ابتدا ء ہی سے خدا اور انسان ہر دور میں مو ضو عِ بحث رہے ہیں ۔ انسان کی ہر ممکن کو شش ہے کہ وہ خدا کے متعلق پو رے طو ر سے جا نے ۔ انسان اُس راز کو پا نا چا ہتا ہے جو خداکی حا کمیت کے پیچھے کا ر فر ما ہے ۔ وہ طر ح طرح سے خدا کی تخلیقا ت کا متبا دل ڈھو نڈنے کی سعی کر تا ہے اور پھر ایک ایسا مو قع آ تا ہے کہ وہ خدا کے وجود سے منکر ہو جا تا ہے ۔خدا کون ہے اور کیسا ہے؟ ہر مذہب میں خدا کے متعلق مختلف نظر یا ت ہیں سا حرؔ لدھیا نوی ا س امر کی عکا سی یو ں کر تا ہے :
ہر ایک دو ر کا مذ ہب نیا خدا لا یا
کریں تو ہم مگر کس خدا کی با ت کریں ؟
غیر اقوا م میں خدا کے متعلق تصورات یکسا ں نہیں رہے۔دا نی ایل نبی کے دو ر میں نبو کد نصر با دشا ہ نے سو نے کی مو رت بنوا ئی اور مقررہ وقت پر اُے سجدہ کر نے کا حکم بھی دیا، سجد ہ نہ کر نے کی صو ر ت میں انسا ن کو آ گ کی جلتی بھٹی میں ڈالنے کی سزاتجویز کی گئی لیکن خدا کے لو گو ں سدرک ، میسک اور عبد نجو نے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کیا۔ بے شک اُن پر سزا کا اطلا ق ہوا لیکن خدا نے اپنا ہا تھ بڑھا کر اُنہیں بچا یا اوربا دشا ہ چلا اٹھا کہ سدرک اور میسک اور عبد نجوکا خدا مبا رک ہوکیونکہ کوئی دوسرا معبو د نہیں جو اس طر ح رہا ئی دے سکے (دا نی ایل ۳ باب )۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ (بحوالہ جلالی کلیسیا از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
بیان کردہ حوالا سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔
مسیحیت میں خدا کا تصور دیگر اقوام سے قطعی مختلف تو نہیں لیکن منفر د ضرو ر ہے ۔ خدا کو ہر بات اور ہر کا م میں اولین ترجیح حا صل ہے اور اس کی با دشا ہت
جسما نی نہیں بلکہ رُو حا نی ہے ۔ Blaise Pascal اس تصور کو یو ں بیان کر تا ہے :
The Christians\' God does not consist merely of a God who is the author of mathematical truths, but the God of Abraham, the God of Isaac and the God of Jacob. The God of Christians is a God of love and consolation; He is a God who makes them inwardly aware of their wretchedness and His infinite Mercy; who united Himslef with them in the depths of their soul; who fills it with humility, joy, confidence and love, who makes them incapable of having any other end but Him.
یسوع مسیح کے دور میں خدا کا نام لینا ممنوع سمجھا جاتا تھا اور خدا کو احتراماً بنی اسرائیل کا قدوس کہا جاتا تھا۔ اگر ہم خدا اور بنی اسرائیل کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا اپنے روح کے ذریعے ان سے کلام کرتا تھا یعنی دونوں کے درمیان روح القدس ایک رابطہ تھا۔ جب ہم یسوع کی تعلیمات کی طرف آئیں تو وہ خدا کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اسے باپ کہہ کر پکارتا اور دوسروں کو بھی کہتا ہے کہ اسے باپ کہہ کر پکاریں ۔ یہ خدا سے اس کے قریبی تعلق کا اظہار بھی ہے۔ پس خدا، یسوع مسیح اور روح القدس بائبل مقدس کا بنیادی جز ہیں۔ انہی تینوں کی اشتراکیت کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔
عقیدہ تثلیث فی التوحید مسیحی علم الہیات کے مشکل ترین عقائد میں سے ایک ہے۔ اس عقیدے کے مطابق خدا کی ذات تین اشخاص یعنی باپ اور بیٹے اور روح القدس کا مجموعہ ہے لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ ان تینوں اشخاص کا جوہر ایک ہے۔ آج بہت سے مسیحی تثلیث فی التو حیدسے منکرہیں ۔اِس عقیدے کے مطابق مسیحی تین خدا ؤ ں کو مانتے ہیں یعنی باپ کو،بیٹے کو اور رُوح القدس کو۔ یہ اس با ت پر بضد ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور اس کا نا م یہووا ہؔ ہے ۔بعض عقلمندوں کے مطابق باپ اور بیٹا اور روح القدس یسوع کے ہی تین روپ ہیں جن کا نام یسوع ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جسے یہ لو گ سمجھنے یادُو ر کر نے کی کو شش نہیں کر تے بلکہ تنقید برا ئے تنقید کو شعا ر بنا ئے ہو ئے ہیں۔یہ تثلیث کو ان ا لفاظ میں رد کرتے ہیں:
Never was there a more deceptive doctrine advanced than that of the trinity. It could have originated only in one mind, and that the mind of Satan the Devil. (Reconciliation 1928, p 101).
Therefore, those who accept the Bible as God\'s Word do not worship a Trinity consisting of three persons or gods in one. In fact, the word Trinity does not even appear in the Bible. (Knowledge that Leads to Everlasting Life 1995. p 31).
Trinity is inadequate and a departure from the consistent and empathic Biblical revelation of God being one. (www.upci.org/about).
بائبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں خدا کے ایک ہو نے کے متعلق بیان کر تی ہے : ’ ’خداوند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘ (استشنا ۶:۴) مزید دیکھئے :’ ’یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرا ئیل سن! خدا وند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘(مر قس ۱۲:۲۹) در حقیقت مسیحی ذا تِ خدا میں تین اقا نیم یعنی با پ ، بیٹا اور رو ح القدس کے قا ئل ہیں ۔ اب اعترا ض ہے ان تینوں کے میل کا کہ یہ تینو ں ایک دو سرے سے اس قدر گہر ا با ہمی ربط کیو ں رکھتے ہیں؟ یہ تینو ں شخصیا ت قدیم ہیں حا دث نہیں اور یہی وہ قدیم اور گہرا تعلق ہے جسے تثلیث کا نام دیا گیا ہے ۔اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا تین ہیں لیکن کیا کیا جا ئے ، اعترا ض کر نے کا کو ئی نہ کو ئی بہا نہ تو ہر کو ئی ڈھو نڈتا ہے ۔ اگر چہ بائبل مقدس میں تثلیث کا لفظ نہیں ملتا لیکن با رہا ایسے شواہد ضرو ر ملتے ہیں جو تثلیث کو ثا بت کر تے ہیں، انہی شواہد کو اکھٹا کر کے ایک نام دے دیا گیا ہے ۔ جیسے بچے کی پیدائش کے بعد اُس کا نام تجویز کیاجاتاہے مگر پیدائش سے قبل بچے کا وجود ہوتا ضرور ہے بالکل اُسی طرح باپ ، بیٹے اور روح القدس کے وجود کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اِن کا مشترکہ وجودکبھی تھاہی نہیں۔ بائبل کی بات کریں تو بائبل میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کا نام یسوع ہے نہ ہی یہ لکھا گیا ہے کہ یہ تنیوں ایک ہی شخص کے مختلف روپ ہیں۔
باپ، بیٹا اور روح القدس تنیوں جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ نہ تو باپ بیٹا ہے نہ بیٹا باپ، نہ باپ روح القدس ہے نہ بیٹا روح القدس ہے۔ یہ تینوں جدا بھی ہیں اور ایک بھی ہیں کیونکہ ان کا جوہر ایک ہے۔
3
(یوحنا ۸: ۱۶: ’’اور اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا۔ْ ‘‘ یوحنا ۱۴: ۲۶: ’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گااور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلا ئے گا۔ْ‘‘ اعمال ۱۰: ۳۸: ’’ کہ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا ۔وہ بھلائی کرتا اور ان سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا۔ْ‘‘)
تثلیث مسیحی ایما ن کی بنیا د ہے ۔ مسیح پر ایمان اُسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب اُس کے سا تھ خدا اور رُو ح القدس کو بھی تسلیم کیا جا ئے ۔ مسیحی ایمان میں شامل ہو نے کا بپتسمہ در اصل ہے ہی تثلیث کا بپتسمہ ۔ یسو ع مسیح خو د تثلیث کے نام پر قو مو ں کو مسیحی ایما ن میں شامل کر نے کا حکم دیتا ہے :’’ پس تم جا کر سب قو مو ں کو شا گر د بنا ؤ اور ان کو با پ اور بیٹے اور رُو ح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْ‘‘(متی ۲۸:۱۹) یعنی یہ تینو ں اقا نیم مسیحی ایمان کا بنیا دی جز ہیں۔ اس آ یت سے ایک اور بڑا اعترا ض ختم ہو جا تا ہے کہ یسوع مسیح صر ف بنی اسرا ئیل کے لئے آ یا یہا ں سب قو مو ں کو شا گرد بنا نے کا حکم دیا گیا صرف بنی اسرا ئیل کو نہیں ۔
بائبل مقدس میں بے شمار جگہوں پر تثلیث کا ذکر موجود ہے لیکن لفظ تثلیث کا نہ لکھا جانا ہی اعتراض کو بنیاد بخشتا ہے۔میں یہاں ان حوالوں میں سے چند ایک پیش کرنا چاہو ں گا:با ئبل مقدس کے مطابق دنیا کی ابتدا ہی تثلیث سے ہو ئی :’ خدا (باپ) نے ابتدا میں زمین و آ سمان کو پیدا کیا۔ اور زمین ویرا ن اور سنسان تھی اور گہرا ؤ کے اوپر اندھیرا تھا اورخدا کی رُو ح (رُو ح القدس ) پا نی کی سطح پر جنبش کر تی تھی ۔اور خدا نے کہا(خدا کاکلمہ مسیح) ، رو شنی ہو جا اور رو شنی ہو گئی۔‘ (بمطا بق پیدا ئش ۱:۱۔۳) بائبل مقدس کی پہلی تین آ یا ت ہی تثلیث کے تینو ں اقا نیم کو ثا بت کرتی ہیں ۔یہا ں خدا با پ پہلے خود ہے پھر رُو ح القدس سا تھ ہے اور پھر اپنے کلمے یعنی یسوع مسیح کے سا تھ ہے ۔ کتنی خو بصو رت ابتدا ہے بائبل مقدس کی اور اس جہا ن کی۔ کیاآ ج سے پہلے آپ نے ان آ یا ت پر اس طرح غو رکیا تھا ؟
عہد نا مہ عتیق و جدید دو نو ں میں با رہا ان تینو ں شخصیات کا ذکر آ تا ہے ۔ با ئبل مقدس سے ایک بڑی دلچسپ آ یت پیش کر نا چا ہو ں گا : ’ ’ اور خداوند نے کہا کہ دیکھو انسا ن نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی ما نند ہو گیا۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۳:۲۲)۔جب انسا ن کی تخلیق کا ذکر ہوا تب بھی جمع صیغہ استعمال ہوا :’ ’پھر خدا نے کہا کہ ہم انسا ن کو اپنی صو رت پر اپنی شبیہ کی ما نند بنا ئیں۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۱:۲۶)۔ یہا ں جمع صیغہ سے مرا د خدا خود، یسو ع مسیح اور رُو ح القدس ہے جبکہ یہ کہتے ہیں یہاں خدا فرشتوں سے مخاطب ہے ، بھلا خدا کا فرشتوں سے صلاح لینا بنتا ہے؟ مقدس جسٹن شہیدسن 74 م میں برنباس کو لکھے گئے خط میں اس غلط فہمی کو دور کرتا ہے:
And further, my brethren, if the Lord Jesus endured to suffer for our soul, He being the Lord of all the world, to whom God said that at the foundation of the world, let us make man after Our image, and after Our likeness,
understand how it was that He endured to suffer at the hand of men. (Justin\'s Letter to Barnabas Ch. 5, 74 AD).
ترجمہ: بھائیو! اگر خداوند یسوع نے ہماری روح کے لئے دکھ سہا تو وہ جانتا تھا کہ اسے کیوں اورکیسے آدمیوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھانا ہے کیونکہ وہ جہان کا مالک تھا اور اسی کو خدا نے جہان کے بنیاد رکھتے وقت کہا کہ آؤ ہم انسان کو اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔
’’ اور تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی ملکر سچی ہوتی ہے ۔ْ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔ْ‘‘ (یوحنا ۸: ۱۷،۱۸)۔ اگر باپ اور بیٹا ایک ہی شخص ہیں تو پھر یہ دو گواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
’’ اس وقت میں نے خداوند کی آواز سنی جس نے فرمایا میں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائیگا؟۔ْ‘‘ ( یسعیاہ ۶: ۸)۔ یہاں پہلے واحد اور بعد میں جمع کا صیغہ ذاتِ خدا میں موجود کثرت کا اظہار ہے۔ پرانے عہد نامہ میں تقریباً ستائیس سو سے زائد مقامات پر خدا کے لئے الوہیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع صیغہ ہے۔ الوہیم الوہ کی جمع ہے جو خدا کی ذات میں کثرت کا اظہار ہے۔ پیدائش ۳:۲۲ کے مطابق خدا نے کہا کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ ہم میں سے ایک سے کیا مراد ہے؟
’’ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قُدوس قُدوس قُدوس رب الافواج ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۶: ۳)۔ یہاں تین مرتبہ قُدوس باپ اور بیٹے اور روح القدس کو جلال دینے کے لئے کہا گیا۔
’’ اور یسوع بپتسما لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیااور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ْ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔ْ‘‘ (متی ۳: ۱۶،۱۷)۔ یہاں باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں کی جداگانہ حیثیت کا ثبوت موجودہے۔یہ کسی صورت بھی ایک وقت میں ایک ہی شخص کے تین روپ نہیں ہو سکتے۔
’’ اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگااور خدا تعالےٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ْ ‘‘ ( لوقا ۱:۳۵) ۔ خدا ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی اکٹھے ہیں۔
’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گاوہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔ْ ‘‘ ( یوحنا ۱۴: ۲۶)۔ باپ ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی موجود ہیں۔
’’ مگر اس نے روح القدس سے معمور ہو کر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھ کر ۔ْ کہا کہ دیکھو! میں آسمان کو کھلا اور ابنِ آدم کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں۔ْ ‘‘ ( اعمال ۷: ۵۵، ۵۶)۔ ستفنس نے یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا یعنی دو شخصیات کا ذکر ملتا ہے صرف یسوع کا ہی نہیں اور یسوع خود ہی اپنے دہنے ہاتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔
’’ خداوند یسوع مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح القدس کی شراکت تم سب کے ساتھ ہوتی رہے۔ْ‘‘ ( ۲ کرنتھیوں ۱۳:۱۴)۔ اگر یہ ایک ہی شخص یعنی یسوع کے نام ہوتے تو ان کو ہر جگہ یسوع کیوں نہ لکھا گیا بلکہ تینوں کو الگ الگ ناموں سے پکارا گیا۔
پس بائبل مقدس میں بہت سے مقامات پر ان تینوں شخصیات کے باہمی ربط اور ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے ، اسی ربط و ہم آہنگی کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔یاد رکھیں نہ باپ بیٹا ہو سکتا ہے نہ بیٹا باپ یہ ایک بدعت سے جسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔نئے عہد نامہ میں ایک بار بھی یسوع کو باپ کہہ کر نہیں پکارا گیابلکہ ہر جگہ بیٹا ہی کہا گیا ہے۔ صرف خدا باپ کو ہی باپ کہا گیا ہے کہیں بیٹا نہیں کہا گیا نہ ہی روح القدس کو ان ناموں سے پکارا گیا ہے۔ تقریباً ۵۰ سے زائد آیات میں باپ اور بیٹے کا مشترکہ ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ اگر باپ ہی بیٹا ہے یا بیٹا باپ ہے پھر یہ سب آیات کس لئے ہیں؟ خدا کیوں ہمیں چکر دے رہا ہے؟
آئیے تثلیث کے تینوں اقانیم کی اشتراکیت کو بائبل مقدس سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تثلیث کو تاریخی لحاظ سے بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اعتراض کے مطابق یہ خیال شیطان کے ذہن کی پیداوار ہے جبکہ رسول تثلیث کے قائل تھے جس کا انہوں نے مبہم الفاظ میں ذکر بھی کیا اور کچھ نے واضع طور پر تثلیث کا ذکر کیا۔ تثلیث کو بدعت قرار دے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 325 م میں نقایا کی کونسل میں ہوا، اس کا وجود پہلے نہ تھا اور نہ ہی کوئی اسے جانتا تھا۔ میں یہاں اس دعویٰ کو باآسانی غلط ثابت کر رہا ہوں کہ تثلیث کا آغاز نقایا کی کونسل سے ہوا کیونکہ میں یہاں سن 30 م سے 325 م تک مختلف مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں ، میں نے ان میں سے چند ایک کا با محاورہ اردو ترجمہ بھی کیاہے۔
مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عہد نامہ عتیق کی آخری کتاب ملاکی 425 ق م میں تحریر کی گئی یعنی یسوع مسیح کی زمینی آمد سے صدیاں قبل پرانے عہد نامے کی کتب مکمل ہو چکی تھیں۔ نئے عہد نامے کی کتب تقریباً 96 سن مسیح میں مکمل ہوئیں جن میں سے آخری کتاب مکاشفہ ہے۔ سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ یسوع مسیح کو تقریباً 33 م میں مصلوب کیا گیا یعنی یہ حوالے انتہائی مستند ہیں۔
یہاں دوسوالوں کو ذہن میں رکھئے گاپہلا یہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس ایک ہی اہمیت کے حامل ہیں یا نہیں اور دوسرایہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس کسی ایک ہی شخصیت کے تین روپ یا نام ہیں یا نہیں:
There are neither three Fathers, or three Sons, or three Paracletes, but one Father, and one Son, and one Paraclete. Wherefore also the Lord, when He sent forth the apostles to make disciples of all nations, commanded them to baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Ghost, not unto one person having three names, nor into three persons who became incarnate, but into three possessed of equal honor. For there is One that became incarnate and that neither the father nor the Paraclete, but the Son only, who became so not in appearance or imagination, but in reality. For the Word became flesh. (Epistle of Ignatius to Philippians, Chapter 2 and 3, 30-107 AD).
ترجمہ: نہ تو تین باپ ہیں، نہ تین بیٹے اور نہ تین مددگار(روح القدس) لیکن ایک باپ اور ایک بیٹا اور ایک روح القدس۔ اسی لئے خداوند یسوع مسیح نے بھی رسولوں کو بھیجا کہ ساری قوموں سے شاگرد بنائیں اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دیں۔ صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں ، نہ ہی تین شخصیات کے نام سے جو مجسم ہوئے لیکن تین ایک ہی رتبے کے افراد کے نام سے۔ ان میں سے ایک ہی مجسم ہوا نہ باپ مجسم ہوا نہ روح القدس لیکن صرف بیٹاجس کی تجسیم تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہے، کیونکہ کلام ہی مجسم ہوا۔
صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں یعنی صرف یسوع کے نام کا بپتسما درست نہیں بلکہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے۔نہ ہی ان تینوں کا ایک نام ہے۔ ابتدائی رسولوں نے بپتسمے کا طریقہ بھی بتایا ہے:
As regards baptism, baptize in this manner, having first given all the preceding instructions baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Spirit and immerse three times in running water. (Didache: The Teachings of the Twelve Apostles, 60 AD).
ترجمہ: بپتسمے کے متعلق یہ ہے کہ اس طرح سے پبتسمہ دیا جائے۔ پہلے تمام ضروری ہدایات دی جائیں اور پھربپتسما دیا جائے باپ کے نام سے اور بیٹے کے نام سے اور روح القدس کے نام سے اور تین مرتبہ بہتے پانی میں ڈبکی دی جائے۔ Didache کلیسیائی رسومات و عبادات کے طریقہ کار کی سب سے پرانی اور مستند کتاب ہے ۔یہاں بھی ان تینوں کا ذکر ہے نہ کہ صرف یسوع کے نام سے بپتسمہ دینے کو کہا گیا ہے۔
In like manner also the three days which were before the luminaries are types of the Trinity of God, and His Word, and His Wisdom. (Theophilus to Autolycus II, 168 AD).
مقدس تھیفلس 168م میں تثلیث کا ذکر ان الفاظ میں کر رہا ہے:سورج اور چاند کی تخلیق سے پہلے جو تین دن تھے وہ تثلیث کی ہی حالتیں ہیں یعنی خدا کی، اس کے کلمے کی اور اس کی حکمت کی۔ یہاں لفظ تثلیث نقایا کی کونسل سے ۵۷ا سال قبل استعمال ہوا ہے۔
Church holds the Father to be God, and the Son God, and the Holy Spirit, and declare their union and their distinction in order. (Athenagoras A Plea for Christians 10:3, 160 AD).
مقدس اتھناگورس 160م میں لکھتا ہے کہ: کلیسیا باپ کو خدا مانتی، بیٹے اور روح القدس کی خدا مانتی اور ان کے اکٹھ اور ترتیب وار درجے پر ایمان رکھتی ہے۔ مقدس کلیمنٹ 190 م میں اسے بالکل واضح کرتا ہے:
I understand nothing else than the Holy Trinity to be meant; for the third is the Holy Spirit, and the Son is the second, by whom all things were made according to the will of the Father. (Clement in Stromata Book V Ch. 14, 190 AD).
