نجات کے متعلق کچھ بدعتی گروہوں کا یہ خیال ہے کہ جو بھی مسیح کا نام لے گا وہ نجات پائے گااورآخرت میں سب کو نجات دی جائے گی۔کچھ کہتے ہیں کہ موت کے بعد لوگوں کو نجات کا دوسرا موقع بھی دیا جائے گا۔ یوں یہ مسیحی قوم کو دھوکے میں رکھ کر انہیں گناہ کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔ بے شک نجات کے متعلق یہ اہم سوال ہے کہ کیا سب کو نجات حاصل کرنے کا موقع ملے گا؟موت کے بعد کیا ہو گا؟موت ایک حقیقت ہے اور نجات یا ابدی زندگی کا حصول بھی ایک ایماندار کے لئے ضروری امر ہے کیونکہ خدا ’ ’چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں ۔ْ‘‘ (۱ تیمتھیس ۲: ۴)۔ خدا سب کو نجات کا موقع کیسے فراہم کرے گا؟نجات کا راستہ یسوع مسیح ہے لیکن کرہ ارض پر موجود مختلف قوموں، فرقوں، تہذیبوں اور مذاہب کے ان لوگوں کا کیا بنے گا جنہوں نے یسوع کا نام تک نہیں سنا ، یا جو یسوع مسیح کی زمینی آمد سے پہلے ہلاک ہوئے۔دیگر اقوام تو دور کی بات ابھی تک مسیحیوں تک بھی درست تعلیمات نہیں پہنچیں۔ ابلاغِ عامہ کہ ذمہ داری کلیسا کی ہے لیکن چرچ نے اپنی ذمہ داری دیانتداری سے پوری نہیں کی۔ آج ہر مسیحی راہِ نجات سے منحرف ہو کربھی نجات کے متعلق پر امیدہے۔اسے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ مسیح پر ایمان لایا ہے اسلئے اسے اس کی بتائی ہو ئی راہ پہ چلنا بھی ہے کیونکہ موت کے بعد اس کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔نجات ایک عالمگیر حقیقت ہے لیکن اس کی فراہمی کا طریقہ کار ایمانداروں اور غیر ایمانداروں کے لئے مختلف ہے۔
اگرچہ نجات کے لئے دوسرے موقع کی فراہمی دلچسپ امر ہے لیکن بائبل مقدس اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ راستبازی اور نجات میں ہم زمینی زندگی میں کئے گئے اعمال کی اہمیت کو تفصیلاً دیکھ چکے ہیں یعنی جب تک ایماندار اپنی جسمانی حالت میں زندہ ہے اس کے لئے توبہ و نجات کے دروازے کھلے ہیں مگر موت کے بعد کچھ نہیں : ’ ’ ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔ْ اور لعزر نام ایک غریب ناسوروں سے بھرا ہو اس کے دروازے پر ڈالا گیا تھا۔ْ اسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کتے بھی آ کر اس کے ناسور چاٹتے تھے۔ْ اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مر گیا اور فرشتوں نے اسے لیجا کر ابرہام کی گود میں پہنچا دیا اور دولت مند بھی موا اور دفن ہوا۔ْ اس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اٹھائیں اور ابراہام کو دور سے دیکھا اور اس کی گود میں لعزرکو۔ْاور اس نے پکار کر کہا اے باپ ابرہام مجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑپتا ہوں۔ْ ابرہام نے کہا بیٹا ! یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر بری چیزیں لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتا ہے اور تو تڑپتا ہے ۔ْ اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھاواقع ہے ۔ ایسا کہ جو یہاں سے پار تمہاری طرف جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آ سکے۔ْ اس نے کہا پس اے باپ ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اسے میرے باپ کے گھر بھیج ۔ْ کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ انکے سامنے ان باتوں کی گوہی دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ْ ابرہام نے اس سے کہا انکے پاس موسیٰ اور انبیا تو ہیں انکی سنیں۔ْ اس نے کہا نہیں اے باپ ابرہام ہاں اگر کوئی مردوں میں سے انکے پاس جائے تو وہ توبہ کریں گے۔ْ اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی ہی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔ْ‘ ‘ (لوقا ۱۶: ۱۹۔۳۱)۔
یہاں دوسرے موقعے کی سہولت ہوتی تو دولت مند کو دوسرا موقع دیا جاتا۔ مزید دیکھئے : ’ ’ کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار روشن ہو گئے اور وہ آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اور روح القدس میں شریک ہو گئے۔ْ اور خدا کے عمدہ کلام اور آیندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے ۔ْ اگر وہ بر گشتہ ہو جائیں تو انہیں توبہ کے لئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے اس لئے کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی طرف سے دوبارہ مصلوب کر کے اعلانیہ ذلیل کرتے ہیں۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۶: ۴۔۶) ۔ ’ ’ کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔ْ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور غضبناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھا جائے گی۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۱۰: ۲۶،۲۷)۔ پس جنہیں پہلا موقع مل چکا انہیں دوسرا موقع نہیں مل سکتا۔ دوسرا موقع صرف ان کے لئے ہے جنہیں پہلا موقع نہیں ملا یعنی جو یسوع کو نہیں جانتے اور جنہوں نے یسوع کی خوشخبری نہیں سنی کیونکہ خدا ناانصاف نہیں وہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے ۔ پس جو یسوع کو جانتے ہیں یا یسوع کو مانتے ہیں ان کو پہلا موقع اور آخری موقع مل چکا۔
کچھ بدعات موت کے بعد نجات کے دوسرے موقع پہ متفق ہیں اور وہ مختلف حوالے دے کر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں :
’ ’اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔ْ ‘ ‘ (۱ کرنتھیوں ۱۵: ۱۹)۔ اس حوالے کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑ ھیں تو یہ بات حقیقی ایمانداروں کے متعلق کہی گئی ہے جن کو موت کے بعد ابدی آرام ملے گا نہ کہ گنہگاروں کے بارے۔ یسوع مسیح کے ان الفاظ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے: ’ ’ اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی ۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۱۰: ۱۶)۔ یہاں دوسری بھیڑوں سے مراد غیر یہودی لوگ ہیں جو مسیح پر ایمان لا کر نجات پائیں گے ۔ اس ضمن میں یہ دلیل بہت مضبو ط ہے: ’ ’ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جئیں گے۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۵ : ۲۵)۔ یہ آیت غیر ایمانداروں کے لئے تو خوشخبری ہو سکتی ہے لیکن جو لوگ پہلے ہی سے مسیح کی آواز سن چکے ہیں ان کے لئے اس آیت کو دوسرا موقع تصور کرنا درست نہیں۔ اسی باب کی ۲۸، ۲۹ آیت بھی دیکھئے: ’ ’ اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اس کی آواز سن کر نکلیں گے۔ْ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔ْ ‘ ‘ اس بات کی تصدیق یسوع لعزر کو قبر سے پکار کے کرتا ہے۔
بحرحال اس بات کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہو گا کیونکہ روزِ عدالت سبھی آمنے سامنے ہونگے: ’ ’ وہ اس وقت ان شہروں کو ملامت کرنے لگا جن میں اس کے اکثر معجزے ظاہر ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے توبہ نہ کی تھی کہ ۔ْ اے خرازین تجھ پر افسوس! اے بیت صیدا تجھ پر افسوس! کیونکہ جو معجزے تم میں ظاہ ہوئے اگر صور اور صیدا میں ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اور خاک میں بیٹھ کر کب کے توبہ کر لیتے۔ْ مگر میں تم سے کہتا ہون کہ عدالت کے دن صور اور صیدا کا حال تمہارے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ اور اے کفر نحوم کیا تو آسمان تک بلند کیا جائے گا؟ تُو تو عالمِ ارواح میں اترے گا کیونکہ جو معجزے تجھ میں ظاہر ہوئے اگر سدوم میں ہوتے تو آج تک قائم رہتا ۔ْمگر میں تم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن سدوم کے علاقہ کا حال تیرے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ ‘ ‘ (متی ۱۱: ۲۰۔۲۴)۔ مزید دیکھئے: ’ ’ نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگون کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے۔ْ دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانی کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی ۔ کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑ ا ہے۔ْ ‘ ‘ ( متی ۱۲: ۴۱، ۴۲)۔
خدا سب کوعدالت کے لئے دوبارہ زندہ کر ے گااور ہمیں بھی عدالت کا سامنا کرنا ہو گا: ’ ’ پھر میں نے ایک بڑا سفید تخت اور اس کو جو اس پر بیٹھا ہوا تھا دیکھا جس کے سامنے سے زمین اور آسمان بھاگ گئے اور انہیں کہیں جگہ نہ ملی۔ْپھر میں نے چھوٹے بڑے سب مردوں کو اس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِ حیات اور جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہواتھا انکے اعمال کے مطابق مردوں کا انصاف کیا گیا۔ْ اور سمندر نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور موت اور عالم ارواح نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور ان میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اسکا انصاف کیا گیا۔ْ ‘ ‘ (مکاشفہ ۲۰:۱۱۔۱۳)۔پس ’ ’آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا اور اسکے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۹:۲۷)۔ یعنی عدالت اعمال کے مطابق ہو گی اور نجات کا کوئی دوسرا موقع نہیں۔موت کے ساتھ ہی موقع بھی ختم۔
اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کے مبارک لوگوں میں شمار ہو سکیں کیونکہ یہ کوشش ہم اپنی زمینی زندگی میں ہی کر سکتے ہیں موت کے بعد کچھ نہیں صرف عدالت کا ہولناک انتظار ہے۔ ہمیں اچھا پھل لانا ہے کیونکہ موت کے بعد پھل لانا ممکن نہ ہو گا: ’ ’ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ْپس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔ْ جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند !کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل ہی ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ْاس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟۔ْ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔ْ پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ْ اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے اپنا گھر ریت پربنایا ۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۹۔۲۷)۔ دعا ہے کہ خدا ہم سب کوکلامِ مقدس کیے بتائی ہوئی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اپنے فضلِ خاص کی بدولت ہمیں غلط راہوں سے محفوظ رکھ کر نجات یافتہ برگزیدوں میں شامل کرے۔ آمین۔
اگرچہ نجات کے لئے دوسرے موقع کی فراہمی دلچسپ امر ہے لیکن بائبل مقدس اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ راستبازی اور نجات میں ہم زمینی زندگی میں کئے گئے اعمال کی اہمیت کو تفصیلاً دیکھ چکے ہیں یعنی جب تک ایماندار اپنی جسمانی حالت میں زندہ ہے اس کے لئے توبہ و نجات کے دروازے کھلے ہیں مگر موت کے بعد کچھ نہیں : ’ ’ ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔ْ اور لعزر نام ایک غریب ناسوروں سے بھرا ہو اس کے دروازے پر ڈالا گیا تھا۔ْ اسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کتے بھی آ کر اس کے ناسور چاٹتے تھے۔ْ اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مر گیا اور فرشتوں نے اسے لیجا کر ابرہام کی گود میں پہنچا دیا اور دولت مند بھی موا اور دفن ہوا۔ْ اس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اٹھائیں اور ابراہام کو دور سے دیکھا اور اس کی گود میں لعزرکو۔ْاور اس نے پکار کر کہا اے باپ ابرہام مجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑپتا ہوں۔ْ ابرہام نے کہا بیٹا ! یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر بری چیزیں لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتا ہے اور تو تڑپتا ہے ۔ْ اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھاواقع ہے ۔ ایسا کہ جو یہاں سے پار تمہاری طرف جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آ سکے۔ْ اس نے کہا پس اے باپ ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اسے میرے باپ کے گھر بھیج ۔ْ کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ انکے سامنے ان باتوں کی گوہی دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ْ ابرہام نے اس سے کہا انکے پاس موسیٰ اور انبیا تو ہیں انکی سنیں۔ْ اس نے کہا نہیں اے باپ ابرہام ہاں اگر کوئی مردوں میں سے انکے پاس جائے تو وہ توبہ کریں گے۔ْ اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی ہی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔ْ‘ ‘ (لوقا ۱۶: ۱۹۔۳۱)۔
یہاں دوسرے موقعے کی سہولت ہوتی تو دولت مند کو دوسرا موقع دیا جاتا۔ مزید دیکھئے : ’ ’ کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار روشن ہو گئے اور وہ آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اور روح القدس میں شریک ہو گئے۔ْ اور خدا کے عمدہ کلام اور آیندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے ۔ْ اگر وہ بر گشتہ ہو جائیں تو انہیں توبہ کے لئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے اس لئے کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی طرف سے دوبارہ مصلوب کر کے اعلانیہ ذلیل کرتے ہیں۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۶: ۴۔۶) ۔ ’ ’ کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔ْ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور غضبناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھا جائے گی۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۱۰: ۲۶،۲۷)۔ پس جنہیں پہلا موقع مل چکا انہیں دوسرا موقع نہیں مل سکتا۔ دوسرا موقع صرف ان کے لئے ہے جنہیں پہلا موقع نہیں ملا یعنی جو یسوع کو نہیں جانتے اور جنہوں نے یسوع کی خوشخبری نہیں سنی کیونکہ خدا ناانصاف نہیں وہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے ۔ پس جو یسوع کو جانتے ہیں یا یسوع کو مانتے ہیں ان کو پہلا موقع اور آخری موقع مل چکا۔
کچھ بدعات موت کے بعد نجات کے دوسرے موقع پہ متفق ہیں اور وہ مختلف حوالے دے کر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں :
’ ’اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔ْ ‘ ‘ (۱ کرنتھیوں ۱۵: ۱۹)۔ اس حوالے کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑ ھیں تو یہ بات حقیقی ایمانداروں کے متعلق کہی گئی ہے جن کو موت کے بعد ابدی آرام ملے گا نہ کہ گنہگاروں کے بارے۔ یسوع مسیح کے ان الفاظ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے: ’ ’ اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی ۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۱۰: ۱۶)۔ یہاں دوسری بھیڑوں سے مراد غیر یہودی لوگ ہیں جو مسیح پر ایمان لا کر نجات پائیں گے ۔ اس ضمن میں یہ دلیل بہت مضبو ط ہے: ’ ’ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جئیں گے۔ْ ‘ ‘ (یوحنا ۵ : ۲۵)۔ یہ آیت غیر ایمانداروں کے لئے تو خوشخبری ہو سکتی ہے لیکن جو لوگ پہلے ہی سے مسیح کی آواز سن چکے ہیں ان کے لئے اس آیت کو دوسرا موقع تصور کرنا درست نہیں۔ اسی باب کی ۲۸، ۲۹ آیت بھی دیکھئے: ’ ’ اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اس کی آواز سن کر نکلیں گے۔ْ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔ْ ‘ ‘ اس بات کی تصدیق یسوع لعزر کو قبر سے پکار کے کرتا ہے۔
بحرحال اس بات کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہو گا کیونکہ روزِ عدالت سبھی آمنے سامنے ہونگے: ’ ’ وہ اس وقت ان شہروں کو ملامت کرنے لگا جن میں اس کے اکثر معجزے ظاہر ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے توبہ نہ کی تھی کہ ۔ْ اے خرازین تجھ پر افسوس! اے بیت صیدا تجھ پر افسوس! کیونکہ جو معجزے تم میں ظاہ ہوئے اگر صور اور صیدا میں ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اور خاک میں بیٹھ کر کب کے توبہ کر لیتے۔ْ مگر میں تم سے کہتا ہون کہ عدالت کے دن صور اور صیدا کا حال تمہارے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ اور اے کفر نحوم کیا تو آسمان تک بلند کیا جائے گا؟ تُو تو عالمِ ارواح میں اترے گا کیونکہ جو معجزے تجھ میں ظاہر ہوئے اگر سدوم میں ہوتے تو آج تک قائم رہتا ۔ْمگر میں تم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن سدوم کے علاقہ کا حال تیرے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔ْ ‘ ‘ (متی ۱۱: ۲۰۔۲۴)۔ مزید دیکھئے: ’ ’ نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگون کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے۔ْ دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانی کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی ۔ کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑ ا ہے۔ْ ‘ ‘ ( متی ۱۲: ۴۱، ۴۲)۔
خدا سب کوعدالت کے لئے دوبارہ زندہ کر ے گااور ہمیں بھی عدالت کا سامنا کرنا ہو گا: ’ ’ پھر میں نے ایک بڑا سفید تخت اور اس کو جو اس پر بیٹھا ہوا تھا دیکھا جس کے سامنے سے زمین اور آسمان بھاگ گئے اور انہیں کہیں جگہ نہ ملی۔ْپھر میں نے چھوٹے بڑے سب مردوں کو اس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِ حیات اور جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہواتھا انکے اعمال کے مطابق مردوں کا انصاف کیا گیا۔ْ اور سمندر نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور موت اور عالم ارواح نے اپنے اندر کے مردوں کو دے دیا اور ان میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اسکا انصاف کیا گیا۔ْ ‘ ‘ (مکاشفہ ۲۰:۱۱۔۱۳)۔پس ’ ’آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا اور اسکے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے۔ْ ‘ ‘ (عبرانیوں ۹:۲۷)۔ یعنی عدالت اعمال کے مطابق ہو گی اور نجات کا کوئی دوسرا موقع نہیں۔موت کے ساتھ ہی موقع بھی ختم۔
اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کے مبارک لوگوں میں شمار ہو سکیں کیونکہ یہ کوشش ہم اپنی زمینی زندگی میں ہی کر سکتے ہیں موت کے بعد کچھ نہیں صرف عدالت کا ہولناک انتظار ہے۔ ہمیں اچھا پھل لانا ہے کیونکہ موت کے بعد پھل لانا ممکن نہ ہو گا: ’ ’ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ْپس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔ْ جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند !کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل ہی ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ْاس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟۔ْ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔ْ پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ْ اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے اپنا گھر ریت پربنایا ۔ْ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔ْ ‘ ‘ (متی ۷:۱۹۔۲۷)۔ دعا ہے کہ خدا ہم سب کوکلامِ مقدس کیے بتائی ہوئی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اپنے فضلِ خاص کی بدولت ہمیں غلط راہوں سے محفوظ رکھ کر نجات یافتہ برگزیدوں میں شامل کرے۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment