یسوع مسیح کی مصلوبیت کے حوالے سے بے شمار اعتراض کئے جاتے ہیں جیسے یہ کہ یسوع مصلوب نہیں ہوا بلکہ اس کی جگہ اس کا کوئی ہمشکل مصلوب ہوا، وہ صلیب پر موا نہیں بلکہ زندہ حالت میں اتار لیا گیا ، اسے بدھ والے دن مصلوب کیا گیا نہ کہ جمعے والے دن،یوناہ نبی کا نشان یسوع پورا نہیں کر سکا، اگر مرنے والا یسوع ہی تھا تو اس کی لاش تیسرے دن تک گل سڑ کیوں نہ گئی؟آئیے ان اعتراضات کو بائبل کی روشنی میں دیکھتے ہیں:
پہلے اعتراض کے مطابق یسوع مسیح خو د مصلو ب نہیں ہو ا بلکہ اس کی جگہ اس کا کو ئی ہمشکل مصلو ب ہوا ۔ یہ ایک فلمی اعتراض ہے جس کی بنیا د یسوع مسیح کے ڈبل رو ل پر رکھی گئی ہے لیکن کیا اس فلمی عقیدے کا حقیقت سے کو ئی تعلق ہے ؟ آ ئیے با ئبل مقدس سے رہنما ئی حا صل کریں ۔ آ خری فسح کھا نے کے بعد یسوع شا گردو ں کے سا تھ گتسمنی با غ میں دُعا کے لئے گیا ؛ اگر بالفرض دُعا کے دوران جب شا گرد سو رہے تھے یسو ع مسیح کا سٹنٹ( Stuntسے مُراد ہمشکل ہے) یسو ع کی جگہ لیتا یا Replaceکر تا ہے اور پھر یہو داہ اسکر یو تی آ کر اسی سٹنٹ یسوع کا بو سہ لیتا ہے اور جب شا گردو ں میں سے ایک سر دا ر کاہن کے نو کر کا کا ن اڑا دیتا ہے تو کیا وہ سٹنٹ یسوع اس کے کان کو چھو کر اچھا کر سکتا تھا ؟کیا وہ سٹنٹ یسوع سر دا رکا ہن اور لو گو ں کے سا منے اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا :’ ’سر دا ر کا ہن نے اُس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہو ں کہ اگر تو خدا کا بیٹا یسوع ہے تو ہم سے کہہ دے ۔ْ یسو ع نے اس سے کہاتو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہو ں کہ اِس کے بعد تم ابن آ دم کو قا درِ مطلق کی دہنی طر ف بیٹھے اور آسما ن کے با دلو ں پر آ تے دیکھو گے۔ْ‘‘ (متی ۲۶:۶۳،۶۴) یہا ں مسیح کی ذا تی حقیقت کے با رے میں حلفاً یعنی قسم سے پو چھا گیا ہے۔ کیا کو ئی جھو ٹی قسم اور اتنا بڑادھو کا و د عویٰ ایک سا تھ کر سکتا ہے ؟
اس کے جواب میں یہ کہا جا تا ہے کہ خدا نے سا را انتظام اس طر ح کیا کہ لو گو ں کو یہ سب حقیقت ہی لگا یعنی اس عقیدے کی Justification پر غو ر کریں تو خدا کی پا ک ذا ت کے متعلق بھی ابہا م پیدا ہو تے ہیں ۔ کیا خدا اتنا بڑا ڈرا مہ کر سکتا ہے ؟ کیا خدا بھی عام انسا نو ں کی طر ح انسا نو ں کو دھو کہ دے سکتا ہے ؟ اگر یسوع مسیح کی جگہ سٹنٹ یسوع مصلو ب ہوا تو کیا وہ اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا: ’ ’ اس نے اس سے کہا کہ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہو ں کہ آ ج ہی تو میر ے ساتھ فر دو س میں ہو گا۔ْ‘‘(لو قا ۲۳:۴۳)۔کیا سٹنٹ یسوع کے پاس اتنا اختیا ر تھا ؟ کیا یسوع کی صلیبی مو ت سے متعلق پیشن گو ئیا ں محض جھو ٹ ہیں ؟ ہر گز نہیں شیطان اپنی ہار تسلیم نہیں کر تا اس لئے وہ مسیح کے تجسم ، مصلو بیت اور زندہ جی اٹھنے کے متعلق طر ح طرح کی بد عتیں پھیلا تا ہے ۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : متی باب ۲۶،۲۷ ؛ مرقس باب ۱۴،۱۵ ؛لوقا باب ۲۲،۲۳؛ یو حنا باب ۱۳تا ۱۹ )۔
دوسرے اعتراض کے مطا بق یسوع مسیح کو صلیب پر تو چڑھا یا گیا لیکن وہ صلیب پرُ موا نہیں بلکہ بے ہو شی کی حالت میں صلیب سے اتا ر لیا گیا، اسی حالت میں اسے قبر میں رکھا گیا اور جب اسے ہو ش آ یاتو وہ قبر سے باہر نکل آ یا۔ ہے ناں کسی ناول کی کہا نی ؟ اب بالفرض یہ سب ما ن بھی لیاجا ئے تو کیا اتنے گہرے زخم محض مختصر سے وقت میں ٹھیک ہو گئے ؟ با ئبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں اس با ت کی تصد یق کرتی ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر موا :
’ ’یسوع نے پھر بڑی آ واز سے چلا کر جا ن دے دی۔ْ‘‘(متی۷ ۲:۵۰)
’ ’ارمتیہ کا رہنے والا یو سف آ یا جو عزت دا ر مشیر اور خو د بھی خدا کی با دشا ہی کا منتظر تھا اور اس نے جرا ت سے پیلا طس کے پاس جا کر یسوع کی لاش ما نگی۔ْ اور پیلا طس نے تعجب کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا اور صو بہ دا ر کو بلا کر اُس سے پو چھا کہ اس کو مرے ہو ئے دیر ہو گئی ؟۔ْ جب صو بہ دا ر سے حال معلو م کر لیا تو لا ش یوسف کو دلادی۔ْ‘‘ (مرقس ۱۵:۴۳۔۴۵)۔
’ ’ لیکن جب اُنہو ں نے یسو ع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹا نگیں نہ تو ڑیں۔ْ مگر اُن میں سے ایک سپا ہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اُس سے خو ن اورپا نی بہہ نکلا۔ْ جس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گوا ہی سچی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تاکہ تم بھی ایما ن لا ؤ۔ْ ‘‘ (یو حنا ۱۹:۳۳۔۳۵)۔ یہ تو ہو گئیں با ئبل مقدس کی شہا دتیں آ ئیے اب چند شہا دتیں انسا نی عقل کے تحت بھی دیکھ لیں:
یہو دی یسوع کو کسی نہ کسی عبرت ناک طریقے سے ما رنا چا ہتے تھے جس کا تذکرہ بائبل مقدس میں با رہا ملتا ہے ، اپنی خوا ہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے صلیبی مو ت کا سہارا لیا اور جھو ٹی گوا ہیا ں پیش کر کے سزا ئے مو ت کا حکم بھی صا در کروا لیا ۔انسا نی عقل کے مطابق دیکھاجا ئے تو اتنے لو گ یسو ع کو زندہ حالت میں کیسے اتار سکتے تھے یا پھر اسے زندہ حالت میں لوا حقین کے حوالے کر سکتے تھے ؟
یسو ع مسیح کو صلیبی مو ت سے پہلے بہت اذیت دی گئی ، کو ڑے ما رے گئے اور جب وہ جسما نی طو ر پر بالکل نڈھال ہو گیا تو اُسے گلگتا کی طر ف لے گئے ۔ یسو ع کے نڈھال ہو نے کا اندا زہ ہم اس سے بخو بی لگا سکتے ہیں کہ اسے صلیب تک اٹھا نا مشکل تھا اور وہ صلیب اٹھا کر گر ا بھی۔ اتنی اذیت کے بعد جب اسے صلیب پر کیلو ں سے جڑا گیا تو یہ ایک نہا یت در د نا ک منظر تھا ۔ آ خری فسح کے بعد ہمیں کہیں شوا ہد نہیں ملتے کہ اُسے کچھ کھا نے کو دیا گیاسوا ئے سرکہ کے ۔ اب آ پ کو منصف ٹھہرا تے ہو ئے میں یہ جا ننا چا ہو ں گا کہ اتنی اذیت کے بعد کسی شخص کو اگر وہ زندہ بچا رہے تو بحالی میں کتنے دن لگیں گے ؟ یعنی وہ کتنے دنو ں میں چلنے پھر نے کے قا بل ہو گا ؟ یا د رہے کہ ہا تھو ں پیرو ں میں کیلو ں کے آ ر پا ر گہرے زخم ہیں، پسلی میں نیزہ ہے ، با قی جسم پرکو ڑے ما رے گئے ہیں ۔ آپ کتنا بھی کم سے کم وقت بتا ئیں تو تین دن سے زا ئد ہی بتا ئیں گے اور وہ بھی با قا عدہ علا ج کے سا تھ ۔ اِسی صو ر تِ حال کو بیا ن کر دہ اعترا ض سے منسلک کیاجا ئے تو یہ اعترا ض اپنے عقیدے سمیت بے معنی ہو جا تا ہے ۔
قبر میں کون یسوع کا علاج کر تا رہا ؟ یسو ع اتنی جلدی صحت یاب ہو کر گلیل کیسے چلاگیا ؟ اگر شا گر د اُس کا جسم چرا کر لے گئے اور پھر کسی نا معلو م مقا م پر اس کا علا ج کر تے رہے تو کیا اتنی جلدی اتنے گہرے زخمو ں کا علاج ممکن تھا ؟ وہ کفن کو قبر میں کیو ں چھو ڑ گئے ؟ کیا اُن کے پاس پہرے دا رو ں کی مو جو دگی میں اتنا وقت تھا کہ کپڑے بدل کر یسو ع کو لے گئے ؟ اگر یہ سب شا گردو ں کا کیا دھرا تھا تو پھر مسیح کے زندہ ہو نے پر انہیں حیرت کس با ت کی تھی ؟ وہ جا نتے تھے کہ مسیح زندہ نہیں ہوا بلکہ انہو ں نے خو د اُس کا علا ج معالجہ کیا ہے ۔ اگر مسیح کی لا ش شا گردو ں نے چرا ئی تھی تو پھر انہیں اور اُس کی ماں کو تا ریخ کا اتنا بڑا ڈرامہ کر نے کی کیا ضرو ر ت تھی ؟ اور اگر بالفر ض لا ش چرا بھی لی تو کیا اُسے دو با رہ دفن کیا یا کہیں پھینک دیا گیا ؟ کیا کو ئی بتا سکتا ہے ؟یا پھر کوئی مسیح کی دوسری قبر کا ہی بتا دے؟
دو سری طر ف دیکھیں تو یسوع کو صلیبی مو ت کی سزا سنا ئی گئی ۔عا م عدالتو ں میں جب کسی کوسزا ئے مو ت سنا ئی جائے تو جج یہ جملہ بے مقصد نہیں لکھتے:
TO BE HANGED TILL DEATH
یسوع کو بھی یہی سزا سنا ئی گئی ۔ مو جو دہ دو ر میں سزا ئے مو ت پا نے والے کی لاش مکمل تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کر دی جا تی ہے ۔ بالکل یہی سلسلہ یسو ع کے ساتھ پیش آ یا اور اُس کی لا ش با قا عدہ تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کی گئی جس کا ذکر با ئبل مقدس میں موجودہے ۔ کیا وہ سب دھو کا کھا گئے ؟کیا بے ہو ش یسو ع کو مر دہ قرا ر دیا گیا ؟ ہر گز نہیں ! سا را زما نہ دھو کہ کھا جا ئے مگر کیا ایک ما ں اپنے بیٹے کو زندہ در گو ر کر سکتی ہے؟ میرا یہ سوال ان تما م معترض حضرا ت سے ہے کہ کیا ان کا ضمیر اجا زت دے گا کہ وہ اپنی اولاد تو درکنار کسی غیر کو بھی زندہ در گو ر کر سکیں ؟
تیسرے اعتراض کے مطابق یسوع کو بدھ والے دن مصلوب کیا گیانہ کہ جمعے والے دن۔ ان کے مطابق گڈ فرائیڈے ایک فضول اور من گھڑت تہوار ہے ۔ صرف یوناہ نبی کی تین دن اور تین رات والی بات کو پکڑ کر یہ لوگ پوری تاریخ ہی مسخ کر رہے ہیں۔ فرض کریں یسوع بدھ ہی کو مصلوب ہوا اب ذرا ان باتوں کے جواب بھی دیں تاکہ میں قائل ہو سکوں:
بدھ شام ۶ بجے کے بعد جمعرات شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔ پہلا دن
جمعرات شام ۶ بجے کے بعد جمعہ شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔دوسرا دن
جمعہ شام ۶ بجے کے بعدسبت شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔تیسرا دن
سبت شام ۶ بجے کے بعداتوار شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی صبح ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔چوتھا دن
اس حساب کے مطابق یسوع چوتھے دن کی صبح زندہ ہو رہا ہے جبکہ کلام مقدس اسکے تیسرے دن زندہ ہونے کا ذکر کرتا ہے۔یوں اس حسابی فارمولے کے تحت تیسرا دن ہفتے کا دن بنتا ہے جبکہ ہفتے کے دن آرام کا ذکر ہے۔لوقا ۲۴ : ۱،۲دیکھیں: ’’ سبت کے دن تو انہوں نے حکم کے مطابق آ رام کیا۔ْ لیکن ہفتے کے پہلے دن وہ صبح سویرے ہی ان خوشبودار چیزوں کو جو تیار کی تھیں لیکر قبر پر آئیں۔ْ ‘‘ نیز لوقا۲۴: ۲۱،۲۲ دیکھیں: ’’ لیکن ہم کو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دیگا اور علاوہ ان سب باتوں کے اس ماجرے کو آج تیسرا دن ہو گیا۔ْ اور ہم میں سے چند عورتوں نے بھی ہم کو حیران کر دیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تھیں۔ْ ‘‘ اگر یسوع بدھ واے دن مصلوب ہوا تو ہفتے کا پہلا دن تیسرا کیسے بنتا ہے؟
نئے عہد نامہ میں تیرہ مرتبہ یسوع کے تیسرے دن زندہ ہونے کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ شاگردوں کے مطابق یہ تیسرا دن تھا (لوقا۲۴:۲۱)، فرشتوں نے بھی تیسرے دن کا ہی کہا ( لوقا۲۴:۷)، پطرس بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے (اعمال ۱۰:۴۰)، پولوس بھی یہی کہتا ہے (کرنتھیوں ۱۵:۴)، یسوع کے دشمنوں نے بھی تیسرے دن تک پہرے کی درخواست کی (متی ۲۷:۶۴،۶۳) اور سب سے بڑھ کر یسوع نے خود یہی کہا (یوحنا ۲: ۲۲۔۱۹)۔
اگر یسوع بدھ والے دن مصلوب ہوا اور جمعرات فسح کے برہ کی تیاری کا دن تھا تو عورتوں نے جمعے والے دن خوشبودار چیزیں لاش کو کیوں نہ لگائیں؟ آخر وہ چوتھے دن تک کیوں انتظار کرتی رہیں؟ دراصل یہ تیاری کا دن تھا اور انہیں سبت کی تیاری بھی کرنا تھی کیونکہ جمعے کی شام چھے بجے سے سبت شروع ہو جانا تھا جس کا ذکر بھی موجود ہے: ’’ اور
دیکھو یوسف نام ایک شخص مشیر تھا جو نیک اور راستباز آدمی تھا ۔ْ اور انکی صلاح اور کام سے رضامند نہ تھا ۔ یہ یہودیوں کے شہر ارمتیہ کا باشندہ اور خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا۔ْ اس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی ۔ْ اور اس کو اتار کر مہین چادر میں لپیٹا ۔ پھر ایک قبر کے اندر رکھ دیا جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی اور اس میں کوئی کبھی رکھا نہ گیا تھا ۔ْ وہ تیاری کا دن تھا اور سبت کا دن شروع ہونے کو تھا۔ْ اور ان عورتوں نے جو اسکے ساتھ گلیل سے آئی تھیں پیچھے پیچھے جا کر اس قبر کو دیکھا اور یہ بھی کہ اس کی لاش کس طرح رکھی گئی۔ْ اور لوٹ کر خوشبودار چیزیں اور عطر تیار کیا۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۳:۵۶۔۵۰) ۔ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا کیا یہ بات بدھ کی شام کے متعلق کہی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں یہ جمعے کی شام کے متعلق ہی ہے کیونکہ شام چھے بجے سبت شروع ہونے کو تھا اسلئے یسوع کو سبت شروع ہونے سے پہلے دفنایا گیااور سبت جمعے کی شام سے ہی شروع ہوتا ہے بدھ کی شام سے نہیں۔ عورتوں نے لوٹ کر خوشبودار چیزیں تیار کیں یعنی جمعے والے دن ہی تیار کر لیں اور صرف ایک دن یعنی سبت کے دن حکم کے مطابق آرام کیا نہ کہ جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ آرام کر کے اتوار کو قبر پر گئیں یہ تو ویسے بھی خلافِ عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ لعزر کے واقعہ سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اتنے دنوں بعد لاش سے بدبو آتی ہے۔
جو لوگ تیاری کے دن کو بدھ سمجھ کر فسح کی تیاری سے منسلک کر رہے ہیں وہ شدید غلطی پر ہیں کیونکہ فسح کے برہ کی قربانی جمعرات کو بنتی ہے اور یسوع مصلوب ہونے سے پہلے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری فسح کھا چکا تھا۔ یہی وہ فسح تھی جسکی تیاری کا ذکر ہمیں یوں ملتا ہے : ’’اور عید فطیر کا دن آیاجس میں فسح ذبح کرنا فرض تھا۔ْ اور یسوع نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جا کر ہمارے کھانے کے لئے فسح تیار کرو۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۲: ۸،۷)۔ یہی وہ موقع تھا جب یسوع نے شاگردوں کے پاؤں دھوئے اور اسی رات یسوع پکڑوایا گیا۔ یہ منگل ہرگز نہ تھا۔ خدارا ! اتنی بڑی تاریخی غلطی نہ کریں یہ تیاری کا دن سبت کی تیاری کا دن ہے جیسا کہ اوپر واضح طور پہ بیان کیا گیا ہے کہ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا ۔
یونانی لفظ Paraskeue کا ترجمہ تیاری کا دن کیا گیا ہے۔ Paraskeueسے مراد ہفتے کا چھٹا دن یعنی سبت سے پہلا دن ہے ۔ آج بھی یونانی یہودی جمعے کے دن کو Paraskeue کہتے ہیں۔ پس تیاری کا دن بدھ کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر فرض کر لیں کہ یہ بدھ ہی تھا تو پھر سبت کس حساب سے شروع ہوتا ہے؟ بدھ کے بعد جمعرات اور جمعہ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں کہ دو دن پہلے ہی سبت کی تیاری کر کے بیٹھ جائیں؟ کیا ہم اتوار سے ایک دن پہلے ہفتے والے دن ہی عبادت کی تیاری نہیں کرتے؟ یا پھر دو دن پہلے جمعرات کو تیار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں؟ آپ بھی سوچئے۔
یو ناہ نبی کے نشا ن کے با رے میں یسوع مسیح خو د بیا ن کر تا ہے:’’اِس زمانہ کے بُرے اور زنا کا ر لو گ نشا ن طلب کر تے ہیں مگر یو نا ہ نبی کے نشان کے سوا کو ئی اور نشا ن اُن کو نہ دیا جا ئے گا ۔ْکیو نکہ جیسے یو نا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہاویسے ہی ابن آ دم تین را ت دن زمین کے اندر رہے گا۔ْ‘ ‘ (متی ۱۲:۳۹،۴۰)۔ بمطابق انگریزی ترجمہ:
An evil and adulterous generation craves for a sign; and yet no sign shall be given to it but the sign of Jonah the prophet; for just as Jonah was three days and three nights in the belley of the sea monster, so shall the Son of man be three
days and three nights in the heart of the earth. (Matthew 12 :39,40)
اُردو تر جمہ کے مطا بق یو نا ہ مجموعی طور پرتین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا جبکہ انگریزی ترجمہ کے مطا بق یو نا ہ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ۔ مزید وضا حت کے لئے ہم یو نا ہ کی کتاب کے اصل متن میں دیکھتے ہیں :’ ’لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یو نا ہ کو نگل جا ئے اور یونا ہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ْ ‘ ‘ (یو نا ہ ۱: ۱۷) اب اس کا انگریزی ترجمہ بھی ملاحظہ ہو:
And the Lord appointed a great fish to swallow Jonah, and Jonah was in the stomach of the fish for three days and three
nights . (Jonah 1:17)
یہا ں بھی دو نو ں تراجم ایک دو سرے سے اسی لحا ظ سے فر ق نظر آ تے ہیں لیکن اگر اُردو تر جمے کو درست تصور کیا جا ئے تو پھر اِس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ انگریزی تر جمہ غلط ہے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ اُردو تر جمہ اصل عبرا نی متن سے قریب تر ہے ۔ یسوع مسیح واقعتا تین رات دن زمین کے اندررہا ۔تین رات دن سے مرا د : (i) جمعہ کی را ت (ii) ہفتے کا دن (iii) ہفتے کی را ت یعنی یہ کل ملا کر تین رات دن بنتے ہیں ۔ دراصل معترض کو اعترا ض ترجمے کی صحت پر ہونا چا ہئے نہ کہ اِس بات پر کہ یو نا ہ کا نشان پو را نہیں ہوتا۔جنا ب ! یو نا ہ کا نشا ن تو بڑے ہی خو د کا ر طریقے سے پو را ہورہا ہے پتہ نہیں آ پ کو سمجھ کیو ں نہیں آ رہا ؟ جمعے کی را ت ، ہفتے کا دن اور پھر ہفتے کی را ت مل کر تین رات دن ہی بنتے ہیں نہ کہ تین دن اور تین را تیں ہیں ۔
یو نا ہ کے نشان کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یو نا ہ مچھلی کے پیٹ کے اندر زندہ تھا جبکہ مسیحی کہتے ہیں کہ یسو ع مسیح مرنے کے بعد قبر میں رکھا گیا ۔ اگر یو نا ہ کے نشان پر غو ر کریں تو یہ بات تین رات دن کے حوالہ سے ہے نہ کہ زندہ یا مُردہ حالت کے لئے ۔ با رہویں باب میں ہم یہ ثا بت کر چکے ہیں کہ یسوع مسیح صلیب پر موا اور پھر دفن کیا گیا۔ آ خر قبر کے اندر کی حالت کیا تھی ؟ یسوع مسیح قبر کے اندر کیا کر تا رہا ؟ پطرس رسول ہما ری یہ مشکل آ سا ن کر دیتا ہے : ’ ’وہ جسم کے اعتبا ر سے تو ما را گیا لیکن رُو ح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا ۔ْ اُسی میں اُس نے جا کر اُن قیدی رُو حوں میں منا دی کی ۔ْ جو اُس اگلے زمانہ میں نا فر ما ن تھیں جب خدا نو ح کے وقت میں تحمل کر کے ٹھہرا رہا تھاا ور وہ کشتی تیار ہو رہی تھی جس پر سوار ہو کر
تھو ڑے سے آ دمی یعنی آ ٹھ جا نیں پا نی کے وسیلہ سے بچیں ۔ْ اور اُس پا نی کا مشا بہ بھی یعنی بپتسمہ یسوع مسیح کے جی اٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں بچا تا ہے اُس سے جسم کی نجا ست کا دُور کر نا مراد نہیں بلکہ خا لص نیت سے خدا کا طالب ہو نا مرا د ہے۔ْ‘ ‘ (۱۔ پطرس۳:۱۸۔۲۱)
مندرجہ بالا اقتباس سے ایک بات کھل کر سامنے آ تی ہے کہ یسوع مسیح کا جسم تو قبر میں تھا مگر اُس کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں منا دی کر رہی تھی ۔اِس خیال کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور حوالہ پیش کر نا چا ہوں گا: ’ ’جب وہ عالمِ بالا پر چڑھا تو قیدیو ں کو سا تھ لے گیا اورآ دمیوں کو انعا م دئیے ۔ْ ( اُس کے چڑھنے سے اور کیا پا یا جا تا ہے سوا اس کے کہ وہ زمین کے نیچے کے علا قہ میں اُترا بھی تھا؟۔ْ اور یہ اُترنے والا وہی ہے جو سب آسما نو ں سے بھی اوپر چڑھ گیا تا کہ سب چیزو ں کو معمو ر کر ے)۔ْ ‘ ‘ (افسیو ں ۴:۸۔۱۰)
پس یہ بات بڑے وثو ق سے کہی جا سکتی ہے کہ یسوع مسیح کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں جو عالمِ اروا ح میں تھیں منا دی کر نے گئی جبکہ اس کا جسم قبر میں رہا ۔ اگر ہم کہیں کہ یسوع مسیح جسم سمیت قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے گیا تو دُرست نہیں ہوگا کیو نکہ اُسے عالمِ اروا ح میں بحیثیت رُو ح ہی جا تا تھا ۔ رُو ح منا دی کر نے کے بعد جسم میں واپس آ ئی اور پھر یسو ع مسیح زندہ ہوا اِسی لئے یسوع نے مر یم سے کہا کہ مجھے نہ چھوُ ، میں ابھی تک باپ کے پاس نہیں گیا یعنی یسو ع مسیح رُو حا نی حالت میں منا دی کر نے عالمِ اروا ح میں گیا نہ کہ سیدھا باپ کے پاس جسما نی حالت میں ۔قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے کا مقصد یہ تھا کہ جو لو گ یسوع مسیح کے دو رِ خو شخبری سے پیشتر مر چکے ہیں انہیں عالمِ اروا ح میں خو شخبری سنا ئی جائے تا کہ وہ بھی اِس خو شخبری پر ایمان لا کر نجا ت حاصل کر یں یعنی یسو ع مسیح اپنے نجات کے پیغام کو تما م جہا نو ں اور تما م ادوار کے لئے یکسا ں یا Universalizeکر رہا ہے ۔ یسو ع مسیح صرف مو جو د ہ جہا ن کے لئے ہی نہیں بلکہ ما ضی اورمستقبل کو بھی نجا ت کی خو شخبری دے رہا ہے:
(i) زمین کے نیچے پا تال میں قیدی رُو حیں جو بر گشتگی میں تھیں زمانہ ما ضی
(ii) زمین کے اوپر اُس وقت کے لو گ جو یسوع پر ایمان لا ئے زمانہ حال
(iii) زمین کے اوپر آ ئندہ جہان والے یسو ع کے تا بع ہو ں زما نہ مستقبل
یسو ع مسیح نے اپنی نجات کے پیغام کو ابتدا سے انتہا تک مکمل کیا ۔یو حنا ۱۷:۲۰،۲۱ میں یسوع نجات کے پیغام کو عالمگیر کر رہا ہے : ’ ’میں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کر تا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایما ن لا ئیں گے تاکہ وہ سب ایک ہو ں۔ْ‘ ‘
یسوع مسیح کی صلیبی مو ت کو ہم با ئبل مقدس سے ثا بت کر چکے ہیں لیکن یسوع مسیح کی مو ت پر ایک اعترا ض یہ بھی ہے کہ اگر مرنے والا یسوع مسیح ہی تھا تو پھر اُس کی لا ش تیسرے دن تک صیح حالت میں کیسے رہی ؟اِس میں گلنے سڑنے کا عمل کیو ں شروع نہ ہو ا ؟ یسوع مسیح کی مو ت کو اِس پہلو سے دیکھنے کے لئے ہمیں اپنے مطالعہ کو وسیع کرنا ہو گا ۔ موضوع پربحث شروع کر نے سے پہلے ہمیں یہ با ت ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسو ع مسیح نہ تو کو ئی بو ڑھا آ دمی تھا اور نہ ہی بیما ری کی وجہ سے اُس کا جسم کمزو ر تھا۔ اُسے تندرست حالت میں گرفتار کیا گیا اورانسا نی جسم اتنا حساس نہیں کہ مرنے کے فو راً بعد گلنا سڑنا شروع ہوجا ئے ۔ انسا نی لاش گلنے سڑنے کے دو ران مختلف مرا حل سے گزرتی ہے لیکن اعترا ض کی نو عیت اور مدت کو مد نظر رکھتے ہو ئے میں یہا ں صرف پہلے مر حلے کو ہی بیان کرو ں گا ۔
Decomposition یا گلنے سڑنے کا ابتدا ئی یا پہلا مر حلہ تدفین کے چند روز بعدباضابطہ طور پر شروع ہو تا ہے ۔ ابتدا ئی مر حلے میں انسا نی جسم کا درجہ حرا رت کم سے کم در جہ تک چلا جا تا ہے اور اس کے سا تھ سا تھ جسم میں مو جود با فتیں نا کا رہ ہو کر کیمیا ئی عمل کا حصہ بننا شروع ہو جا تی ہیں، جسم با لکل سخت حالت میں اکڑ جا تا ہے اور کیڑو ں کا حملہ شروع ہو جا تا ہے۔ یہ کیڑے اسی حملے کے دو ران نئے انڈے دیتے ہیں ۔ پہلے مر حلے میں حملہ کر نے والے کیڑو ں کا تعلق Diptera یا Calliphoridae گروہ سے ہوتا ہے ۔ اِس مر حلے میں بیکٹیر یا کا بڑا اہم کر دا ر ہے جو انسا نی جسم میں مو جود کا ربو ہا ئیڈ ریٹس اور پرو ٹین وغیرہ کو تحلیل کر تا ہے ۔ گلنے سڑنے کے عمل میں خو ن ایک محرک کا کر دا ر ادا کر تا ہے۔ اگر دیکھا جا ئے تو یسو ع مسیح کا خو ن صلیب پر ہی بہہ چکا تھا یعنی یسوع کی لاش کا تیزی سے گلنا سڑنا مشکل تھا ۔ یسوع کی لاش دو را تیں اور ایک دن قبر کے اندر رہی ،گلنے سڑنے کا عمل چند روز بعد شروع ہوتا ہے کیا مسیح کے لئے یہ ایک دن بعد ہی شرو ع ہو جا ناتھا ؟ اگر مرنے والے کا جسم بیما ری کی وجہ سے خرا ب نہ ہوا ہو تو ایک دو دن تک لا ش کو سر د خانے کی بجا ئے گھرو ں میں ہی رکھ لیتے ہیں تاکہ دو ردرازسے آنے والے عزیز و اقا ر ب بھی مر نے والے کا آ خری دیدار کر سکیں ۔ نیز ہمیں یہ با ت بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسوع مسیح کی مصلو بیت کے وقت سر دی کا موسم تھا اور یہ سردی اس قدر تھی کہ لوگ آ گ تا پتے تھے: ’ ’نوکر اور پیادے جا ڑے کے سبب سے کو ئلے دہکا کر کھڑے تاپ ر ہے تھے اور پطرس بھی اُن کے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا۔ْ ‘ ‘ ( یو حنا ۱۸:۱۸) اب مو سم کیو نکہ سردی کا تھا اِس لئے لا ش کے جلد سڑنے کے امکا نا ت اور بھی کم تھے ۔جب اتنے سا رے ثبو ت آ پ کے خلا ف ہیں تو پھر آ پ کیو ں اپنے با طل مو قف پر بضد ہیں ؟آپ کیوں اِس نبوت کو باطل ثا بت کر نے کی ناکا م کو شش کر رہے ہیں: ’ ’کیونکہ تو نہ میری جا ن کو پا تال میں رہنے دیگا اور نہ اپنے مقدس کو سڑنے دیگا۔ْ ‘ ‘(زبور ۱۶:۱۰)۔
پہلے اعتراض کے مطابق یسوع مسیح خو د مصلو ب نہیں ہو ا بلکہ اس کی جگہ اس کا کو ئی ہمشکل مصلو ب ہوا ۔ یہ ایک فلمی اعتراض ہے جس کی بنیا د یسوع مسیح کے ڈبل رو ل پر رکھی گئی ہے لیکن کیا اس فلمی عقیدے کا حقیقت سے کو ئی تعلق ہے ؟ آ ئیے با ئبل مقدس سے رہنما ئی حا صل کریں ۔ آ خری فسح کھا نے کے بعد یسوع شا گردو ں کے سا تھ گتسمنی با غ میں دُعا کے لئے گیا ؛ اگر بالفرض دُعا کے دوران جب شا گرد سو رہے تھے یسو ع مسیح کا سٹنٹ( Stuntسے مُراد ہمشکل ہے) یسو ع کی جگہ لیتا یا Replaceکر تا ہے اور پھر یہو داہ اسکر یو تی آ کر اسی سٹنٹ یسوع کا بو سہ لیتا ہے اور جب شا گردو ں میں سے ایک سر دا ر کاہن کے نو کر کا کا ن اڑا دیتا ہے تو کیا وہ سٹنٹ یسوع اس کے کان کو چھو کر اچھا کر سکتا تھا ؟کیا وہ سٹنٹ یسوع سر دا رکا ہن اور لو گو ں کے سا منے اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا :’ ’سر دا ر کا ہن نے اُس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہو ں کہ اگر تو خدا کا بیٹا یسوع ہے تو ہم سے کہہ دے ۔ْ یسو ع نے اس سے کہاتو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہو ں کہ اِس کے بعد تم ابن آ دم کو قا درِ مطلق کی دہنی طر ف بیٹھے اور آسما ن کے با دلو ں پر آ تے دیکھو گے۔ْ‘‘ (متی ۲۶:۶۳،۶۴) یہا ں مسیح کی ذا تی حقیقت کے با رے میں حلفاً یعنی قسم سے پو چھا گیا ہے۔ کیا کو ئی جھو ٹی قسم اور اتنا بڑادھو کا و د عویٰ ایک سا تھ کر سکتا ہے ؟
اس کے جواب میں یہ کہا جا تا ہے کہ خدا نے سا را انتظام اس طر ح کیا کہ لو گو ں کو یہ سب حقیقت ہی لگا یعنی اس عقیدے کی Justification پر غو ر کریں تو خدا کی پا ک ذا ت کے متعلق بھی ابہا م پیدا ہو تے ہیں ۔ کیا خدا اتنا بڑا ڈرا مہ کر سکتا ہے ؟ کیا خدا بھی عام انسا نو ں کی طر ح انسا نو ں کو دھو کہ دے سکتا ہے ؟ اگر یسوع مسیح کی جگہ سٹنٹ یسوع مصلو ب ہوا تو کیا وہ اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا تھا: ’ ’ اس نے اس سے کہا کہ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہو ں کہ آ ج ہی تو میر ے ساتھ فر دو س میں ہو گا۔ْ‘‘(لو قا ۲۳:۴۳)۔کیا سٹنٹ یسوع کے پاس اتنا اختیا ر تھا ؟ کیا یسوع کی صلیبی مو ت سے متعلق پیشن گو ئیا ں محض جھو ٹ ہیں ؟ ہر گز نہیں شیطان اپنی ہار تسلیم نہیں کر تا اس لئے وہ مسیح کے تجسم ، مصلو بیت اور زندہ جی اٹھنے کے متعلق طر ح طرح کی بد عتیں پھیلا تا ہے ۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : متی باب ۲۶،۲۷ ؛ مرقس باب ۱۴،۱۵ ؛لوقا باب ۲۲،۲۳؛ یو حنا باب ۱۳تا ۱۹ )۔
دوسرے اعتراض کے مطا بق یسوع مسیح کو صلیب پر تو چڑھا یا گیا لیکن وہ صلیب پرُ موا نہیں بلکہ بے ہو شی کی حالت میں صلیب سے اتا ر لیا گیا، اسی حالت میں اسے قبر میں رکھا گیا اور جب اسے ہو ش آ یاتو وہ قبر سے باہر نکل آ یا۔ ہے ناں کسی ناول کی کہا نی ؟ اب بالفرض یہ سب ما ن بھی لیاجا ئے تو کیا اتنے گہرے زخم محض مختصر سے وقت میں ٹھیک ہو گئے ؟ با ئبل مقدس بڑے وا ضع الفا ظ میں اس با ت کی تصد یق کرتی ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر موا :
’ ’یسوع نے پھر بڑی آ واز سے چلا کر جا ن دے دی۔ْ‘‘(متی۷ ۲:۵۰)
’ ’ارمتیہ کا رہنے والا یو سف آ یا جو عزت دا ر مشیر اور خو د بھی خدا کی با دشا ہی کا منتظر تھا اور اس نے جرا ت سے پیلا طس کے پاس جا کر یسوع کی لاش ما نگی۔ْ اور پیلا طس نے تعجب کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا اور صو بہ دا ر کو بلا کر اُس سے پو چھا کہ اس کو مرے ہو ئے دیر ہو گئی ؟۔ْ جب صو بہ دا ر سے حال معلو م کر لیا تو لا ش یوسف کو دلادی۔ْ‘‘ (مرقس ۱۵:۴۳۔۴۵)۔
’ ’ لیکن جب اُنہو ں نے یسو ع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹا نگیں نہ تو ڑیں۔ْ مگر اُن میں سے ایک سپا ہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اُس سے خو ن اورپا نی بہہ نکلا۔ْ جس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گوا ہی سچی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تاکہ تم بھی ایما ن لا ؤ۔ْ ‘‘ (یو حنا ۱۹:۳۳۔۳۵)۔ یہ تو ہو گئیں با ئبل مقدس کی شہا دتیں آ ئیے اب چند شہا دتیں انسا نی عقل کے تحت بھی دیکھ لیں:
یہو دی یسوع کو کسی نہ کسی عبرت ناک طریقے سے ما رنا چا ہتے تھے جس کا تذکرہ بائبل مقدس میں با رہا ملتا ہے ، اپنی خوا ہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے صلیبی مو ت کا سہارا لیا اور جھو ٹی گوا ہیا ں پیش کر کے سزا ئے مو ت کا حکم بھی صا در کروا لیا ۔انسا نی عقل کے مطابق دیکھاجا ئے تو اتنے لو گ یسو ع کو زندہ حالت میں کیسے اتار سکتے تھے یا پھر اسے زندہ حالت میں لوا حقین کے حوالے کر سکتے تھے ؟
یسو ع مسیح کو صلیبی مو ت سے پہلے بہت اذیت دی گئی ، کو ڑے ما رے گئے اور جب وہ جسما نی طو ر پر بالکل نڈھال ہو گیا تو اُسے گلگتا کی طر ف لے گئے ۔ یسو ع کے نڈھال ہو نے کا اندا زہ ہم اس سے بخو بی لگا سکتے ہیں کہ اسے صلیب تک اٹھا نا مشکل تھا اور وہ صلیب اٹھا کر گر ا بھی۔ اتنی اذیت کے بعد جب اسے صلیب پر کیلو ں سے جڑا گیا تو یہ ایک نہا یت در د نا ک منظر تھا ۔ آ خری فسح کے بعد ہمیں کہیں شوا ہد نہیں ملتے کہ اُسے کچھ کھا نے کو دیا گیاسوا ئے سرکہ کے ۔ اب آ پ کو منصف ٹھہرا تے ہو ئے میں یہ جا ننا چا ہو ں گا کہ اتنی اذیت کے بعد کسی شخص کو اگر وہ زندہ بچا رہے تو بحالی میں کتنے دن لگیں گے ؟ یعنی وہ کتنے دنو ں میں چلنے پھر نے کے قا بل ہو گا ؟ یا د رہے کہ ہا تھو ں پیرو ں میں کیلو ں کے آ ر پا ر گہرے زخم ہیں، پسلی میں نیزہ ہے ، با قی جسم پرکو ڑے ما رے گئے ہیں ۔ آپ کتنا بھی کم سے کم وقت بتا ئیں تو تین دن سے زا ئد ہی بتا ئیں گے اور وہ بھی با قا عدہ علا ج کے سا تھ ۔ اِسی صو ر تِ حال کو بیا ن کر دہ اعترا ض سے منسلک کیاجا ئے تو یہ اعترا ض اپنے عقیدے سمیت بے معنی ہو جا تا ہے ۔
قبر میں کون یسوع کا علاج کر تا رہا ؟ یسو ع اتنی جلدی صحت یاب ہو کر گلیل کیسے چلاگیا ؟ اگر شا گر د اُس کا جسم چرا کر لے گئے اور پھر کسی نا معلو م مقا م پر اس کا علا ج کر تے رہے تو کیا اتنی جلدی اتنے گہرے زخمو ں کا علاج ممکن تھا ؟ وہ کفن کو قبر میں کیو ں چھو ڑ گئے ؟ کیا اُن کے پاس پہرے دا رو ں کی مو جو دگی میں اتنا وقت تھا کہ کپڑے بدل کر یسو ع کو لے گئے ؟ اگر یہ سب شا گردو ں کا کیا دھرا تھا تو پھر مسیح کے زندہ ہو نے پر انہیں حیرت کس با ت کی تھی ؟ وہ جا نتے تھے کہ مسیح زندہ نہیں ہوا بلکہ انہو ں نے خو د اُس کا علا ج معالجہ کیا ہے ۔ اگر مسیح کی لا ش شا گردو ں نے چرا ئی تھی تو پھر انہیں اور اُس کی ماں کو تا ریخ کا اتنا بڑا ڈرامہ کر نے کی کیا ضرو ر ت تھی ؟ اور اگر بالفر ض لا ش چرا بھی لی تو کیا اُسے دو با رہ دفن کیا یا کہیں پھینک دیا گیا ؟ کیا کو ئی بتا سکتا ہے ؟یا پھر کوئی مسیح کی دوسری قبر کا ہی بتا دے؟
دو سری طر ف دیکھیں تو یسوع کو صلیبی مو ت کی سزا سنا ئی گئی ۔عا م عدالتو ں میں جب کسی کوسزا ئے مو ت سنا ئی جائے تو جج یہ جملہ بے مقصد نہیں لکھتے:
TO BE HANGED TILL DEATH
یسوع کو بھی یہی سزا سنا ئی گئی ۔ مو جو دہ دو ر میں سزا ئے مو ت پا نے والے کی لاش مکمل تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کر دی جا تی ہے ۔ بالکل یہی سلسلہ یسو ع کے ساتھ پیش آ یا اور اُس کی لا ش با قا عدہ تصدیق کے بعد ورثا ء کے حوالے کی گئی جس کا ذکر با ئبل مقدس میں موجودہے ۔ کیا وہ سب دھو کا کھا گئے ؟کیا بے ہو ش یسو ع کو مر دہ قرا ر دیا گیا ؟ ہر گز نہیں ! سا را زما نہ دھو کہ کھا جا ئے مگر کیا ایک ما ں اپنے بیٹے کو زندہ در گو ر کر سکتی ہے؟ میرا یہ سوال ان تما م معترض حضرا ت سے ہے کہ کیا ان کا ضمیر اجا زت دے گا کہ وہ اپنی اولاد تو درکنار کسی غیر کو بھی زندہ در گو ر کر سکیں ؟
تیسرے اعتراض کے مطابق یسوع کو بدھ والے دن مصلوب کیا گیانہ کہ جمعے والے دن۔ ان کے مطابق گڈ فرائیڈے ایک فضول اور من گھڑت تہوار ہے ۔ صرف یوناہ نبی کی تین دن اور تین رات والی بات کو پکڑ کر یہ لوگ پوری تاریخ ہی مسخ کر رہے ہیں۔ فرض کریں یسوع بدھ ہی کو مصلوب ہوا اب ذرا ان باتوں کے جواب بھی دیں تاکہ میں قائل ہو سکوں:
بدھ شام ۶ بجے کے بعد جمعرات شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔ پہلا دن
جمعرات شام ۶ بجے کے بعد جمعہ شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔دوسرا دن
جمعہ شام ۶ بجے کے بعدسبت شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی شام ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔تیسرا دن
سبت شام ۶ بجے کے بعداتوار شروع ۔۔ ۔شام ۶ بجے سے اگلی صبح ۶ بجے تک ۔ ۔ ۔چوتھا دن
اس حساب کے مطابق یسوع چوتھے دن کی صبح زندہ ہو رہا ہے جبکہ کلام مقدس اسکے تیسرے دن زندہ ہونے کا ذکر کرتا ہے۔یوں اس حسابی فارمولے کے تحت تیسرا دن ہفتے کا دن بنتا ہے جبکہ ہفتے کے دن آرام کا ذکر ہے۔لوقا ۲۴ : ۱،۲دیکھیں: ’’ سبت کے دن تو انہوں نے حکم کے مطابق آ رام کیا۔ْ لیکن ہفتے کے پہلے دن وہ صبح سویرے ہی ان خوشبودار چیزوں کو جو تیار کی تھیں لیکر قبر پر آئیں۔ْ ‘‘ نیز لوقا۲۴: ۲۱،۲۲ دیکھیں: ’’ لیکن ہم کو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دیگا اور علاوہ ان سب باتوں کے اس ماجرے کو آج تیسرا دن ہو گیا۔ْ اور ہم میں سے چند عورتوں نے بھی ہم کو حیران کر دیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تھیں۔ْ ‘‘ اگر یسوع بدھ واے دن مصلوب ہوا تو ہفتے کا پہلا دن تیسرا کیسے بنتا ہے؟
نئے عہد نامہ میں تیرہ مرتبہ یسوع کے تیسرے دن زندہ ہونے کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ شاگردوں کے مطابق یہ تیسرا دن تھا (لوقا۲۴:۲۱)، فرشتوں نے بھی تیسرے دن کا ہی کہا ( لوقا۲۴:۷)، پطرس بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے (اعمال ۱۰:۴۰)، پولوس بھی یہی کہتا ہے (کرنتھیوں ۱۵:۴)، یسوع کے دشمنوں نے بھی تیسرے دن تک پہرے کی درخواست کی (متی ۲۷:۶۴،۶۳) اور سب سے بڑھ کر یسوع نے خود یہی کہا (یوحنا ۲: ۲۲۔۱۹)۔
اگر یسوع بدھ والے دن مصلوب ہوا اور جمعرات فسح کے برہ کی تیاری کا دن تھا تو عورتوں نے جمعے والے دن خوشبودار چیزیں لاش کو کیوں نہ لگائیں؟ آخر وہ چوتھے دن تک کیوں انتظار کرتی رہیں؟ دراصل یہ تیاری کا دن تھا اور انہیں سبت کی تیاری بھی کرنا تھی کیونکہ جمعے کی شام چھے بجے سے سبت شروع ہو جانا تھا جس کا ذکر بھی موجود ہے: ’’ اور
دیکھو یوسف نام ایک شخص مشیر تھا جو نیک اور راستباز آدمی تھا ۔ْ اور انکی صلاح اور کام سے رضامند نہ تھا ۔ یہ یہودیوں کے شہر ارمتیہ کا باشندہ اور خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا۔ْ اس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی ۔ْ اور اس کو اتار کر مہین چادر میں لپیٹا ۔ پھر ایک قبر کے اندر رکھ دیا جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی اور اس میں کوئی کبھی رکھا نہ گیا تھا ۔ْ وہ تیاری کا دن تھا اور سبت کا دن شروع ہونے کو تھا۔ْ اور ان عورتوں نے جو اسکے ساتھ گلیل سے آئی تھیں پیچھے پیچھے جا کر اس قبر کو دیکھا اور یہ بھی کہ اس کی لاش کس طرح رکھی گئی۔ْ اور لوٹ کر خوشبودار چیزیں اور عطر تیار کیا۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۳:۵۶۔۵۰) ۔ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا کیا یہ بات بدھ کی شام کے متعلق کہی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں یہ جمعے کی شام کے متعلق ہی ہے کیونکہ شام چھے بجے سبت شروع ہونے کو تھا اسلئے یسوع کو سبت شروع ہونے سے پہلے دفنایا گیااور سبت جمعے کی شام سے ہی شروع ہوتا ہے بدھ کی شام سے نہیں۔ عورتوں نے لوٹ کر خوشبودار چیزیں تیار کیں یعنی جمعے والے دن ہی تیار کر لیں اور صرف ایک دن یعنی سبت کے دن حکم کے مطابق آرام کیا نہ کہ جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ آرام کر کے اتوار کو قبر پر گئیں یہ تو ویسے بھی خلافِ عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ لعزر کے واقعہ سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اتنے دنوں بعد لاش سے بدبو آتی ہے۔
جو لوگ تیاری کے دن کو بدھ سمجھ کر فسح کی تیاری سے منسلک کر رہے ہیں وہ شدید غلطی پر ہیں کیونکہ فسح کے برہ کی قربانی جمعرات کو بنتی ہے اور یسوع مصلوب ہونے سے پہلے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری فسح کھا چکا تھا۔ یہی وہ فسح تھی جسکی تیاری کا ذکر ہمیں یوں ملتا ہے : ’’اور عید فطیر کا دن آیاجس میں فسح ذبح کرنا فرض تھا۔ْ اور یسوع نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جا کر ہمارے کھانے کے لئے فسح تیار کرو۔ْ ‘‘ (لوقا ۲۲: ۸،۷)۔ یہی وہ موقع تھا جب یسوع نے شاگردوں کے پاؤں دھوئے اور اسی رات یسوع پکڑوایا گیا۔ یہ منگل ہرگز نہ تھا۔ خدارا ! اتنی بڑی تاریخی غلطی نہ کریں یہ تیاری کا دن سبت کی تیاری کا دن ہے جیسا کہ اوپر واضح طور پہ بیان کیا گیا ہے کہ سبت کا دن شروع ہونے کو تھا ۔
یونانی لفظ Paraskeue کا ترجمہ تیاری کا دن کیا گیا ہے۔ Paraskeueسے مراد ہفتے کا چھٹا دن یعنی سبت سے پہلا دن ہے ۔ آج بھی یونانی یہودی جمعے کے دن کو Paraskeue کہتے ہیں۔ پس تیاری کا دن بدھ کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر فرض کر لیں کہ یہ بدھ ہی تھا تو پھر سبت کس حساب سے شروع ہوتا ہے؟ بدھ کے بعد جمعرات اور جمعہ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں کہ دو دن پہلے ہی سبت کی تیاری کر کے بیٹھ جائیں؟ کیا ہم اتوار سے ایک دن پہلے ہفتے والے دن ہی عبادت کی تیاری نہیں کرتے؟ یا پھر دو دن پہلے جمعرات کو تیار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں؟ آپ بھی سوچئے۔
یو ناہ نبی کے نشا ن کے با رے میں یسوع مسیح خو د بیا ن کر تا ہے:’’اِس زمانہ کے بُرے اور زنا کا ر لو گ نشا ن طلب کر تے ہیں مگر یو نا ہ نبی کے نشان کے سوا کو ئی اور نشا ن اُن کو نہ دیا جا ئے گا ۔ْکیو نکہ جیسے یو نا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہاویسے ہی ابن آ دم تین را ت دن زمین کے اندر رہے گا۔ْ‘ ‘ (متی ۱۲:۳۹،۴۰)۔ بمطابق انگریزی ترجمہ:
An evil and adulterous generation craves for a sign; and yet no sign shall be given to it but the sign of Jonah the prophet; for just as Jonah was three days and three nights in the belley of the sea monster, so shall the Son of man be three
days and three nights in the heart of the earth. (Matthew 12 :39,40)
اُردو تر جمہ کے مطا بق یو نا ہ مجموعی طور پرتین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا جبکہ انگریزی ترجمہ کے مطا بق یو نا ہ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ۔ مزید وضا حت کے لئے ہم یو نا ہ کی کتاب کے اصل متن میں دیکھتے ہیں :’ ’لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یو نا ہ کو نگل جا ئے اور یونا ہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ْ ‘ ‘ (یو نا ہ ۱: ۱۷) اب اس کا انگریزی ترجمہ بھی ملاحظہ ہو:
And the Lord appointed a great fish to swallow Jonah, and Jonah was in the stomach of the fish for three days and three
nights . (Jonah 1:17)
یہا ں بھی دو نو ں تراجم ایک دو سرے سے اسی لحا ظ سے فر ق نظر آ تے ہیں لیکن اگر اُردو تر جمے کو درست تصور کیا جا ئے تو پھر اِس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ انگریزی تر جمہ غلط ہے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ اُردو تر جمہ اصل عبرا نی متن سے قریب تر ہے ۔ یسوع مسیح واقعتا تین رات دن زمین کے اندررہا ۔تین رات دن سے مرا د : (i) جمعہ کی را ت (ii) ہفتے کا دن (iii) ہفتے کی را ت یعنی یہ کل ملا کر تین رات دن بنتے ہیں ۔ دراصل معترض کو اعترا ض ترجمے کی صحت پر ہونا چا ہئے نہ کہ اِس بات پر کہ یو نا ہ کا نشان پو را نہیں ہوتا۔جنا ب ! یو نا ہ کا نشا ن تو بڑے ہی خو د کا ر طریقے سے پو را ہورہا ہے پتہ نہیں آ پ کو سمجھ کیو ں نہیں آ رہا ؟ جمعے کی را ت ، ہفتے کا دن اور پھر ہفتے کی را ت مل کر تین رات دن ہی بنتے ہیں نہ کہ تین دن اور تین را تیں ہیں ۔
یو نا ہ کے نشان کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یو نا ہ مچھلی کے پیٹ کے اندر زندہ تھا جبکہ مسیحی کہتے ہیں کہ یسو ع مسیح مرنے کے بعد قبر میں رکھا گیا ۔ اگر یو نا ہ کے نشان پر غو ر کریں تو یہ بات تین رات دن کے حوالہ سے ہے نہ کہ زندہ یا مُردہ حالت کے لئے ۔ با رہویں باب میں ہم یہ ثا بت کر چکے ہیں کہ یسوع مسیح صلیب پر موا اور پھر دفن کیا گیا۔ آ خر قبر کے اندر کی حالت کیا تھی ؟ یسوع مسیح قبر کے اندر کیا کر تا رہا ؟ پطرس رسول ہما ری یہ مشکل آ سا ن کر دیتا ہے : ’ ’وہ جسم کے اعتبا ر سے تو ما را گیا لیکن رُو ح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا ۔ْ اُسی میں اُس نے جا کر اُن قیدی رُو حوں میں منا دی کی ۔ْ جو اُس اگلے زمانہ میں نا فر ما ن تھیں جب خدا نو ح کے وقت میں تحمل کر کے ٹھہرا رہا تھاا ور وہ کشتی تیار ہو رہی تھی جس پر سوار ہو کر
تھو ڑے سے آ دمی یعنی آ ٹھ جا نیں پا نی کے وسیلہ سے بچیں ۔ْ اور اُس پا نی کا مشا بہ بھی یعنی بپتسمہ یسوع مسیح کے جی اٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں بچا تا ہے اُس سے جسم کی نجا ست کا دُور کر نا مراد نہیں بلکہ خا لص نیت سے خدا کا طالب ہو نا مرا د ہے۔ْ‘ ‘ (۱۔ پطرس۳:۱۸۔۲۱)
مندرجہ بالا اقتباس سے ایک بات کھل کر سامنے آ تی ہے کہ یسوع مسیح کا جسم تو قبر میں تھا مگر اُس کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں منا دی کر رہی تھی ۔اِس خیال کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور حوالہ پیش کر نا چا ہوں گا: ’ ’جب وہ عالمِ بالا پر چڑھا تو قیدیو ں کو سا تھ لے گیا اورآ دمیوں کو انعا م دئیے ۔ْ ( اُس کے چڑھنے سے اور کیا پا یا جا تا ہے سوا اس کے کہ وہ زمین کے نیچے کے علا قہ میں اُترا بھی تھا؟۔ْ اور یہ اُترنے والا وہی ہے جو سب آسما نو ں سے بھی اوپر چڑھ گیا تا کہ سب چیزو ں کو معمو ر کر ے)۔ْ ‘ ‘ (افسیو ں ۴:۸۔۱۰)
پس یہ بات بڑے وثو ق سے کہی جا سکتی ہے کہ یسوع مسیح کی رُو ح قیدی رُو حو ں میں جو عالمِ اروا ح میں تھیں منا دی کر نے گئی جبکہ اس کا جسم قبر میں رہا ۔ اگر ہم کہیں کہ یسوع مسیح جسم سمیت قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے گیا تو دُرست نہیں ہوگا کیو نکہ اُسے عالمِ اروا ح میں بحیثیت رُو ح ہی جا تا تھا ۔ رُو ح منا دی کر نے کے بعد جسم میں واپس آ ئی اور پھر یسو ع مسیح زندہ ہوا اِسی لئے یسوع نے مر یم سے کہا کہ مجھے نہ چھوُ ، میں ابھی تک باپ کے پاس نہیں گیا یعنی یسو ع مسیح رُو حا نی حالت میں منا دی کر نے عالمِ اروا ح میں گیا نہ کہ سیدھا باپ کے پاس جسما نی حالت میں ۔قیدی رُو حو ں میں منا دی کر نے کا مقصد یہ تھا کہ جو لو گ یسوع مسیح کے دو رِ خو شخبری سے پیشتر مر چکے ہیں انہیں عالمِ اروا ح میں خو شخبری سنا ئی جائے تا کہ وہ بھی اِس خو شخبری پر ایمان لا کر نجا ت حاصل کر یں یعنی یسو ع مسیح اپنے نجات کے پیغام کو تما م جہا نو ں اور تما م ادوار کے لئے یکسا ں یا Universalizeکر رہا ہے ۔ یسو ع مسیح صرف مو جو د ہ جہا ن کے لئے ہی نہیں بلکہ ما ضی اورمستقبل کو بھی نجا ت کی خو شخبری دے رہا ہے:
(i) زمین کے نیچے پا تال میں قیدی رُو حیں جو بر گشتگی میں تھیں زمانہ ما ضی
(ii) زمین کے اوپر اُس وقت کے لو گ جو یسوع پر ایمان لا ئے زمانہ حال
(iii) زمین کے اوپر آ ئندہ جہان والے یسو ع کے تا بع ہو ں زما نہ مستقبل
یسو ع مسیح نے اپنی نجات کے پیغام کو ابتدا سے انتہا تک مکمل کیا ۔یو حنا ۱۷:۲۰،۲۱ میں یسوع نجات کے پیغام کو عالمگیر کر رہا ہے : ’ ’میں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کر تا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایما ن لا ئیں گے تاکہ وہ سب ایک ہو ں۔ْ‘ ‘
یسوع مسیح کی صلیبی مو ت کو ہم با ئبل مقدس سے ثا بت کر چکے ہیں لیکن یسوع مسیح کی مو ت پر ایک اعترا ض یہ بھی ہے کہ اگر مرنے والا یسوع مسیح ہی تھا تو پھر اُس کی لا ش تیسرے دن تک صیح حالت میں کیسے رہی ؟اِس میں گلنے سڑنے کا عمل کیو ں شروع نہ ہو ا ؟ یسوع مسیح کی مو ت کو اِس پہلو سے دیکھنے کے لئے ہمیں اپنے مطالعہ کو وسیع کرنا ہو گا ۔ موضوع پربحث شروع کر نے سے پہلے ہمیں یہ با ت ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسو ع مسیح نہ تو کو ئی بو ڑھا آ دمی تھا اور نہ ہی بیما ری کی وجہ سے اُس کا جسم کمزو ر تھا۔ اُسے تندرست حالت میں گرفتار کیا گیا اورانسا نی جسم اتنا حساس نہیں کہ مرنے کے فو راً بعد گلنا سڑنا شروع ہوجا ئے ۔ انسا نی لاش گلنے سڑنے کے دو ران مختلف مرا حل سے گزرتی ہے لیکن اعترا ض کی نو عیت اور مدت کو مد نظر رکھتے ہو ئے میں یہا ں صرف پہلے مر حلے کو ہی بیان کرو ں گا ۔
Decomposition یا گلنے سڑنے کا ابتدا ئی یا پہلا مر حلہ تدفین کے چند روز بعدباضابطہ طور پر شروع ہو تا ہے ۔ ابتدا ئی مر حلے میں انسا نی جسم کا درجہ حرا رت کم سے کم در جہ تک چلا جا تا ہے اور اس کے سا تھ سا تھ جسم میں مو جود با فتیں نا کا رہ ہو کر کیمیا ئی عمل کا حصہ بننا شروع ہو جا تی ہیں، جسم با لکل سخت حالت میں اکڑ جا تا ہے اور کیڑو ں کا حملہ شروع ہو جا تا ہے۔ یہ کیڑے اسی حملے کے دو ران نئے انڈے دیتے ہیں ۔ پہلے مر حلے میں حملہ کر نے والے کیڑو ں کا تعلق Diptera یا Calliphoridae گروہ سے ہوتا ہے ۔ اِس مر حلے میں بیکٹیر یا کا بڑا اہم کر دا ر ہے جو انسا نی جسم میں مو جود کا ربو ہا ئیڈ ریٹس اور پرو ٹین وغیرہ کو تحلیل کر تا ہے ۔ گلنے سڑنے کے عمل میں خو ن ایک محرک کا کر دا ر ادا کر تا ہے۔ اگر دیکھا جا ئے تو یسو ع مسیح کا خو ن صلیب پر ہی بہہ چکا تھا یعنی یسوع کی لاش کا تیزی سے گلنا سڑنا مشکل تھا ۔ یسوع کی لاش دو را تیں اور ایک دن قبر کے اندر رہی ،گلنے سڑنے کا عمل چند روز بعد شروع ہوتا ہے کیا مسیح کے لئے یہ ایک دن بعد ہی شرو ع ہو جا ناتھا ؟ اگر مرنے والے کا جسم بیما ری کی وجہ سے خرا ب نہ ہوا ہو تو ایک دو دن تک لا ش کو سر د خانے کی بجا ئے گھرو ں میں ہی رکھ لیتے ہیں تاکہ دو ردرازسے آنے والے عزیز و اقا ر ب بھی مر نے والے کا آ خری دیدار کر سکیں ۔ نیز ہمیں یہ با ت بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یسوع مسیح کی مصلو بیت کے وقت سر دی کا موسم تھا اور یہ سردی اس قدر تھی کہ لوگ آ گ تا پتے تھے: ’ ’نوکر اور پیادے جا ڑے کے سبب سے کو ئلے دہکا کر کھڑے تاپ ر ہے تھے اور پطرس بھی اُن کے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا۔ْ ‘ ‘ ( یو حنا ۱۸:۱۸) اب مو سم کیو نکہ سردی کا تھا اِس لئے لا ش کے جلد سڑنے کے امکا نا ت اور بھی کم تھے ۔جب اتنے سا رے ثبو ت آ پ کے خلا ف ہیں تو پھر آ پ کیو ں اپنے با طل مو قف پر بضد ہیں ؟آپ کیوں اِس نبوت کو باطل ثا بت کر نے کی ناکا م کو شش کر رہے ہیں: ’ ’کیونکہ تو نہ میری جا ن کو پا تال میں رہنے دیگا اور نہ اپنے مقدس کو سڑنے دیگا۔ْ ‘ ‘(زبور ۱۶:۱۰)۔
No comments:
Post a Comment