ترجمہ: میں تثلیٹ کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کو نہیں مانتااور اس ترتیب میں روح القدس تیسرے درجے پر ہے، بیٹا دوسرے درجے پر جس کے وسیلہ سے تمام چیزیں باپ کی مرضی سے وجود میں آئیں۔
مقدس طرطالین (160-225 م) تثلیث کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
We define that they are two, the Father and the Son, and three with the Holy Spirit, and this number is made by the pattern of salvation which brings about unity in trinity, interrelating the three, the Father, the Son and the Holy Spirit. They are of one substance and power, because there is one God from whom these degrees, forms and kinds devolve in the name of Father, Son and Holy Spirit. (Against Praxeas p 156)
ترجمہ: ہم بیان کرتے ہیں کہ وہ دو ہیں یعنی باپ اور بیٹا ،اوریہ روح القدس کے ساتھ مل کر تین ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد نجات کے منصوبہ کے عین مطابق ہیں۔ یہ تثلیت میں توحید کو
پیش کرتی ہے، تینوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے، یعنی باپ ، بیٹے اور روح القدس کو۔ یہ جوہر اور طاقت میں ایک ہیں کیونکہ خدا ایک ہے جس میں سے یہ تینوں حالتیں، شکلیں اور اقسام باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے ظاہر ہوتی ہیں۔ طرطالین مزید لکھتا ہے:
The connection of the Father in the Son, the Son in the Paraclete, produces three coherent persons, who are yet distinct one from another. These three are one essence not one person, as it is said, \'I and my Father are one,\' in respect of unity of substance, not singularity of number. Yet we have never given vent to the phrases two Gods or two Lords; not that it is untrue the Father is God, the Son is God, the Spirit is God. (Ante-Nicene Fathers vol. 3 p 621)
ترجمہ: باپ کا بیٹے سے تعلق اور بیٹے کا روح القدس سے تعلق تین ہم آہنگ شخصیات کو ظاہر کرتا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ یہ تینوں جوہر ی لحاظ سے ایک ہیں شخصی لحاظ سے نہیں ۔ اسی لئے یہ کہا گیاکہ میں اور باپ ایک ہیں، یہاں جوہر کے ایک ہونے کی بات ہے تعداد کے ایک ہونے کی نہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی خدا کے دو ہونے یا خداوند کے دو ہونے کی بات کی ہے اور نہ ہی یہ جھوٹ ہے کہ باپ خدا ہے، بیٹا خدا ہے، روح القدس خدا ہے،( جوہری اعتبار سے یہ تینوں خدا ہیں)۔
مقدس گریگری 262 م میں تثلیث کویوں بیان کرتا ہے:
But some treat the Holy Trinity in an awful manner, when they confidently assert that there are not three persons. But we believe that three persons namely, Father, Son and Holy Spirit are declared to possess the one Godhead. If they say how can there be three Persons, and how but one Divinity? We shall make this reply: that there are indeed three persons, inasmuch as there is one person of God the Father, and one of the Lord the Son, and one of the Holy Spirit and yet there is one divinity, inasmuch as there is one substance in the Trinity. (A Sectional Confession of Faith, p 14, 262 AD).
ترجمہ: ۔۔۔ لیکن کچھ لوگ مقدس تثلیث کو بری طرح بیان کرتے ہیں جب وہ پر اعتماد طریقے سے کہتے ہیں کہ تثلیث تین شخصیات نہیں لیکن ہم یہ مانتے اور ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تین شخصیات ہی ہیں جن کے نام باپ ، بیٹا اور روح القدس ہیں یہی تین خدا کے مکمل وجود کا اظہار ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ کہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی واحد ذات میں تین اشخاص موجود ہوں تو ہمارا جواب یہی ہو گا ہے بے شک یہ تین ہی ہیں یعنی ایک شخص خدا باپ کی صورت میں، ایک خداوند یسوع مسیح کی صورت میں اور ایک روح القدس کی صورت میں لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ تثلیث کا ایک ہی جوہر ہے۔
مقدس اتھناسیس (296-373 م) تثلیث کو یوں بیان کرتا ہے: تثلیث اعداد و شمار کا نام نہیں بلکہ یہ سچائی اور اصل وجود کا اظہار ہے۔ جس طرح باپ جو ہے سو ہے اسی طرح اس کا کلمہ بھی ایک ہے اور روح القدس بھی حقیقی وجود رکھتا ہے۔ پس کلیسیائی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تین الگ الگ شخصیات ہیں اور ان کا جوہر ایک ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں بھی ایک ہیں، تعداد میں نہیں بلکہ جوہری لحاظ سے۔
آئیے آخر میں اس عقیدے کو چند دُنیا وی عقلی دلا ئل سے بھی سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں ۔ایٹم کی مثال پر غو ر کریں ۔ایٹم الیکٹران پرو ٹان اور نیو ٹران پر مشتمل ہو تا ہے ، یہ تینوں اجزاء جدا گا نہ حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ؛ نہ تو الیکٹران ایٹم ہے، نہ نیو ٹرا ن ایٹم ہے اور نہ پرو ٹان ایٹم ہے بلکہ یہ باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ۔ یہ تینو ں اجزا ء تقسیم نہیں ہو تے بالکل اسی طر ح با پ اور بیٹا اور رُوح القدس بھی تقسیم نہیں ہوتے۔ جب کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے عنصر یعنی ایٹم کی واحدت میں کثرت موجود ہے تو پھر خدا کی ذات میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ سو رج کی مثال پرغورکریں ،سو ر ج دیکھنے کو ایک ہی ہے لیکن آ گ ، رو شنی اور حرا رت اس کے بنیا دی اجزا ء ہیں ۔ انڈے کی مثال دیکھیں انڈہ کہنے کو تو ایک ہے لیکن خو ل زردی اور سفیدی پر مشتمل ہو تا ہے ۔ پانی کو دیکھیں جو ٹھوس مائع اور گیس کی تین حالتیں اختیار کرتا ہے۔ الغر ض ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو تثلیث فی التو حید کو دنیا وی زندگی سے ثا بت کر تی ہیں ۔ عقیدہ تثلیث تین خدا ؤ ں کی تعلیم ہر گز نہیں بلکہ خدا صرف ایک ہی ہے جو سب کا خا لق و مالک ہے ۔ عقیدہ تثلیث فی التو حید سے مراد خدا 1=3 + 1 1+ نہیں بلکہ اس سے مرا د خدا 1x1x1=1ہے فرق بس غو ر سے سمجھنے کا ہے ۔فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے بائبلی، تاریخی و عقلی دلائل آپ کے سامنے ہیں۔ دعا ہے خدا آپ کو اپنے گہرے بھید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہر ایک دو ر کا مذ ہب نیا خدا لا یا
کریں تو ہم مگر کس خدا کی با ت کریں ؟
غیر اقوا م میں خدا کے متعلق تصورات یکسا ں نہیں رہے۔دا نی ایل نبی کے دو ر میں نبو کد نصر با دشا ہ نے سو نے کی مو رت بنوا ئی اور مقررہ وقت پر اُے سجدہ کر نے کا حکم بھی دیا، سجد ہ نہ کر نے کی صو ر ت میں انسا ن کو آ گ کی جلتی بھٹی میں ڈالنے کی سزاتجویز کی گئی لیکن خدا کے لو گو ں سدرک ، میسک اور عبد نجو نے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کیا۔ بے شک اُن پر سزا کا اطلا ق ہوا لیکن خدا نے اپنا ہا تھ بڑھا کر اُنہیں بچا یا اوربا دشا ہ چلا اٹھا کہ سدرک اور میسک اور عبد نجوکا خدا مبا رک ہوکیونکہ کوئی دوسرا معبو د نہیں جو اس طر ح رہا ئی دے سکے (دا نی ایل ۳ باب )۔
پروفیسر دانی ایل بخش اپنی کتاب جلالی کلیسیا میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیت میں خدا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ خدا اتنا دور اور اتنا پاک ہے کہ انسان کی اس تک براہِ راست رسائی مشکل ہے ۔ا ن کے نزدیک میکائیل فرشتہ ان کی شفاعت کرتا ہے ۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہوداہ نام ایک ربی نے بنی اسرائیل کو مشورہ دیا کہ وہ ارامی زبان میں دُعا نہ کریں کیونکہ فرشتے اس زبان کو نہیں سمجھتے ۔کچھ یہودی علما ء نے نصیحت کی کہ دُعا براہِ راست خدا سے کرنی چاہیے ۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ جب یہودی لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ فرشتوں کی پرستش اور تعظیم کا تصور لائے ۔ ان کے لئے یہ آزمائش تھی کہ پرانے خداؤں کو فرشتوں کے نام سے پکاریں اور ان کی پرستش کریں ۔ نیز یونانی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی درمیانی کی ضرورت لازمی ہے اور فرشتے اس کام میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ (بحوالہ جلالی کلیسیا از پروفیسر دانی ایل بخش ص ۲۸۷)۔
بیان کردہ حوالا سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں خدا کے متعلق نظریات درست نہ تھے اور یہی نظریات ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بھی ظاہر ہوئے۔ مقدس یوحنا بھی اسی لئے فرشتے کے آگے جھکا لیکن فرشتے نے فوراً اس عمل کی درستی کی ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب سے ہمیں اس ضمن میں ایک اور ثبوت ملتا ہے جب پطرس رسول کرنیلیس صوبہ دار کے گھر گیا تو کرنیلیس نے اسے سجدہ کیا لیکن پطرس نے فوراً اس کے ایمان کی درستگی کی: ’’ جب پطر س اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اُس کا استقبال کیا اور اُس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ْ لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو مَیں بھی تو انسان ہوں۔ْ ‘‘ (اعمال ۱۰:۲۵،۲۶)۔
مسیحیت میں خدا کا تصور دیگر اقوام سے قطعی مختلف تو نہیں لیکن منفر د ضرو ر ہے ۔ خدا کو ہر بات اور ہر کا م میں اولین ترجیح حا صل ہے اور اس کی با دشا ہت
جسما نی نہیں بلکہ رُو حا نی ہے ۔ Blaise Pascal اس تصور کو یو ں بیان کر تا ہے :
The Christians\' God does not consist merely of a God who is the author of mathematical truths, but the God of Abraham, the God of Isaac and the God of Jacob. The God of Christians is a God of love and consolation; He is a God who makes them inwardly aware of their wretchedness and His infinite Mercy; who united Himslef with them in the depths of their soul; who fills it with humility, joy, confidence and love, who makes them incapable of having any other end but Him.
یسوع مسیح کے دور میں خدا کا نام لینا ممنوع سمجھا جاتا تھا اور خدا کو احتراماً بنی اسرائیل کا قدوس کہا جاتا تھا۔ اگر ہم خدا اور بنی اسرائیل کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا اپنے روح کے ذریعے ان سے کلام کرتا تھا یعنی دونوں کے درمیان روح القدس ایک رابطہ تھا۔ جب ہم یسوع کی تعلیمات کی طرف آئیں تو وہ خدا کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اسے باپ کہہ کر پکارتا اور دوسروں کو بھی کہتا ہے کہ اسے باپ کہہ کر پکاریں ۔ یہ خدا سے اس کے قریبی تعلق کا اظہار بھی ہے۔ پس خدا، یسوع مسیح اور روح القدس بائبل مقدس کا بنیادی جز ہیں۔ انہی تینوں کی اشتراکیت کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔
عقیدہ تثلیث فی التوحید مسیحی علم الہیات کے مشکل ترین عقائد میں سے ایک ہے۔ اس عقیدے کے مطابق خدا کی ذات تین اشخاص یعنی باپ اور بیٹے اور روح القدس کا مجموعہ ہے لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ ان تینوں اشخاص کا جوہر ایک ہے۔ آج بہت سے مسیحی تثلیث فی التو حیدسے منکرہیں ۔اِس عقیدے کے مطابق مسیحی تین خدا ؤ ں کو مانتے ہیں یعنی باپ کو،بیٹے کو اور رُوح القدس کو۔ یہ اس با ت پر بضد ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور اس کا نا م یہووا ہؔ ہے ۔بعض عقلمندوں کے مطابق باپ اور بیٹا اور روح القدس یسوع کے ہی تین روپ ہیں جن کا نام یسوع ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جسے یہ لو گ سمجھنے یادُو ر کر نے کی کو شش نہیں کر تے بلکہ تنقید برا ئے تنقید کو شعا ر بنا ئے ہو ئے ہیں۔یہ تثلیث کو ان ا لفاظ میں رد کرتے ہیں:
Never was there a more deceptive doctrine advanced than that of the trinity. It could have originated only in one mind, and that the mind of Satan the Devil. (Reconciliation 1928, p 101).
Therefore, those who accept the Bible as God\'s Word do not worship a Trinity consisting of three persons or gods in one. In fact, the word Trinity does not even appear in the Bible. (Knowledge that Leads to Everlasting Life 1995. p 31).
Trinity is inadequate and a departure from the consistent and empathic Biblical revelation of God being one. (www.upci.org/about).
بائبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں خدا کے ایک ہو نے کے متعلق بیان کر تی ہے : ’ ’خداوند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘ (استشنا ۶:۴) مزید دیکھئے :’ ’یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرا ئیل سن! خدا وند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے۔ْ ‘‘(مر قس ۱۲:۲۹) در حقیقت مسیحی ذا تِ خدا میں تین اقا نیم یعنی با پ ، بیٹا اور رو ح القدس کے قا ئل ہیں ۔ اب اعترا ض ہے ان تینوں کے میل کا کہ یہ تینو ں ایک دو سرے سے اس قدر گہر ا با ہمی ربط کیو ں رکھتے ہیں؟ یہ تینو ں شخصیا ت قدیم ہیں حا دث نہیں اور یہی وہ قدیم اور گہرا تعلق ہے جسے تثلیث کا نام دیا گیا ہے ۔اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا تین ہیں لیکن کیا کیا جا ئے ، اعترا ض کر نے کا کو ئی نہ کو ئی بہا نہ تو ہر کو ئی ڈھو نڈتا ہے ۔ اگر چہ بائبل مقدس میں تثلیث کا لفظ نہیں ملتا لیکن با رہا ایسے شواہد ضرو ر ملتے ہیں جو تثلیث کو ثا بت کر تے ہیں، انہی شواہد کو اکھٹا کر کے ایک نام دے دیا گیا ہے ۔ جیسے بچے کی پیدائش کے بعد اُس کا نام تجویز کیاجاتاہے مگر پیدائش سے قبل بچے کا وجود ہوتا ضرور ہے بالکل اُسی طرح باپ ، بیٹے اور روح القدس کے وجود کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اِن کا مشترکہ وجودکبھی تھاہی نہیں۔ بائبل کی بات کریں تو بائبل میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کا نام یسوع ہے نہ ہی یہ لکھا گیا ہے کہ یہ تنیوں ایک ہی شخص کے مختلف روپ ہیں۔
باپ، بیٹا اور روح القدس تنیوں جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ نہ تو باپ بیٹا ہے نہ بیٹا باپ، نہ باپ روح القدس ہے نہ بیٹا روح القدس ہے۔ یہ تینوں جدا بھی ہیں اور ایک بھی ہیں کیونکہ ان کا جوہر ایک ہے۔
3
(یوحنا ۸: ۱۶: ’’اور اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا۔ْ ‘‘ یوحنا ۱۴: ۲۶: ’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گااور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلا ئے گا۔ْ‘‘ اعمال ۱۰: ۳۸: ’’ کہ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا ۔وہ بھلائی کرتا اور ان سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا۔ْ‘‘)
تثلیث مسیحی ایما ن کی بنیا د ہے ۔ مسیح پر ایمان اُسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب اُس کے سا تھ خدا اور رُو ح القدس کو بھی تسلیم کیا جا ئے ۔ مسیحی ایمان میں شامل ہو نے کا بپتسمہ در اصل ہے ہی تثلیث کا بپتسمہ ۔ یسو ع مسیح خو د تثلیث کے نام پر قو مو ں کو مسیحی ایما ن میں شامل کر نے کا حکم دیتا ہے :’’ پس تم جا کر سب قو مو ں کو شا گر د بنا ؤ اور ان کو با پ اور بیٹے اور رُو ح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْ‘‘(متی ۲۸:۱۹) یعنی یہ تینو ں اقا نیم مسیحی ایمان کا بنیا دی جز ہیں۔ اس آ یت سے ایک اور بڑا اعترا ض ختم ہو جا تا ہے کہ یسوع مسیح صر ف بنی اسرا ئیل کے لئے آ یا یہا ں سب قو مو ں کو شا گرد بنا نے کا حکم دیا گیا صرف بنی اسرا ئیل کو نہیں ۔
بائبل مقدس میں بے شمار جگہوں پر تثلیث کا ذکر موجود ہے لیکن لفظ تثلیث کا نہ لکھا جانا ہی اعتراض کو بنیاد بخشتا ہے۔میں یہاں ان حوالوں میں سے چند ایک پیش کرنا چاہو ں گا:با ئبل مقدس کے مطابق دنیا کی ابتدا ہی تثلیث سے ہو ئی :’ خدا (باپ) نے ابتدا میں زمین و آ سمان کو پیدا کیا۔ اور زمین ویرا ن اور سنسان تھی اور گہرا ؤ کے اوپر اندھیرا تھا اورخدا کی رُو ح (رُو ح القدس ) پا نی کی سطح پر جنبش کر تی تھی ۔اور خدا نے کہا(خدا کاکلمہ مسیح) ، رو شنی ہو جا اور رو شنی ہو گئی۔‘ (بمطا بق پیدا ئش ۱:۱۔۳) بائبل مقدس کی پہلی تین آ یا ت ہی تثلیث کے تینو ں اقا نیم کو ثا بت کرتی ہیں ۔یہا ں خدا با پ پہلے خود ہے پھر رُو ح القدس سا تھ ہے اور پھر اپنے کلمے یعنی یسوع مسیح کے سا تھ ہے ۔ کتنی خو بصو رت ابتدا ہے بائبل مقدس کی اور اس جہا ن کی۔ کیاآ ج سے پہلے آپ نے ان آ یا ت پر اس طرح غو رکیا تھا ؟
عہد نا مہ عتیق و جدید دو نو ں میں با رہا ان تینو ں شخصیات کا ذکر آ تا ہے ۔ با ئبل مقدس سے ایک بڑی دلچسپ آ یت پیش کر نا چا ہو ں گا : ’ ’ اور خداوند نے کہا کہ دیکھو انسا ن نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی ما نند ہو گیا۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۳:۲۲)۔جب انسا ن کی تخلیق کا ذکر ہوا تب بھی جمع صیغہ استعمال ہوا :’ ’پھر خدا نے کہا کہ ہم انسا ن کو اپنی صو رت پر اپنی شبیہ کی ما نند بنا ئیں۔ْ ‘‘ (پیدا ئش ۱:۲۶)۔ یہا ں جمع صیغہ سے مرا د خدا خود، یسو ع مسیح اور رُو ح القدس ہے جبکہ یہ کہتے ہیں یہاں خدا فرشتوں سے مخاطب ہے ، بھلا خدا کا فرشتوں سے صلاح لینا بنتا ہے؟ مقدس جسٹن شہیدسن 74 م میں برنباس کو لکھے گئے خط میں اس غلط فہمی کو دور کرتا ہے:
And further, my brethren, if the Lord Jesus endured to suffer for our soul, He being the Lord of all the world, to whom God said that at the foundation of the world, let us make man after Our image, and after Our likeness,
understand how it was that He endured to suffer at the hand of men. (Justin\'s Letter to Barnabas Ch. 5, 74 AD).
ترجمہ: بھائیو! اگر خداوند یسوع نے ہماری روح کے لئے دکھ سہا تو وہ جانتا تھا کہ اسے کیوں اورکیسے آدمیوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھانا ہے کیونکہ وہ جہان کا مالک تھا اور اسی کو خدا نے جہان کے بنیاد رکھتے وقت کہا کہ آؤ ہم انسان کو اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔
’’ اور تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی ملکر سچی ہوتی ہے ۔ْ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔ْ‘‘ (یوحنا ۸: ۱۷،۱۸)۔ اگر باپ اور بیٹا ایک ہی شخص ہیں تو پھر یہ دو گواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
’’ اس وقت میں نے خداوند کی آواز سنی جس نے فرمایا میں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائیگا؟۔ْ‘‘ ( یسعیاہ ۶: ۸)۔ یہاں پہلے واحد اور بعد میں جمع کا صیغہ ذاتِ خدا میں موجود کثرت کا اظہار ہے۔ پرانے عہد نامہ میں تقریباً ستائیس سو سے زائد مقامات پر خدا کے لئے الوہیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع صیغہ ہے۔ الوہیم الوہ کی جمع ہے جو خدا کی ذات میں کثرت کا اظہار ہے۔ پیدائش ۳:۲۲ کے مطابق خدا نے کہا کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ ہم میں سے ایک سے کیا مراد ہے؟
’’ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قُدوس قُدوس قُدوس رب الافواج ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۶: ۳)۔ یہاں تین مرتبہ قُدوس باپ اور بیٹے اور روح القدس کو جلال دینے کے لئے کہا گیا۔
’’ اور یسوع بپتسما لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیااور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ْ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔ْ‘‘ (متی ۳: ۱۶،۱۷)۔ یہاں باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں کی جداگانہ حیثیت کا ثبوت موجودہے۔یہ کسی صورت بھی ایک وقت میں ایک ہی شخص کے تین روپ نہیں ہو سکتے۔
’’ اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگااور خدا تعالےٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ْ ‘‘ ( لوقا ۱:۳۵) ۔ خدا ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی اکٹھے ہیں۔
’’ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گاوہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔ْ ‘‘ ( یوحنا ۱۴: ۲۶)۔ باپ ، بیٹا اور روح القدس یہاں بھی موجود ہیں۔
’’ مگر اس نے روح القدس سے معمور ہو کر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھ کر ۔ْ کہا کہ دیکھو! میں آسمان کو کھلا اور ابنِ آدم کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں۔ْ ‘‘ ( اعمال ۷: ۵۵، ۵۶)۔ ستفنس نے یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا یعنی دو شخصیات کا ذکر ملتا ہے صرف یسوع کا ہی نہیں اور یسوع خود ہی اپنے دہنے ہاتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔
’’ خداوند یسوع مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح القدس کی شراکت تم سب کے ساتھ ہوتی رہے۔ْ‘‘ ( ۲ کرنتھیوں ۱۳:۱۴)۔ اگر یہ ایک ہی شخص یعنی یسوع کے نام ہوتے تو ان کو ہر جگہ یسوع کیوں نہ لکھا گیا بلکہ تینوں کو الگ الگ ناموں سے پکارا گیا۔
پس بائبل مقدس میں بہت سے مقامات پر ان تینوں شخصیات کے باہمی ربط اور ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے ، اسی ربط و ہم آہنگی کو تثلیث کا نام دیا گیا ہے۔یاد رکھیں نہ باپ بیٹا ہو سکتا ہے نہ بیٹا باپ یہ ایک بدعت سے جسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔نئے عہد نامہ میں ایک بار بھی یسوع کو باپ کہہ کر نہیں پکارا گیابلکہ ہر جگہ بیٹا ہی کہا گیا ہے۔ صرف خدا باپ کو ہی باپ کہا گیا ہے کہیں بیٹا نہیں کہا گیا نہ ہی روح القدس کو ان ناموں سے پکارا گیا ہے۔ تقریباً ۵۰ سے زائد آیات میں باپ اور بیٹے کا مشترکہ ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ اگر باپ ہی بیٹا ہے یا بیٹا باپ ہے پھر یہ سب آیات کس لئے ہیں؟ خدا کیوں ہمیں چکر دے رہا ہے؟
آئیے تثلیث کے تینوں اقانیم کی اشتراکیت کو بائبل مقدس سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تثلیث کو تاریخی لحاظ سے بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اعتراض کے مطابق یہ خیال شیطان کے ذہن کی پیداوار ہے جبکہ رسول تثلیث کے قائل تھے جس کا انہوں نے مبہم الفاظ میں ذکر بھی کیا اور کچھ نے واضع طور پر تثلیث کا ذکر کیا۔ تثلیث کو بدعت قرار دے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 325 م میں نقایا کی کونسل میں ہوا، اس کا وجود پہلے نہ تھا اور نہ ہی کوئی اسے جانتا تھا۔ میں یہاں اس دعویٰ کو باآسانی غلط ثابت کر رہا ہوں کہ تثلیث کا آغاز نقایا کی کونسل سے ہوا کیونکہ میں یہاں سن 30 م سے 325 م تک مختلف مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں ، میں نے ان میں سے چند ایک کا با محاورہ اردو ترجمہ بھی کیاہے۔
مقدسین کی تحریروں سے اقتباسات پیش کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عہد نامہ عتیق کی آخری کتاب ملاکی 425 ق م میں تحریر کی گئی یعنی یسوع مسیح کی زمینی آمد سے صدیاں قبل پرانے عہد نامے کی کتب مکمل ہو چکی تھیں۔ نئے عہد نامے کی کتب تقریباً 96 سن مسیح میں مکمل ہوئیں جن میں سے آخری کتاب مکاشفہ ہے۔ سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ یسوع مسیح کو تقریباً 33 م میں مصلوب کیا گیا یعنی یہ حوالے انتہائی مستند ہیں۔
یہاں دوسوالوں کو ذہن میں رکھئے گاپہلا یہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس ایک ہی اہمیت کے حامل ہیں یا نہیں اور دوسرایہ کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس کسی ایک ہی شخصیت کے تین روپ یا نام ہیں یا نہیں:
There are neither three Fathers, or three Sons, or three Paracletes, but one Father, and one Son, and one Paraclete. Wherefore also the Lord, when He sent forth the apostles to make disciples of all nations, commanded them to baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Ghost, not unto one person having three names, nor into three persons who became incarnate, but into three possessed of equal honor. For there is One that became incarnate and that neither the father nor the Paraclete, but the Son only, who became so not in appearance or imagination, but in reality. For the Word became flesh. (Epistle of Ignatius to Philippians, Chapter 2 and 3, 30-107 AD).
ترجمہ: نہ تو تین باپ ہیں، نہ تین بیٹے اور نہ تین مددگار(روح القدس) لیکن ایک باپ اور ایک بیٹا اور ایک روح القدس۔ اسی لئے خداوند یسوع مسیح نے بھی رسولوں کو بھیجا کہ ساری قوموں سے شاگرد بنائیں اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دیں۔ صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں ، نہ ہی تین شخصیات کے نام سے جو مجسم ہوئے لیکن تین ایک ہی رتبے کے افراد کے نام سے۔ ان میں سے ایک ہی مجسم ہوا نہ باپ مجسم ہوا نہ روح القدس لیکن صرف بیٹاجس کی تجسیم تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہے، کیونکہ کلام ہی مجسم ہوا۔
صرف ایک کے نام سے نہیں جسکے تین نام ہوں یعنی صرف یسوع کے نام کا بپتسما درست نہیں بلکہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے۔نہ ہی ان تینوں کا ایک نام ہے۔ ابتدائی رسولوں نے بپتسمے کا طریقہ بھی بتایا ہے:
As regards baptism, baptize in this manner, having first given all the preceding instructions baptize in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Spirit and immerse three times in running water. (Didache: The Teachings of the Twelve Apostles, 60 AD).
ترجمہ: بپتسمے کے متعلق یہ ہے کہ اس طرح سے پبتسمہ دیا جائے۔ پہلے تمام ضروری ہدایات دی جائیں اور پھربپتسما دیا جائے باپ کے نام سے اور بیٹے کے نام سے اور روح القدس کے نام سے اور تین مرتبہ بہتے پانی میں ڈبکی دی جائے۔ Didache کلیسیائی رسومات و عبادات کے طریقہ کار کی سب سے پرانی اور مستند کتاب ہے ۔یہاں بھی ان تینوں کا ذکر ہے نہ کہ صرف یسوع کے نام سے بپتسمہ دینے کو کہا گیا ہے۔
In like manner also the three days which were before the luminaries are types of the Trinity of God, and His Word, and His Wisdom. (Theophilus to Autolycus II, 168 AD).
مقدس تھیفلس 168م میں تثلیث کا ذکر ان الفاظ میں کر رہا ہے:سورج اور چاند کی تخلیق سے پہلے جو تین دن تھے وہ تثلیث کی ہی حالتیں ہیں یعنی خدا کی، اس کے کلمے کی اور اس کی حکمت کی۔ یہاں لفظ تثلیث نقایا کی کونسل سے ۵۷ا سال قبل استعمال ہوا ہے۔
Church holds the Father to be God, and the Son God, and the Holy Spirit, and declare their union and their distinction in order. (Athenagoras A Plea for Christians 10:3, 160 AD).
مقدس اتھناگورس 160م میں لکھتا ہے کہ: کلیسیا باپ کو خدا مانتی، بیٹے اور روح القدس کی خدا مانتی اور ان کے اکٹھ اور ترتیب وار درجے پر ایمان رکھتی ہے۔ مقدس کلیمنٹ 190 م میں اسے بالکل واضح کرتا ہے:
I understand nothing else than the Holy Trinity to be meant; for the third is the Holy Spirit, and the Son is the second, by whom all things were made according to the will of the Father. (Clement in Stromata Book V Ch. 14, 190 AD).
ترجمہ: میں تثلیٹ کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کو نہیں مانتااور اس ترتیب میں روح القدس تیسرے درجے پر ہے، بیٹا دوسرے درجے پر جس کے وسیلہ سے تمام چیزیں باپ کی مرضی سے وجود میں آئیں۔
مقدس طرطالین (160-225 م) تثلیث کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
We define that they are two, the Father and the Son, and three with the Holy Spirit, and this number is made by the pattern of salvation which brings about unity in trinity, interrelating the three, the Father, the Son and the Holy Spirit. They are of one substance and power, because there is one God from whom these degrees, forms and kinds devolve in the name of Father, Son and Holy Spirit. (Against Praxeas p 156)
ترجمہ: ہم بیان کرتے ہیں کہ وہ دو ہیں یعنی باپ اور بیٹا ،اوریہ روح القدس کے ساتھ مل کر تین ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد نجات کے منصوبہ کے عین مطابق ہیں۔ یہ تثلیت میں توحید کو
پیش کرتی ہے، تینوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے، یعنی باپ ، بیٹے اور روح القدس کو۔ یہ جوہر اور طاقت میں ایک ہیں کیونکہ خدا ایک ہے جس میں سے یہ تینوں حالتیں، شکلیں اور اقسام باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے ظاہر ہوتی ہیں۔ طرطالین مزید لکھتا ہے:
The connection of the Father in the Son, the Son in the Paraclete, produces three coherent persons, who are yet distinct one from another. These three are one essence not one person, as it is said, \'I and my Father are one,\' in respect of unity of substance, not singularity of number. Yet we have never given vent to the phrases two Gods or two Lords; not that it is untrue the Father is God, the Son is God, the Spirit is God. (Ante-Nicene Fathers vol. 3 p 621)
ترجمہ: باپ کا بیٹے سے تعلق اور بیٹے کا روح القدس سے تعلق تین ہم آہنگ شخصیات کو ظاہر کرتا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ یہ تینوں جوہر ی لحاظ سے ایک ہیں شخصی لحاظ سے نہیں ۔ اسی لئے یہ کہا گیاکہ میں اور باپ ایک ہیں، یہاں جوہر کے ایک ہونے کی بات ہے تعداد کے ایک ہونے کی نہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی خدا کے دو ہونے یا خداوند کے دو ہونے کی بات کی ہے اور نہ ہی یہ جھوٹ ہے کہ باپ خدا ہے، بیٹا خدا ہے، روح القدس خدا ہے،( جوہری اعتبار سے یہ تینوں خدا ہیں)۔
مقدس گریگری 262 م میں تثلیث کویوں بیان کرتا ہے:
But some treat the Holy Trinity in an awful manner, when they confidently assert that there are not three persons. But we believe that three persons namely, Father, Son and Holy Spirit are declared to possess the one Godhead. If they say how can there be three Persons, and how but one Divinity? We shall make this reply: that there are indeed three persons, inasmuch as there is one person of God the Father, and one of the Lord the Son, and one of the Holy Spirit and yet there is one divinity, inasmuch as there is one substance in the Trinity. (A Sectional Confession of Faith, p 14, 262 AD).
ترجمہ: ۔۔۔ لیکن کچھ لوگ مقدس تثلیث کو بری طرح بیان کرتے ہیں جب وہ پر اعتماد طریقے سے کہتے ہیں کہ تثلیث تین شخصیات نہیں لیکن ہم یہ مانتے اور ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تین شخصیات ہی ہیں جن کے نام باپ ، بیٹا اور روح القدس ہیں یہی تین خدا کے مکمل وجود کا اظہار ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ کہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی واحد ذات میں تین اشخاص موجود ہوں تو ہمارا جواب یہی ہو گا ہے بے شک یہ تین ہی ہیں یعنی ایک شخص خدا باپ کی صورت میں، ایک خداوند یسوع مسیح کی صورت میں اور ایک روح القدس کی صورت میں لیکن خدا ایک ہی ہے کیونکہ تثلیث کا ایک ہی جوہر ہے۔
مقدس اتھناسیس (296-373 م) تثلیث کو یوں بیان کرتا ہے: تثلیث اعداد و شمار کا نام نہیں بلکہ یہ سچائی اور اصل وجود کا اظہار ہے۔ جس طرح باپ جو ہے سو ہے اسی طرح اس کا کلمہ بھی ایک ہے اور روح القدس بھی حقیقی وجود رکھتا ہے۔ پس کلیسیائی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تین الگ الگ شخصیات ہیں اور ان کا جوہر ایک ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں بھی ایک ہیں، تعداد میں نہیں بلکہ جوہری لحاظ سے۔
آئیے آخر میں اس عقیدے کو چند دُنیا وی عقلی دلا ئل سے بھی سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں ۔ایٹم کی مثال پر غو ر کریں ۔ایٹم الیکٹران پرو ٹان اور نیو ٹران پر مشتمل ہو تا ہے ، یہ تینوں اجزاء جدا گا نہ حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ؛ نہ تو الیکٹران ایٹم ہے، نہ نیو ٹرا ن ایٹم ہے اور نہ پرو ٹان ایٹم ہے بلکہ یہ باہم مل کر ایٹم بنا تے ہیں ۔ یہ تینو ں اجزا ء تقسیم نہیں ہو تے بالکل اسی طر ح با پ اور بیٹا اور رُوح القدس بھی تقسیم نہیں ہوتے۔ جب کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے عنصر یعنی ایٹم کی واحدت میں کثرت موجود ہے تو پھر خدا کی ذات میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ سو رج کی مثال پرغورکریں ،سو ر ج دیکھنے کو ایک ہی ہے لیکن آ گ ، رو شنی اور حرا رت اس کے بنیا دی اجزا ء ہیں ۔ انڈے کی مثال دیکھیں انڈہ کہنے کو تو ایک ہے لیکن خو ل زردی اور سفیدی پر مشتمل ہو تا ہے ۔ پانی کو دیکھیں جو ٹھوس مائع اور گیس کی تین حالتیں اختیار کرتا ہے۔ الغر ض ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو تثلیث فی التو حید کو دنیا وی زندگی سے ثا بت کر تی ہیں ۔ عقیدہ تثلیث تین خدا ؤ ں کی تعلیم ہر گز نہیں بلکہ خدا صرف ایک ہی ہے جو سب کا خا لق و مالک ہے ۔ عقیدہ تثلیث فی التو حید سے مراد خدا 1=3 + 1 1+ نہیں بلکہ اس سے مرا د خدا 1x1x1=1ہے فرق بس غو ر سے سمجھنے کا ہے ۔فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے بائبلی، تاریخی و عقلی دلائل آپ کے سامنے ہیں۔ دعا ہے خدا آپ کو اپنے گہرے بھید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment