راستبازی سے مرادسچائی اور ایمانداری سے خدا کے سکھائے ہوئے اصول و ضوابط کی فرمانبرداری کرنا ہے۔یہ گناہ کی ضد ہے اور اسے آسان الفاظ میں اسے خدا کی فرمانبرداری اور روز مرہ نیک زندگی کے معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے، لیکن یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ انسان بذاتِ خود راستباز نہیں ٹھہر سکتا بلکہ خُدا اُسے راستباز ٹھہراتا ہے۔ راستبازی نجات کا اہم ترین ستون ہے : ’’۔۔۔اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔ْ‘‘ (متی ۵: ۲۰)۔ ہمارے اعمال کی درستگی ہمیں نجات کی سمت لے جانے اور خدا کی بادشاہت کا فرزند بننے کے لئے تیار کر سکتی ہے۔راستبازی کلام مقدس کے مرکزی مضامین میں سے ہے اور انسان کو راست باز بننے کی تلقین بار ہا کی گئی ہے: ’’بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ْْ ‘‘ (متی ۶:۳۳)۔ خدا کی راستبازی یہ ہے کہ مسیح پر ایمان لا کر اسکے حکموں کے تابع ہو جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ ناراست کو کیسے راستباز بنایا جا سکتا ہے؟ گنہگار کو راستباز ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ خدا کے ساتھ ٹوٹی ہوئی رفاقت کا پھر سے بحال ہو جانا، کفارے کی بنیاد بھی یہی ہے۔ کلام مقدس ہماری رہنمائی کرتا ہے : ’’اسلئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ْ مگر اسکے فضل کے سبب سے اس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ْ‘‘ (رومیوں ۳: ۲۳،۲۴) ۔ ابراہام بھی اعمال سے نہیں بلکہ خدا پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرا۔ ’’ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہرینگے۔ْ‘‘ (رومیوں ۵: ۱۹)۔
ہم خدا کے فضلِ خاص سے راستباز تو ٹھہرائے گئے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم صرف مسیحی کہلوا کر ہی نجات یافتہ ہونے کا تمغہ سجا لیتے ہیں۔ہم ایمان لانے کے بعد حکموں پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں: ’’پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور انکو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْاور ان کو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا۔۔۔ ۔ْ‘‘ (متی۲۸:۱۹،۲۰) ۔ ہم راست اعمال نہیں کر رہے: ’’۔۔۔اور جب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے اندر آیا تو اُس نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا جو شادی کے لباس میں نہ تھا ۔ْ اور اس نے اس سے کہا میاں تُو شادی کی پوشاک پہنے بغیر یہاں کیونکر آگیا؟ لیکن اسکا منہ بند ہو گیا۔ْ اس پر بادشاہ نے خادموں سے کہا کہ اُسکے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو ۔ وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا۔ْ کیونکہ بلائے ہوئے بہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے۔ْ‘‘ (متی ۲۲: ۱۴ ۱) ۔ ہم بحثیت مسیحی بلائے تو گئے ہیں لیکن ہمیں برگزیدہ یا پسندیدہ بھی بننا ہے۔ ہمیں با دشاہی کی ضیافت میں شامل ہو نے کی اُمید تو ہے لیکن ہما را لبا س را ستبا زی کا نہیں ۔ ہما رے اعمال اِس لا ئق نہیں کہ ہم اُس بادشاہی کی ضیا فت میں شریک ہو سکیں ۔پس ہما ر اکر دا رو عمل ہما رے مسیحی ایمان کا آ ئینہ ہو ناچا ہئے ۔ اسی بات کو لے کر اعمال کی اہمیت پر انتہائی زور دیا جاتا ہے اور یسوع کی مخلصی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مخلصی کی اہمیت سے کوئی منکر نہیں اور اسے ہم کفارہ کے تحت دیکھ چکے ہیں لیکن اعمال کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ نیز بدعتی فرقوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نجا ت صرف اعمال سے ہے اسلئے ہمیں راستباز بننے اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ایک مسیحی صرف اِس لئے مسیحی ہے کہِ اس کے آباؤ اجداد مسیحی تھے۔یعنی اِس کی ذاتی زندگی میں مسیح کا تجربہ یا زندگی بخش بات نہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ مسیحی ہے لیکن یہ علم نہیں کہ وہ کیوں اور کیسے مسیحی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان خود سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن راست اعمال کرنا اس کا فرض ہے نجات کا حصول تب ہی سہل ہو گا۔ مسیح پر ایمان لے آنے یا غوطہ لینے کے بعد عمو ماً یہ سمجھا جا تا ہے کہ اب ہمیں کچھ کر نے کی ضرو رت نہیں بلکہ ہما ری نجا ت کا کام مکمل ہو چکا ہے، بس غو طہ لے لیں تو سیدھے جنتی ۔ یو ں یہ کفارے تک رسا ئی کا سا را عمل پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔اعمال کی اہمیت زیا دہ تر مسیحی بھولے بیٹھے ہیں ۔یہی وہ راستبازی ہے جو ہمیں برگزیدوں میں شامل کروا سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثر صر ف نجا ت کو جا نتے ہیں لیکن یہ نہیں جا نتے کہ نجات کس راہ سے گزر کرحاصل ہوگی :’ ’ تنگ دروا زہ سے دا خل ہو کیو نکہ و ہ دروازہ چو ڑا ہے اور وہ را ستہ کشا دہ ہے جو ہلا کت کو پہنچا تا ہے اور اس سے دا خل ہو نے والے بہت ہیں۔ْ کیونکہ وہ دروا زہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچا تا ہے اور اس کے پا نے والے تھو ڑے ہیں۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۳،۱۴) ۔
مسیحی ایمان میں شمولیت کے بعد یہی تصور کیا جا تا ہے کہ ہم بیٹھے بٹھائے نجات یا فتہ ہو چکے ہیں اس لئے روحانی مستقبل کے بارے میں گھبرا نے کی ضرو رت نہیں ۔ ان کے بقول Eat, Drink and be Happy کیونکہ یہوا ہ یریؔ نے نجات مہیا کر دی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر بائبل مقدس اس کی تر دید کیو ں کر تی ہے :’ ’ جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۲۶)۔ ہمیں خدا کے فضل کو غلط معنو ں میں نہیں لینا چا ہئے۔ہم پلک جھپکتے ہی نجا ت یافتہ لو گوں میں شامل ہو نا چا ہتے ہیں لیکن یہ اتنا آ سان بھی نہیں ۔ آج کتنے ہی مسیحی نجات یافتہ کہلوانے کے ساتھ ساتھ اپنی پرا نی ڈگرپر چل رہے ہیں،بھیس بدل گیا ہے روش نہیں :
بھیس بدلا کیا ہوا دل کا بدلنا چا ہئے
ایک دو با تیں نہیں بالکل بدلنا چا ہئے
ہم کیسے خدا کے حضور مقبول ہو سکتے ہیں؟ یقیناً اپنے مسیحی ایمان و راست عمل سے۔ یسوع مسیح اپنی زمینی زندگی میں ہمیں نیک اعمال کرنے کی تعلیم دیتا رہا۔ بے شک مسیحیت میں اعمال کی نوعیت بنی اسرائیل سے مختلف ہے۔ بنی اسرائیل کوراستبازی کے تناظر میں خدا اور انسان سے متعلقہ بہت پیچیدہ قسم کے قوائد و ضوابط کی پاسداری کرنا ضروری تھا۔ یسوع مسیح نے انسان کو خدا سے ملانے کے ساتھ ساتھ اس پیچیدگی کو بھی دور کر دیا۔ یعنی اُس نے انسان بن کر راستبازی و نجات کو انسانی سطح پر قائم کیا: ’ ’ جب ابن آ دم اپنے جلا ل میں آ ئیگا اور سب فرشتے اُس کے سا تھ آ ئیں گے ۔ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ْ اور سب قو میں اُس کے سامنے جمع کی جا ئیں گی اور وہ ایک کو دو سرے سے جدا کر یگا جیسے چر وا ہا بھیڑو ں کو بکریو ں سے جدا کر تا ہے۔ْ اور بھیڑو ں کو اپنے دہنے اور بکریو ں کو با ئیں کھڑا کر یگا ۔ْاُس وقت با دشا ہ اپنے د ہنی طر ف والو ں سے کہے گاآ ؤ میرے با پ کے مبا ر ک لو گو جو با دشا ہی بنا یِ عالم سے تمہا رے لئے تیا ر کی گئی ہے اُسے میرا ث میں لو۔ْکیو نکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھا نا کھلا یا ، میں پیا ساتھا تم نے مجھے پا نی پلا یا ، میں پر دیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتا را۔ْ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنا یا ، بیما ر تھا تم نے میری خبر لی ، قید میں تھا تم میرے پاس آ ئے ۔ْ تب را ستباز جو اب میں اُس سے کہیں گے اے خدا وند !ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھا نا کھلایا یا پیا سا دیکھ کر پا نی پلا یا؟۔ْ ہم نے کب تجھے پر دیسی دیکھ کر گھر میں اتا را ؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنا یا ؟ ۔ْ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آ ئے ؟ ۔ْ بادشا ہ جوا ب میں ان سے کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ چونکہ تم نے میرے اُن سب سے چھو ٹے بھا ئیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا اُس لئے میرے ہی سا تھ کیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۲۵:۳۱۔۴۰) ۔ یہاں انسان کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی راستبازی کے زمرے میں آگیا اور نجات کا سبب بنا۔
بے شک یہ میرا ث راستبازوں کے لئے ہے ناراستوں کے لیے نہیں اس لئے ہمیں راستباز بننا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے رو پو شی اختیار نہیں کر نی ۔ ہمیں مسیحی قو م کی رُوحا نی و جسما نی تر قی کے لئے مل جل کر کا م کر نا ہے ۔ لیکن ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم آ ج تک اپنی پرا نی انسا نیت سے با ہر ہی نہیں نکلے ۔ہمارا دشمن ابلیس ہما رے گھرو ں میں گھساہوا ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک بے سود اور نکمی الجھنو ں میں الجھے ہیں ۔ ہم اپنے مسیحی ایما ن پر خو د ہی کیچڑ اچھا ل رہے ہیں : ’ ’ کیونکہ بہتیرے ایسے ہیں جنکا ذکر میں نے تم سے بارہا کیا ہے اور اب بھی رو رو کر کہتا ہو ں کہ وہ اپنے چال چلن سے مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ْ ‘ ‘ (فلپیوں ۳: ۱۸)۔ ہمارا چال چلن بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
آسمانی وطن میں جانے کے لئے ہمیں سب سے پہلے تو بہ کی طر ف ما ئل ہو ناہے ۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کا پتہ ہی نہیں۔ اسی تناظر میں مجھے ایک مثال یاد آگئی جو ہماری ایمانی حالت کی بڑی اچھی وضاحت کرتی ہے۔ایک بادشاہ کے ناک پر کسی وجہ سے زخم ہو گیا۔بادشاہ نے بڑا علاج کروایا لیکن زخم ر وز بروز بڑھتا ہی گیا۔ بالآخر ایک طبیب نے مشورہ دیا کہ اگر ناک کو کاٹا نہ گیا تو زخم پورے جسم پر پھیل جائے گا جس کا علاج ناممکن ہو گا۔ بادشاہ یہ بات سُن کر نہایت پریشان ہواکہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اسی پریشانی کے عالم میں وزیرنے اُسے مشورہ دیا ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کا ناک کاٹتے ہی پورے ملک میںیہ قانون لاگو کیا جائے کہ سب لوگوں کے ناک کاٹے جائیں ،اسی طرح ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کا ناک بھی کاٹا جائے اور یہ قانون نسل در نسل قائم رہے۔ بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی اور شاہی فرمان کے ذریعے اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا گیا۔یوں اُس ملک کا ہر باشندہ نسل در نسل ناک کی نعمت سے محروم ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ اُس قوم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ انسانی جسم کے ایک اہم عضوسے محروم ہیں۔ بہت سے بادشاہ آئے اور گئے لیکن کسی نے بھی اس قانون کو بدلنے کی کوشش نہ کی، کرتے بھی کیسے وہ خود بھی ناک سے محروم تھے اور اس حوالے سے ان کا ضمیر بھی مردہ ہو چکا تھا۔ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد اُس ملک سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جس کا ناک درست قُدرتی حالت میں تھا۔ ناک کٹے لوگوں نے اس شخص کو دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا کہ اس کا ناک کیسا ہے؟
آج ہم نے بھی اپنی یہی حالت کرلی ہے۔ہم کسی راستباز مسیحی کو سمجھنے کی بجائے اُس پر ہنستے ہیں اگرچہ کمی ہماری اپنی ذات میں ہے۔ یہی وہ کلیسیائی بانجھ پن ہے جو ہمیں وراثت میں ملاہے اور ہم بھی اسے جُوں کا تُوں اگلی نسل کو سونپنے جا رہے ہیں۔ ہم ناک کٹوانے کی رسم نسل در نسل سر انجام دے کر حقیقی مسیحی روح کو بجھا چکے ہیں۔ ہمیں ہنسنا نہیں بلکہ اس حقیقت کو محسوس کرنا ہے کہ ہم ایمانی لحاظ سے معذور ہوکر اپنے روحانی مستقبل کو تاریک کر چکے ہیں۔ ابھی ہمیں اپنے گنا ہو ں کا احسا س نہیں ہو رہا ہما ری مثال اُس آدمی کی سی ہے جو پانی میں تیرتا ہے تو پا نی کا بو جھ محسو س نہیں کر تا اگر وہی آ دمی پا نی سے با ہر نکل کر دیکھے تو ایک گلاس پا نی کا وزن بھی محسو س کر ے گا۔ ہم بھی گنا ہ میں تیر رہے ہیں اور ان گنا ہوں کا بو جھ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا اگر ہم اِن گنا ہو ں سے با ہر نکلیں تو پھر ہمیں چھو ٹے سے چھو ٹے گنا ہ کا بھی احسا س ہو گا ،یہی وہ احسا س ہے جو تو بہ کی طر ف ما ئل کر کے نجات کی طرف لے جا تا ہے ۔بہت سے طے شدہ مسیحی رُو ح القدس کے دعویدا ر ہو نے کے سا تھ ساتھ اپنے اعمال سے مسیحی ہونے کی نفی کر رہے ہیں ۔ کیا یہی ہیں وہ رُو ح القدس کے فضا ئل جو با ئبل مقدس بیان کر رہی ہے ؟ : ’ ’مگر رُوح کا پھل محبت، خو شی، اطمینان، تحمل ، مہر با نی ، نیکی، ایمانداری، حلم، پر ہیز گا ری ہے۔ْ ‘ ‘ (گلتیو ں ۵:۲۲،۲۳)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے بیٹے کو با ر بار مصلو ب کر کے اعلا نیہ ذلیل کر تے ہیں (عبرا نیوں ۶:۶)۔ یہ مسیح پر ایما ن تو رکھتے ہیں مگر سو فی صد نہیں ۔ یہ بھیڑو ں کی شکل میں بھیڑیے ہیں ۔ یہ لو گو ں کے سامنے غیر زبا نیں اور بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے توکر تے ہیں لیکن ان کے اندر لا لچ کی رُو ح بڑی کا میابی سے عمل کر تی ہے ۔ انہیں مسیحیت کی کو ئی فکر نہیں بلکہ یہ آ پس کے جھگڑو ں میں ہی الجھے ہو ئے ہیں جن کا نتیجہ عا م کلیسیا ئی رکن کی کلیسیا سے بد ظنی ہے ۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا حقیقی مسیحی وجود ناجانے کہاں کھو گیاہے؟ کیا غلامی ہی ہمارا مستقبل ہے؟ کیا مذہبی آمر ہی قیامت اور زندگی ہے؟ کیا کوئی ہمت والاNo Sir! نہیں کہہ سکتا؟ ہم اپنی ڈور انسانی ہاتھوں میں کیوں سونپ رہے ہیں؟ ہم مشترکہ مفاد کے لئے کیوں نہیں سوچتے؟ ہم کیوں وقت کو نہیں پہچان رہے؟ ہم کیوں مُردہ قوموں کی طرح اِسی دُنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں؟ آخر ہم کب تک مردہ ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ کیا ہم معاشی و مذہبی استحصال کے لئے ہی چُنے گئے ہیں؟ غیر تو غیر، ہمارے اپنے رہنما بھی تعصب کی عینک لگائے ہماری زبوں حالی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔حیرت ہے یہ اِسی مسیحیت کی چھاپ سجائے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور پھر انہی مسیحیوں سے رُوپوشی اختیار کر رہے ہیں۔
مسیحیت انساینت کی قدر کرنا سکھاتی ہے اور یہی راستبازی ہے۔ لوقا ۱۰ باب میں جب شرع کا عالم نجات کی راہ پوچھتا ہے تو یسوع انسانیت سے محبت کو خدا کے بعد اولین ترجیح دیتا ہے: ’’ اُس نے اس سے کہا توریت میں کیا لکھا ہے؟ تو کس طرح پڑھتا ہے؟ ۔ْ اس سے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ْ اس نے اس سے کہا تو نے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر تو تُو جیئیگا۔ْ‘‘ آگے چل کے یسوع ہمیں پڑوسی کی شناخت بھی کرواتا ہے: ’’ یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلیمؔ سے یریحوؔ کی طرف جا رہا تھاکہ ڈاکوؤں میں گھِر گیا۔ انیوں نے اس کے کپڑے اتا ر لئے اور مارا بھی اور ادھ مؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ْ اتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ اسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اس نے ترس کھایا۔ْ اور اس کے پاس آکر اُسکے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اس کی خبر گیری کی۔ْ دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دئے اور کہا اس کی خبر گیری کرنا اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہو گا میں پھر آ کر تجھے ادا کردوں گا۔ْاِن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوؤں میں گھِر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟۔ْ اُس نے کہا وہ جس نے اُس پر رحم کیا ۔ یسوع نے اس سے کہا جا تُو بھی ایسا ہی کر۔ْ‘‘ کیا ہم اپنے پڑوسی کا خیال رکھ رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم اپنے ہم جنس سے روپوشی اختیار کر رہے ہیں جو کسی طور بھی راستبازی نہیں۔
ہمیں راستبازی اور ریاکاری میں فرق جاننا بھی ضروری ہے کیونکہ معاشرے میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ راستبازی ہمیں نجات کی طرف لے جاتی ہے جبکہ ریاکاری نجات سے محروم کرتی ہے۔ریاکاری یا Hypocrisyکی مذمت یسوع مسیح نے بارہا بڑے سخت الفاظ میں کی ۔ یسوع مسیح نے فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کرتے وقت اکثر اوقات لفظ ریا کار استعمال کیا ۔ ریاکاری زمانۂ قدیم سے چلی آرہی ہے اورآج مسیحیت میں بھی اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ بہت سے ریاکار مسیحی زندگی کی دوڑمیں سبقت لئے ہوئے ہیں، انہیں ذاتی مفاد عزیز ہے چاہے کوئی جیے یا مرے ۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ کئی رُوپ بدلتے ہیں۔اگر ہم چند لمحات کے لئے اپنی زندگیوں پر غور کریں تو اپنے آپ کو ریاکاروں سے کچھ کم نہیں پائیں گے ۔ہمیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ہم اپنے آپ کو پاکیزہ اور دوسرے کو حقیر جانتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری کسی کمی کی نشان دہی کردے تو ہم جواباً کوئی جواز پیش کر دیتے ہیں ۔ ہم معاشرے سے اجر تو پانا چاہتے ہیں مگر معاشرے کو کچھ اچھا دینا نہیں چاہتے۔ہم اپنے نیک اعمال کی تشہیر ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ عزیزو! یہ راستبازی نہیں ریاکاری ہے۔
جھوٹ راستبازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہم جائز ناجائز چھوٹے یا بڑے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں حننیاہ اور سفیرہ کو جھوت کی کیا سزا ملی؟ مجھے جھوٹ کے حوالے سے ایک کہانی یاد آ گئی۔ کسی گرجا گھر میں پادری صاحب نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگلے اتوار میں جھوٹ کے متعلق پیغا م دو ں گاکیونکہ یہ ہماری زندگیوں کاایک ایسا حصہ ہے جس کی وجہ سے ہم روحانی طور پر ترقی نہیں کر رہے ، میری گذارش ہو گی کہ آپ مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کر آئیں۔ اتوار آ گیا اور پادری صاحب نے جماعت سے سوال کیا کہ پچھلے اتوارمیں نے مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کرآنے کو کہا تھا تو آج کون کون یہ باب پڑھ کر آیا ہے؟ جماعت میں سے اکثریت نے ہاتھ بلند کئے۔ یہ دیکھ کر پادری صاحب مسکرائے اور بولے مقدس مرقس کی انجیل میں صرف ۱۶ باب ہیں ، اب میں جھوٹ کے گناہ پر پیغام شروع کرتا ہوں۔ بے شک جھوٹ ایک اہم بیماری ہے جو ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکا ہے۔عزیزو! یہا ں ایک لمحے کو رکیں اور سوچیں کہ ہم روزانہ کتنے جھوٹ بولتے ہیں؟
آ ج ایک راستباز مسیحی تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ بہت سے مسیحی خود مسیحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔A.T.Schofieldنے اپنی کتاب The Knowledge of Godمیں مسیحیوں کی اس حالت کا یوں تذکرہ کیا ہے:
The half-hearted policy of present day Christians in trusting God with a half trust, and believing in their Scriptures with a half faith, has led to their being half-and-half all around, and wholehearted in nothing. You see in the world the gambler absorbed in bridge, the sportsman in shooting, the golfer in the links, the racing man in the turf, the society woman in fashion, honestly and wholeheartedly; but where is the Christian who is absorbed in Christianity? To whom the fact of God is the greatest fact, the truth of the Scriptures the greatest truth, the love of the Divine the all absorbing passion?
گو یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ مسیحیت کو جتنا نقصان خود مسیحیوں نے پہنچایا ہے کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا، اسی لئے مسیحیت کی اصل شکل مسخ ہوچکی ہے۔کسی کو پتہ ہی نہیں کہ مسیحیت کی اصل رُوح کیا ہے اور اگر کسی کو پتہ ہے بھی تو وہ سسٹم سے خوف زدہ ہوکر اپنی آواز بلند نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے خود اُس کے گھروالے ہی اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ یاد رکھئے! عدالت گھر والوں سے ہی شروع ہوگی، ہمیںیسوع کا وفادار سپاہی بن کر اُن مسیحیوں کے خلاف لڑنا ہے جو مسیحیت کے خلاف لڑرہے ہیں۔ موجودہ مسیحی ،مسیح کی باتوں کی بہ نسبت شیطان کی باتوں کو ترجیح دے کر مسیحیت کے خلاف صف آراء ہیں اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ آج بہت سے مسیحی گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، قبروں کی پوجا کی جاتی ہے اور پیروں فقیروں کی درگاہوں پر حاضری دی جاتی ہے۔ بت پرستی کی یہ قسم مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی، یہ بغاوت کی گھنا ؤنی قسم ہے ۔ کلامِ مقدس بھی اس کی تصدیق کرتا ہے: ’’ کیونکہ بغاوت اور جادوگری برابر ہیں اور سرکشی ایسی ہے جیسے مورتوں اور بتوں کی پرستش۔ْ‘‘ (۱۔سموئیل ۱۵:۲۳)۔یہ کہاں کی راستبازی ہے؟ کلام مقدّس واضح طور پر بیان کرتا ہے: ’’جو جنات کے یار ہیں اور جو جادو گر ہیں تم ان کے پاس نہ جانا اور نہ ان کے طالب ہونا کہ وہ تم کو نجس بنادیں۔ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں ۔ْ‘‘ (احبار ۱۹:۳۱)۔یعنی یہ لوگ نجس ہیں، بھلا نجس و طاہر میں کیا میل؟کیا ہم راستباز ہیں؟ کیاہم مسیحیوں کی ترقی کا سبب بن رہے ہیں؟
عزیزو ! ہمیں ایک دوسرے سے محبت رکھنی چا ہئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر کو ئی کمزو ر ہے تو اسے سہا را دیکر طاقت ور بنایا جائے، ایک دو سرے کے احوال پر نظررکھی جائے اور ذاتی مفاد کو کلیسیا ئی مفا د پر ترجیح نہ دی جائے ۔کلام مقدس نجات کے حصول کی خاطراعمال کی اہمیت پر بھی زور دیتاہے: ’’ اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔ْ اس سے ہم جانیں گے کہ حق کے ہیں اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دے گا اس کے بارے میں ہم اس کے حضور اپنی دلجمعی کریں گے۔ْ ‘‘ (۱ یوحنا ۳:۱۸،۱۹)۔ مقدس یعقوب اعمال کے بغیر نجات کو ناممکن قرار دیتاہے : ’’ اے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے ؟۔ْاگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور ان کو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ْ اور تم میں سے کوئی ان سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ انہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟۔ْ اسی طرح ایمان بھی اگر اس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تواپنی ذات سے مردہ ہے۔ْ۔۔۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں۔ْ مگر اے نکمے آدمی! کیا تو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان بغیر اعمال کے بیکار ہے۔ْ جب ہمارے باپ ابراہام نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربانگاہ پر قربان کیا تو کیا وہ اعمال سے راستباز نہہ ٹھہرا؟۔ْ پس تو نے دیکھ لیا کہ ایمان نے اس کے اعمال کے ساتھ مل کر اثر کیا اور اعمال سے ایمان کامل ہوا۔ْ ۔۔۔ غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۱۴۔۲۶)۔
پس فضل کو پانے کے بعد ہمارے راست اعمال بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صرف اعمال ہی سے ہم نجات پائیں گے نہ ہی شریعت پر عمل کرنے سے۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کی فکر ہی نہیں۔ ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنے آ پ کو جا نچیں اور پرکھیں کہ جو رو شنی ہم میں ہے کہیں تاریکی تو نہیں ؟ ہمیں بحیثیت فر د اور بحیثیت قوم اپنا احتساب کر نے کی ضرو رت ہے اگر آ ج نہیں تو آ نے والے وقت میں؛ تو پھر کیوں نہ یہ عمل آج ہی سے شرو ع کر یں اورناراستی کے جو عنا صر ہم میں مو جو د ہیں اپنے اندر سے نکال پھینکیں ۔ عزیزو! موت کے بعد کچھ نہیں مسیحی ایماندار کی دنیاوی زندگی کا اختتام ہی سزا اور جزا کی حد ہے۔ اس کے بعد نہ تو کوئی دوسرا موقع ہے اور نہ ہی کوئی اور صورت۔اس لئے اعمال کی اہمیت کو نظر انداز کرنا خلافِ عقل امر ہے ۔میری دُعا ہے کہ خدا ہم سب کو نجات یافتہ راستبازوں میں شامل ہو نے کی تو فیق بخشے ۔ (آمین)۔
ہم خدا کے فضلِ خاص سے راستباز تو ٹھہرائے گئے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم صرف مسیحی کہلوا کر ہی نجات یافتہ ہونے کا تمغہ سجا لیتے ہیں۔ہم ایمان لانے کے بعد حکموں پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں: ’’پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور انکو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ْاور ان کو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا۔۔۔ ۔ْ‘‘ (متی۲۸:۱۹،۲۰) ۔ ہم راست اعمال نہیں کر رہے: ’’۔۔۔اور جب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے اندر آیا تو اُس نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا جو شادی کے لباس میں نہ تھا ۔ْ اور اس نے اس سے کہا میاں تُو شادی کی پوشاک پہنے بغیر یہاں کیونکر آگیا؟ لیکن اسکا منہ بند ہو گیا۔ْ اس پر بادشاہ نے خادموں سے کہا کہ اُسکے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو ۔ وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا۔ْ کیونکہ بلائے ہوئے بہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے۔ْ‘‘ (متی ۲۲: ۱۴ ۱) ۔ ہم بحثیت مسیحی بلائے تو گئے ہیں لیکن ہمیں برگزیدہ یا پسندیدہ بھی بننا ہے۔ ہمیں با دشاہی کی ضیافت میں شامل ہو نے کی اُمید تو ہے لیکن ہما را لبا س را ستبا زی کا نہیں ۔ ہما رے اعمال اِس لا ئق نہیں کہ ہم اُس بادشاہی کی ضیا فت میں شریک ہو سکیں ۔پس ہما ر اکر دا رو عمل ہما رے مسیحی ایمان کا آ ئینہ ہو ناچا ہئے ۔ اسی بات کو لے کر اعمال کی اہمیت پر انتہائی زور دیا جاتا ہے اور یسوع کی مخلصی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مخلصی کی اہمیت سے کوئی منکر نہیں اور اسے ہم کفارہ کے تحت دیکھ چکے ہیں لیکن اعمال کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ نیز بدعتی فرقوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نجا ت صرف اعمال سے ہے اسلئے ہمیں راستباز بننے اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ایک مسیحی صرف اِس لئے مسیحی ہے کہِ اس کے آباؤ اجداد مسیحی تھے۔یعنی اِس کی ذاتی زندگی میں مسیح کا تجربہ یا زندگی بخش بات نہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ مسیحی ہے لیکن یہ علم نہیں کہ وہ کیوں اور کیسے مسیحی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان خود سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن راست اعمال کرنا اس کا فرض ہے نجات کا حصول تب ہی سہل ہو گا۔ مسیح پر ایمان لے آنے یا غوطہ لینے کے بعد عمو ماً یہ سمجھا جا تا ہے کہ اب ہمیں کچھ کر نے کی ضرو رت نہیں بلکہ ہما ری نجا ت کا کام مکمل ہو چکا ہے، بس غو طہ لے لیں تو سیدھے جنتی ۔ یو ں یہ کفارے تک رسا ئی کا سا را عمل پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔اعمال کی اہمیت زیا دہ تر مسیحی بھولے بیٹھے ہیں ۔یہی وہ راستبازی ہے جو ہمیں برگزیدوں میں شامل کروا سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثر صر ف نجا ت کو جا نتے ہیں لیکن یہ نہیں جا نتے کہ نجات کس راہ سے گزر کرحاصل ہوگی :’ ’ تنگ دروا زہ سے دا خل ہو کیو نکہ و ہ دروازہ چو ڑا ہے اور وہ را ستہ کشا دہ ہے جو ہلا کت کو پہنچا تا ہے اور اس سے دا خل ہو نے والے بہت ہیں۔ْ کیونکہ وہ دروا زہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچا تا ہے اور اس کے پا نے والے تھو ڑے ہیں۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۳،۱۴) ۔
مسیحی ایمان میں شمولیت کے بعد یہی تصور کیا جا تا ہے کہ ہم بیٹھے بٹھائے نجات یا فتہ ہو چکے ہیں اس لئے روحانی مستقبل کے بارے میں گھبرا نے کی ضرو رت نہیں ۔ ان کے بقول Eat, Drink and be Happy کیونکہ یہوا ہ یریؔ نے نجات مہیا کر دی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر بائبل مقدس اس کی تر دید کیو ں کر تی ہے :’ ’ جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۲۶)۔ ہمیں خدا کے فضل کو غلط معنو ں میں نہیں لینا چا ہئے۔ہم پلک جھپکتے ہی نجا ت یافتہ لو گوں میں شامل ہو نا چا ہتے ہیں لیکن یہ اتنا آ سان بھی نہیں ۔ آج کتنے ہی مسیحی نجات یافتہ کہلوانے کے ساتھ ساتھ اپنی پرا نی ڈگرپر چل رہے ہیں،بھیس بدل گیا ہے روش نہیں :
بھیس بدلا کیا ہوا دل کا بدلنا چا ہئے
ایک دو با تیں نہیں بالکل بدلنا چا ہئے
ہم کیسے خدا کے حضور مقبول ہو سکتے ہیں؟ یقیناً اپنے مسیحی ایمان و راست عمل سے۔ یسوع مسیح اپنی زمینی زندگی میں ہمیں نیک اعمال کرنے کی تعلیم دیتا رہا۔ بے شک مسیحیت میں اعمال کی نوعیت بنی اسرائیل سے مختلف ہے۔ بنی اسرائیل کوراستبازی کے تناظر میں خدا اور انسان سے متعلقہ بہت پیچیدہ قسم کے قوائد و ضوابط کی پاسداری کرنا ضروری تھا۔ یسوع مسیح نے انسان کو خدا سے ملانے کے ساتھ ساتھ اس پیچیدگی کو بھی دور کر دیا۔ یعنی اُس نے انسان بن کر راستبازی و نجات کو انسانی سطح پر قائم کیا: ’ ’ جب ابن آ دم اپنے جلا ل میں آ ئیگا اور سب فرشتے اُس کے سا تھ آ ئیں گے ۔ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ْ اور سب قو میں اُس کے سامنے جمع کی جا ئیں گی اور وہ ایک کو دو سرے سے جدا کر یگا جیسے چر وا ہا بھیڑو ں کو بکریو ں سے جدا کر تا ہے۔ْ اور بھیڑو ں کو اپنے دہنے اور بکریو ں کو با ئیں کھڑا کر یگا ۔ْاُس وقت با دشا ہ اپنے د ہنی طر ف والو ں سے کہے گاآ ؤ میرے با پ کے مبا ر ک لو گو جو با دشا ہی بنا یِ عالم سے تمہا رے لئے تیا ر کی گئی ہے اُسے میرا ث میں لو۔ْکیو نکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھا نا کھلا یا ، میں پیا ساتھا تم نے مجھے پا نی پلا یا ، میں پر دیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتا را۔ْ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنا یا ، بیما ر تھا تم نے میری خبر لی ، قید میں تھا تم میرے پاس آ ئے ۔ْ تب را ستباز جو اب میں اُس سے کہیں گے اے خدا وند !ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھا نا کھلایا یا پیا سا دیکھ کر پا نی پلا یا؟۔ْ ہم نے کب تجھے پر دیسی دیکھ کر گھر میں اتا را ؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنا یا ؟ ۔ْ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آ ئے ؟ ۔ْ بادشا ہ جوا ب میں ان سے کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ چونکہ تم نے میرے اُن سب سے چھو ٹے بھا ئیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا اُس لئے میرے ہی سا تھ کیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۲۵:۳۱۔۴۰) ۔ یہاں انسان کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی راستبازی کے زمرے میں آگیا اور نجات کا سبب بنا۔
بے شک یہ میرا ث راستبازوں کے لئے ہے ناراستوں کے لیے نہیں اس لئے ہمیں راستباز بننا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے رو پو شی اختیار نہیں کر نی ۔ ہمیں مسیحی قو م کی رُوحا نی و جسما نی تر قی کے لئے مل جل کر کا م کر نا ہے ۔ لیکن ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم آ ج تک اپنی پرا نی انسا نیت سے با ہر ہی نہیں نکلے ۔ہمارا دشمن ابلیس ہما رے گھرو ں میں گھساہوا ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک بے سود اور نکمی الجھنو ں میں الجھے ہیں ۔ ہم اپنے مسیحی ایما ن پر خو د ہی کیچڑ اچھا ل رہے ہیں : ’ ’ کیونکہ بہتیرے ایسے ہیں جنکا ذکر میں نے تم سے بارہا کیا ہے اور اب بھی رو رو کر کہتا ہو ں کہ وہ اپنے چال چلن سے مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ْ ‘ ‘ (فلپیوں ۳: ۱۸)۔ ہمارا چال چلن بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
آسمانی وطن میں جانے کے لئے ہمیں سب سے پہلے تو بہ کی طر ف ما ئل ہو ناہے ۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کا پتہ ہی نہیں۔ اسی تناظر میں مجھے ایک مثال یاد آگئی جو ہماری ایمانی حالت کی بڑی اچھی وضاحت کرتی ہے۔ایک بادشاہ کے ناک پر کسی وجہ سے زخم ہو گیا۔بادشاہ نے بڑا علاج کروایا لیکن زخم ر وز بروز بڑھتا ہی گیا۔ بالآخر ایک طبیب نے مشورہ دیا کہ اگر ناک کو کاٹا نہ گیا تو زخم پورے جسم پر پھیل جائے گا جس کا علاج ناممکن ہو گا۔ بادشاہ یہ بات سُن کر نہایت پریشان ہواکہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اسی پریشانی کے عالم میں وزیرنے اُسے مشورہ دیا ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کا ناک کاٹتے ہی پورے ملک میںیہ قانون لاگو کیا جائے کہ سب لوگوں کے ناک کاٹے جائیں ،اسی طرح ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کا ناک بھی کاٹا جائے اور یہ قانون نسل در نسل قائم رہے۔ بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی اور شاہی فرمان کے ذریعے اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا گیا۔یوں اُس ملک کا ہر باشندہ نسل در نسل ناک کی نعمت سے محروم ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ اُس قوم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ انسانی جسم کے ایک اہم عضوسے محروم ہیں۔ بہت سے بادشاہ آئے اور گئے لیکن کسی نے بھی اس قانون کو بدلنے کی کوشش نہ کی، کرتے بھی کیسے وہ خود بھی ناک سے محروم تھے اور اس حوالے سے ان کا ضمیر بھی مردہ ہو چکا تھا۔ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد اُس ملک سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جس کا ناک درست قُدرتی حالت میں تھا۔ ناک کٹے لوگوں نے اس شخص کو دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا کہ اس کا ناک کیسا ہے؟
آج ہم نے بھی اپنی یہی حالت کرلی ہے۔ہم کسی راستباز مسیحی کو سمجھنے کی بجائے اُس پر ہنستے ہیں اگرچہ کمی ہماری اپنی ذات میں ہے۔ یہی وہ کلیسیائی بانجھ پن ہے جو ہمیں وراثت میں ملاہے اور ہم بھی اسے جُوں کا تُوں اگلی نسل کو سونپنے جا رہے ہیں۔ ہم ناک کٹوانے کی رسم نسل در نسل سر انجام دے کر حقیقی مسیحی روح کو بجھا چکے ہیں۔ ہمیں ہنسنا نہیں بلکہ اس حقیقت کو محسوس کرنا ہے کہ ہم ایمانی لحاظ سے معذور ہوکر اپنے روحانی مستقبل کو تاریک کر چکے ہیں۔ ابھی ہمیں اپنے گنا ہو ں کا احسا س نہیں ہو رہا ہما ری مثال اُس آدمی کی سی ہے جو پانی میں تیرتا ہے تو پا نی کا بو جھ محسو س نہیں کر تا اگر وہی آ دمی پا نی سے با ہر نکل کر دیکھے تو ایک گلاس پا نی کا وزن بھی محسو س کر ے گا۔ ہم بھی گنا ہ میں تیر رہے ہیں اور ان گنا ہوں کا بو جھ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا اگر ہم اِن گنا ہو ں سے با ہر نکلیں تو پھر ہمیں چھو ٹے سے چھو ٹے گنا ہ کا بھی احسا س ہو گا ،یہی وہ احسا س ہے جو تو بہ کی طر ف ما ئل کر کے نجات کی طرف لے جا تا ہے ۔بہت سے طے شدہ مسیحی رُو ح القدس کے دعویدا ر ہو نے کے سا تھ ساتھ اپنے اعمال سے مسیحی ہونے کی نفی کر رہے ہیں ۔ کیا یہی ہیں وہ رُو ح القدس کے فضا ئل جو با ئبل مقدس بیان کر رہی ہے ؟ : ’ ’مگر رُوح کا پھل محبت، خو شی، اطمینان، تحمل ، مہر با نی ، نیکی، ایمانداری، حلم، پر ہیز گا ری ہے۔ْ ‘ ‘ (گلتیو ں ۵:۲۲،۲۳)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے بیٹے کو با ر بار مصلو ب کر کے اعلا نیہ ذلیل کر تے ہیں (عبرا نیوں ۶:۶)۔ یہ مسیح پر ایما ن تو رکھتے ہیں مگر سو فی صد نہیں ۔ یہ بھیڑو ں کی شکل میں بھیڑیے ہیں ۔ یہ لو گو ں کے سامنے غیر زبا نیں اور بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے توکر تے ہیں لیکن ان کے اندر لا لچ کی رُو ح بڑی کا میابی سے عمل کر تی ہے ۔ انہیں مسیحیت کی کو ئی فکر نہیں بلکہ یہ آ پس کے جھگڑو ں میں ہی الجھے ہو ئے ہیں جن کا نتیجہ عا م کلیسیا ئی رکن کی کلیسیا سے بد ظنی ہے ۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمارا حقیقی مسیحی وجود ناجانے کہاں کھو گیاہے؟ کیا غلامی ہی ہمارا مستقبل ہے؟ کیا مذہبی آمر ہی قیامت اور زندگی ہے؟ کیا کوئی ہمت والاNo Sir! نہیں کہہ سکتا؟ ہم اپنی ڈور انسانی ہاتھوں میں کیوں سونپ رہے ہیں؟ ہم مشترکہ مفاد کے لئے کیوں نہیں سوچتے؟ ہم کیوں وقت کو نہیں پہچان رہے؟ ہم کیوں مُردہ قوموں کی طرح اِسی دُنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں؟ آخر ہم کب تک مردہ ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ کیا ہم معاشی و مذہبی استحصال کے لئے ہی چُنے گئے ہیں؟ غیر تو غیر، ہمارے اپنے رہنما بھی تعصب کی عینک لگائے ہماری زبوں حالی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔حیرت ہے یہ اِسی مسیحیت کی چھاپ سجائے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور پھر انہی مسیحیوں سے رُوپوشی اختیار کر رہے ہیں۔
مسیحیت انساینت کی قدر کرنا سکھاتی ہے اور یہی راستبازی ہے۔ لوقا ۱۰ باب میں جب شرع کا عالم نجات کی راہ پوچھتا ہے تو یسوع انسانیت سے محبت کو خدا کے بعد اولین ترجیح دیتا ہے: ’’ اُس نے اس سے کہا توریت میں کیا لکھا ہے؟ تو کس طرح پڑھتا ہے؟ ۔ْ اس سے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ْ اس نے اس سے کہا تو نے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر تو تُو جیئیگا۔ْ‘‘ آگے چل کے یسوع ہمیں پڑوسی کی شناخت بھی کرواتا ہے: ’’ یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلیمؔ سے یریحوؔ کی طرف جا رہا تھاکہ ڈاکوؤں میں گھِر گیا۔ انیوں نے اس کے کپڑے اتا ر لئے اور مارا بھی اور ادھ مؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ْ اتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ اسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ْ لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اس نے ترس کھایا۔ْ اور اس کے پاس آکر اُسکے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اس کی خبر گیری کی۔ْ دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دئے اور کہا اس کی خبر گیری کرنا اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہو گا میں پھر آ کر تجھے ادا کردوں گا۔ْاِن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوؤں میں گھِر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟۔ْ اُس نے کہا وہ جس نے اُس پر رحم کیا ۔ یسوع نے اس سے کہا جا تُو بھی ایسا ہی کر۔ْ‘‘ کیا ہم اپنے پڑوسی کا خیال رکھ رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم اپنے ہم جنس سے روپوشی اختیار کر رہے ہیں جو کسی طور بھی راستبازی نہیں۔
ہمیں راستبازی اور ریاکاری میں فرق جاننا بھی ضروری ہے کیونکہ معاشرے میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ راستبازی ہمیں نجات کی طرف لے جاتی ہے جبکہ ریاکاری نجات سے محروم کرتی ہے۔ریاکاری یا Hypocrisyکی مذمت یسوع مسیح نے بارہا بڑے سخت الفاظ میں کی ۔ یسوع مسیح نے فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کرتے وقت اکثر اوقات لفظ ریا کار استعمال کیا ۔ ریاکاری زمانۂ قدیم سے چلی آرہی ہے اورآج مسیحیت میں بھی اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ بہت سے ریاکار مسیحی زندگی کی دوڑمیں سبقت لئے ہوئے ہیں، انہیں ذاتی مفاد عزیز ہے چاہے کوئی جیے یا مرے ۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ کئی رُوپ بدلتے ہیں۔اگر ہم چند لمحات کے لئے اپنی زندگیوں پر غور کریں تو اپنے آپ کو ریاکاروں سے کچھ کم نہیں پائیں گے ۔ہمیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ہم اپنے آپ کو پاکیزہ اور دوسرے کو حقیر جانتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری کسی کمی کی نشان دہی کردے تو ہم جواباً کوئی جواز پیش کر دیتے ہیں ۔ ہم معاشرے سے اجر تو پانا چاہتے ہیں مگر معاشرے کو کچھ اچھا دینا نہیں چاہتے۔ہم اپنے نیک اعمال کی تشہیر ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ عزیزو! یہ راستبازی نہیں ریاکاری ہے۔
جھوٹ راستبازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہم جائز ناجائز چھوٹے یا بڑے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں حننیاہ اور سفیرہ کو جھوت کی کیا سزا ملی؟ مجھے جھوٹ کے حوالے سے ایک کہانی یاد آ گئی۔ کسی گرجا گھر میں پادری صاحب نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگلے اتوار میں جھوٹ کے متعلق پیغا م دو ں گاکیونکہ یہ ہماری زندگیوں کاایک ایسا حصہ ہے جس کی وجہ سے ہم روحانی طور پر ترقی نہیں کر رہے ، میری گذارش ہو گی کہ آپ مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کر آئیں۔ اتوار آ گیا اور پادری صاحب نے جماعت سے سوال کیا کہ پچھلے اتوارمیں نے مقدس مرقس کی انجیل میں سے باب ۱۷ پڑھ کرآنے کو کہا تھا تو آج کون کون یہ باب پڑھ کر آیا ہے؟ جماعت میں سے اکثریت نے ہاتھ بلند کئے۔ یہ دیکھ کر پادری صاحب مسکرائے اور بولے مقدس مرقس کی انجیل میں صرف ۱۶ باب ہیں ، اب میں جھوٹ کے گناہ پر پیغام شروع کرتا ہوں۔ بے شک جھوٹ ایک اہم بیماری ہے جو ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکا ہے۔عزیزو! یہا ں ایک لمحے کو رکیں اور سوچیں کہ ہم روزانہ کتنے جھوٹ بولتے ہیں؟
آ ج ایک راستباز مسیحی تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ بہت سے مسیحی خود مسیحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔A.T.Schofieldنے اپنی کتاب The Knowledge of Godمیں مسیحیوں کی اس حالت کا یوں تذکرہ کیا ہے:
The half-hearted policy of present day Christians in trusting God with a half trust, and believing in their Scriptures with a half faith, has led to their being half-and-half all around, and wholehearted in nothing. You see in the world the gambler absorbed in bridge, the sportsman in shooting, the golfer in the links, the racing man in the turf, the society woman in fashion, honestly and wholeheartedly; but where is the Christian who is absorbed in Christianity? To whom the fact of God is the greatest fact, the truth of the Scriptures the greatest truth, the love of the Divine the all absorbing passion?
گو یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ مسیحیت کو جتنا نقصان خود مسیحیوں نے پہنچایا ہے کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا، اسی لئے مسیحیت کی اصل شکل مسخ ہوچکی ہے۔کسی کو پتہ ہی نہیں کہ مسیحیت کی اصل رُوح کیا ہے اور اگر کسی کو پتہ ہے بھی تو وہ سسٹم سے خوف زدہ ہوکر اپنی آواز بلند نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے خود اُس کے گھروالے ہی اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ یاد رکھئے! عدالت گھر والوں سے ہی شروع ہوگی، ہمیںیسوع کا وفادار سپاہی بن کر اُن مسیحیوں کے خلاف لڑنا ہے جو مسیحیت کے خلاف لڑرہے ہیں۔ موجودہ مسیحی ،مسیح کی باتوں کی بہ نسبت شیطان کی باتوں کو ترجیح دے کر مسیحیت کے خلاف صف آراء ہیں اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ آج بہت سے مسیحی گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، قبروں کی پوجا کی جاتی ہے اور پیروں فقیروں کی درگاہوں پر حاضری دی جاتی ہے۔ بت پرستی کی یہ قسم مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی، یہ بغاوت کی گھنا ؤنی قسم ہے ۔ کلامِ مقدس بھی اس کی تصدیق کرتا ہے: ’’ کیونکہ بغاوت اور جادوگری برابر ہیں اور سرکشی ایسی ہے جیسے مورتوں اور بتوں کی پرستش۔ْ‘‘ (۱۔سموئیل ۱۵:۲۳)۔یہ کہاں کی راستبازی ہے؟ کلام مقدّس واضح طور پر بیان کرتا ہے: ’’جو جنات کے یار ہیں اور جو جادو گر ہیں تم ان کے پاس نہ جانا اور نہ ان کے طالب ہونا کہ وہ تم کو نجس بنادیں۔ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں ۔ْ‘‘ (احبار ۱۹:۳۱)۔یعنی یہ لوگ نجس ہیں، بھلا نجس و طاہر میں کیا میل؟کیا ہم راستباز ہیں؟ کیاہم مسیحیوں کی ترقی کا سبب بن رہے ہیں؟
عزیزو ! ہمیں ایک دوسرے سے محبت رکھنی چا ہئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر کو ئی کمزو ر ہے تو اسے سہا را دیکر طاقت ور بنایا جائے، ایک دو سرے کے احوال پر نظررکھی جائے اور ذاتی مفاد کو کلیسیا ئی مفا د پر ترجیح نہ دی جائے ۔کلام مقدس نجات کے حصول کی خاطراعمال کی اہمیت پر بھی زور دیتاہے: ’’ اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔ْ اس سے ہم جانیں گے کہ حق کے ہیں اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دے گا اس کے بارے میں ہم اس کے حضور اپنی دلجمعی کریں گے۔ْ ‘‘ (۱ یوحنا ۳:۱۸،۱۹)۔ مقدس یعقوب اعمال کے بغیر نجات کو ناممکن قرار دیتاہے : ’’ اے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے ؟۔ْاگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور ان کو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ْ اور تم میں سے کوئی ان سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ انہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟۔ْ اسی طرح ایمان بھی اگر اس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تواپنی ذات سے مردہ ہے۔ْ۔۔۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں۔ْ مگر اے نکمے آدمی! کیا تو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان بغیر اعمال کے بیکار ہے۔ْ جب ہمارے باپ ابراہام نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربانگاہ پر قربان کیا تو کیا وہ اعمال سے راستباز نہہ ٹھہرا؟۔ْ پس تو نے دیکھ لیا کہ ایمان نے اس کے اعمال کے ساتھ مل کر اثر کیا اور اعمال سے ایمان کامل ہوا۔ْ ۔۔۔ غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔ْ ‘ ‘ (یعقوب۲:۱۴۔۲۶)۔
پس فضل کو پانے کے بعد ہمارے راست اعمال بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صرف اعمال ہی سے ہم نجات پائیں گے نہ ہی شریعت پر عمل کرنے سے۔ہم گناہ میں اس قدر گھرِ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے روحانی مستقبل کی فکر ہی نہیں۔ ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنے آ پ کو جا نچیں اور پرکھیں کہ جو رو شنی ہم میں ہے کہیں تاریکی تو نہیں ؟ ہمیں بحیثیت فر د اور بحیثیت قوم اپنا احتساب کر نے کی ضرو رت ہے اگر آ ج نہیں تو آ نے والے وقت میں؛ تو پھر کیوں نہ یہ عمل آج ہی سے شرو ع کر یں اورناراستی کے جو عنا صر ہم میں مو جو د ہیں اپنے اندر سے نکال پھینکیں ۔ عزیزو! موت کے بعد کچھ نہیں مسیحی ایماندار کی دنیاوی زندگی کا اختتام ہی سزا اور جزا کی حد ہے۔ اس کے بعد نہ تو کوئی دوسرا موقع ہے اور نہ ہی کوئی اور صورت۔اس لئے اعمال کی اہمیت کو نظر انداز کرنا خلافِ عقل امر ہے ۔میری دُعا ہے کہ خدا ہم سب کو نجات یافتہ راستبازوں میں شامل ہو نے کی تو فیق بخشے ۔ (آمین)۔
No comments:
Post a Comment